کائنات کس چیز میں پھیل رہی ہے؟
ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ اگر کائنات لامحدود ہے اور مسلسل پھیل رہی ہے تو یہ کس چیز میں پھیل رہی ہے۔
کائنات کے پھیلاؤ کو سمجھنے کے لئیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے زمان و مکان (سپیس ٹائم) کو سمجھا جائے کیونکہ کائنات کا پھیلاؤ دراصل سپیس یا مکان کے پھیلاؤ کا ہی دوسرا نام ہے۔ سپیس جسے عام فہم اُردو میں خلاء بھی کہا جاتا ہے، اپنے نام کے برعکس قطعاً خالی نہیں ہے بلکہ خلاء میں عدم سے وجود میں آتے ایسے مائیکروسکوپک پارٹیکلز موجود ہیں جنہوں نے خلاء کا ایسا ٹیکسچر قائم کر رکھا ہے۔ آئن سٹائن نے سپیس کو ایک ایسے کپڑے سے تشبیہہ دی جس پے وزن رکھنے سے وہ نیچے کی طرف جھُک جاتا ہے اور اسے موڑا بھی جا سکتا ہے۔ جنرل ریلیٹیویٹی کی تھیوری میں مساواتوں کی مدد سے پہلی دفعہ آئن سٹائن نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہی خلاء اپنے لئیے مزید خلاء بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کششِ ثقل کی تھیوری میں آئن سٹائن کی دوسری بڑی دریافت کاسمولاجیکل کانسٹنت تھا جس کا مطلب تھا کہ سپیس اپنی ایک اینرجی رکھتی ہے اور جتنی زیادہ سپیس بنتی جائے گی اُتنا ہی سپیس کی اس اینرجی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ بعد ازاں سپیس کی اس اینرجی کو ڈارک انرجی کا نام دیا گیا جو سپیس کو لامحدودیت کی جانب کھینچے جا رہی ہے۔ کوانٹم فزکس کی رو سے سپیس ایک ایسا دانے دار فیبرک ہے جہاں ہمہ وقت ہلچل ہو رہی ہے جس سے سپیس میں اُدھیڑ بُن کا عمل ہر وقت جاری ہے۔ بہرحال فزکس کی یہ دونوں شاخیں سپیس کو ایک لچکدار کپڑے یا ربڑ کی ایسی شیٹ سے تشبیہہ دیتی ہیں جو کہ بالکل بھی ایبسولوٹ نہیں ہے اور جسے موڑا، جھکایا اور کھینچا جا سکتا ہے۔
کائنات کا پھیلاؤ دراصل خلاء کا ہی پھیلاؤ ہے ورنہ گیلیکسیز تو ریلیٹیولی اپنی جگہ پے ہی موجود ہیں۔ اسے سائنسدان غبارے کی مثال سے سمجھاتے ہیں۔ ایک غبارے پے مارکر سے نزدیک نزدیک کچھ نشان لگا دیں اور پھر غبارے میں ہوا بھریں۔ آپ دیکھیں گے کہ غبارے میں ہوا کے بھرنے سے تمام نشانات ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ نشانات تو دراصل اپنی اپنی جگہ پے قائم ہیں مگر غبارہ پھیل رہا ہے جس کی وجہ سی ان نشانات کے مابین فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں غبارہ سپیس ہے اور مارکر کے نشان گیلیکسیز ہیں۔ مکان کے پھیلاؤ کے باعث ہی کہکشاؤں کے آپس کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے، جسے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خلاء لمحہ بہ لمحہ کم سے کم کثیف ہوتی جا رہی ہے۔
کائنات کا مشاہدہ روشنی کی بدولت ممکن ہے۔ کائنات کے دور دراز کے حصّوں سے ہم تک پہنچنے والی روشنی کی مدد سے ہم اس وقت کائنات کا جتنا حصہ دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں وہ چھیالیس بلئین نوری سال ہے۔ ہر وہ چیز جو اس چھیالیس بلئین نوری سال کے ریڈئیس سے باہر ہے، ہم تک نہیں پہنچی اور نہ ہی کبھی ہم تک پہنچ سکے گی کیونکہ خلاء کے پھیلاؤ کے باعث خلائی اجسام کے آپس کا فاصلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے اور اجسام ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پے مستزاد یہ کہ کائنات کا سائز ہماری مشاہداتی کائنات سے قریباً دس کی طاقت تئیس گُنا بڑا ہے جسے ہم کائنات کے پھیلاؤ کے باعث کبھی دیکھ بھی نہیں سکیں گے۔ سو اگر کائنات کا کوئی بارڈر ہے بھی تو وہ بھی ہمارے مُشاہدے کے بس کی بات نہیں۔ کچھ سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ سپیس راؤنڈ ہے، اگر ہم سپیس میں کسی ایک پوائنٹ سے دوسرے پوائنٹ کی طرف سفر شروع کریں گے تو سفر کرتے کرتے واپس اسی پوائنٹ پے پہنچ جائیں گے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ کائنات کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ اختتام۔
سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ یہ سوال کہ کائنات سے باہر کیا ہے، ایک بودا سوال ہے۔ چونکہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے سو یہ لامحدود ہے۔ مگر کچھ سائنسدان جو ملٹی پل یونیورس کی تھیوری پے کام کر رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ہو سکتا کہ ہماری سپیس پھیلتے پھیلتے کسی دوسری یونیورس میں شامل ہو گئی ہو۔ اس ضمن میں کائنات میں کولڈ سپاٹ سائنسدانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہؤا ہے۔ یہ سپیس میں وہ جگہ ہے جہاں کا درجہ حرارت باقی کی سپیس کی نسبت کاسمک ریڈی ایشن میں بہت کم آیا ہے۔ اس کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شائد ہماری کائنات اس مقام پے کسی دوسری کائنات سے ٹکرائی ہو جس کے نتیجے میں خلاء میں یہ "زخم" کا نشان بن گیا ہو گا۔ اس کولڈ سپاٹ کو "کاسمک بروز" بھی کہا جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہماری کائنات سے باہر کوئی اور کائنات یا کائناتیں موجود ہیں تو ہر کائنات میں طبیعات کے قوانین دوسری کائنات سے الگ ہوں گے، یہاں پھر اپنی کائنات سے باہر نکلنے کی سعی پے قدغن لگ جاتی ہے۔
ہر وہ چیز جس کو پرکھا جا سکے اور جس پے تجربات کئیے جا سکیں سائنس کے مطالعہ میں شامل ہے، اور ہر وہ چیز جس کو تجربات سے پرکھا نہ جا سکتا ہو فلسفہ کہلاتی ہے۔ کائنات کی محدودیت یا لامحدودیت کا سوال بھی اب تک سائنس کی حدود سے باہر کی چیز تھا اور اسے فلسفے یا مابعد الطبیعات کے موضوعات میں ڈسکس کیا جاتا تھا۔ مگر ڈارک اینرجی اور ڈارک میٹر کی دریافت کے بعد کائنات کی ہئیت اور اس کی لامحدودیت پے سائنسی فکر کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چُکا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اب یہ نئی دریافتیں کائنات کے متعلق کیا انکشافات کرتی ہیں۔
بشکریہ: جون بخاری
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“