1930ء کے عشرے میں طبیعیات دان کائنات کے ماخذ کو جاننے سے زیادہ سورج اور ستارے کے کام کرنے کے طریقوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ تخلیق کا اسرار اس وقت تک مابعد طبیعیات دانوں کو سائنسی دائرہ کار کے اندر کا موضوع بحث نہیں لگتا تھا؛ اور ستاروں کے چمکنے کا اسرار تحیر انگیز بھی تھا اور یہ ایسی چیز تھی جس کو طبیعیات کی نئی انقلابی فکر میں سجھا گیا تھا جو صرف 1920ء کے عشرے میں ہی نکلی تھی۔ تاہم جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا کہ اس تفتیش نے کہ ستارے کس طرح گرم رہتے ہیں براہ راست بحیثیت مجموعی کائنات اور خود بگ بینگ کے فہم کو بہتر کیا۔
ہمارا سورج قریب ترین ستارہ ہے جس کے بارے میں ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ اگر فلکیات دانوں کو ستاروں کے عمومی کام کرنے کے طریقے کی معلومات درکار تھی تو ان کو کم از کم ہمارے اپنے سورج کے کام کرنے کے طریقے کو جاننا تھا۔ تاہم شروع میں تو نئی طبیعیات، کوانٹم طبیعیات بھی اس کام کے لئے ناقابل کافی لگتی تھی۔
تمام دستیاب ثبوت واضح طور پر بتا رہے تھے کہ زمین جیسی چار یا پانچ ارب برس کی عمر ہی سورج کی تھی، اور انیسویں صدی کے طبیعیات دان سمجھتے تھے کہ کوئی عام کیمیائی احتراقی تعامل سورج کو اس قدر لمبے عرصے تک گرم نہیں رکھ سکتا تھا۔ مثال کے طور پر کوئلے کی ایک ٹھوس گیند جو سورج کے حجم کی ہو اور خالص آکسیجن کے ماحول میں جلے تاکہ اتنی ہی مقدار میں ہر سیکنڈ میں حرارت کو پیدا کر سکے جتنی سورج آج کر رہا ہے تو وہ صرف 1,500 برس تک ہی جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گی۔وہ پہلی کوشش جس میں یہ بیان کیا گیا کہ کس طرح سے ستارے بہت طویل عرصے تک گرم رہ سکتے ہیں وہ ایک فلکیاتی طبیعیاتی عمل تھا، ایک ایسا عمل جو ستارے میں تو کام کر سکتا ہے تاہم یہاں زمین پر نہیں، یہ تصور انیسویں صدی کے دوسرے نصف حصّے میں جرمن طبیعیات دان ہرمن ہیلم ہولٹز اور برطانوی طبیعیات دان ولیم تھامسن (بعد میں لارڈ کیلون جس کے اعزاز میں مطلق درجہ حرارت کے پیمانے کا نام رکھا گیا) نے پیش کیا تھا۔
ہیلم ہولٹز اور تھامسن دونوں اپنے دور میں دنیائے سائنس کی اہم شخصیات تھیں جن کی دلچسپی مختلف شعبوں میں تھی۔ ان کی آپس کی شناسائی زمین کی اور اس طرح سورج کی عمر معلوم کرنے کے باہمی دلچسپی کے معاملے میں ہوئی۔1854ء ہیلم ہولٹز 2 کروڑ 50 لاکھ کی عمر کے ساتھ نمودار ہوا؛ تھوڑے عرصے بعد، تھامسن تھوڑی سے زیادہ عمر کے ساتھ آیا جس میں اس نے 10 کروڑ برس کی عمر کا اندازہ لگایا۔ جیسا کہ اب ہم جانتے ہیں کہ تھامسن نے بھی نظام شمسی کی عمر کا تخمینہ دس گنا کم لگایا۔ تاہم یہ اندازے اس تخلیق کے چند ہزار برس پہلے کے تصور سے کافی دور تھے جو اس وقت کچھ گرجا گھروں کے حکام سمجھتے تھے (ڈارون کا انواع کا ماخذ 1859ء میں شایع ہوئی تھی؛ ہیلم ہولٹز اور تھامسن کا زمین کی عمر کا تخمینہ چھپے ہوئے سائنسی اعداد و شمار سے بہت دور تھا اور اس دور میں ہونے والی عظیم سائنسی اور فلسفیانہ بحث سے تعلق رکھتی تھی)۔ تاہم وہ توانائی کہاں سے آتی ہے جو سورج کو کروڑوں برس سے گرم رکھے ہوئے ہے؟
اس کا جواب 'کشش ثقل' لگ رہا تھا۔ اگر سورج کی شروعات مہین گیس کے بادل سے خلاء میں ہوئی تھی جو ایک دوسرے پر ساقط ہوتے ہوئے اپنے کشش ثقل کے کھنچاؤ کی وجہ سے مزید دبی ہوئی گیند میں گر رہے تھے تو وہ منہدم ہوتے ہوئے گرم ہو گئے ہوں گے۔ اگر آپ کسی اسپرنگ کو کھینچیں تو آپ کو اسپرنگ میں موجود لچک کی قوّت پر قابو پانے کے لئے کام کرنا پڑے گا (اس میں توانائی ڈالنی ہوگی)، جب آپ اسپرنگ کو چھوڑ دیں گے تو توانائی اس میں سے نکلے گی۔ اسی قسم کی چیزیں اس وقت وقوع پذیر ہوں گی جب آپ زمین سے وزن کو اوپر اٹھائیں گے۔ آپ اس صورت میں اس میں توانائی کو ثقلی قوه توانائی کی شکل میں وزن میں داخل کر رہے ہوں گے۔ جب آپ وزن کو چھوڑیں گے تو وہ توانائی حرکی توانائی میں اس وقت تبدیل ہو جائے گی جب وزن گرے گا اور حرکی توانائی حرارت میں اس وقت بدلے گی جب جب زمین وزن کو نیچے گرنے سے روک دے گی۔ وہ تمام ذرّات جنہوں نے سورج کو بنایا ہے وہ اس کے مرکز میں گرنا 'پسند' کریں گے، نظام کے کمیت کے مرکز میں جس کا وہ حصّہ ہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ ثقلی قوہ توانائی دیں گے جس کی حتمی صورت حرارت کی ہوگی بعینہ جیسے کہ گرتا ہوا وزن توانائی کو حرارت کی صورت میں خارج کرتا ہے۔ ایک زیادہ دبا ہوا ستارہ منتشر ستارے کی نسبت کم توانائی کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ اس کے ذرّاتی اجزاء کمیت کے مرکز کے قریب ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ ہمارے سورج جیسے کسی ستارے سے شروع کریں جو تھوڑا سے بڑا ہو اور اس کو اپنی کشش کے زیر اثر سکڑنے کے لئے چھوڑ دیں تو آپ حرارت کو پیدا ہونے کی امید کر سکتے ہیں۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔