کائنات کی پرسراریت
اگر آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان زمین کو کائنات کا مرکز اور فلیٹ (چپٹا/سیدھا) سمجھتا تھا تو ٹھیک ہی سمجھتا تھا،کیونکہ قریب سے دیکھنے پر کوئی بھی شے چپٹی ہی دکھائی دیتی ہے، اس کی مثال ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ایک فٹ بال لیں اور اس پر چیونٹی کو رکھ دیں تو فٹ بال کی سطح چیونٹی کے لئے چپٹی ہی ہوگی، لیکن جیسے ہی انسان نے مشاہدات کی دُنیا میں قدم رکھا اور سیکھنا سمجھنا شروع کیا تب یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے، جدید فلکیات کا دوسرا اہم انکشاف یہ بھی تھا کہ ہماری زمین کائنات کا مرکز نہیں ،بلکہ کائنات میں موجود ایک ستارے کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ستارہ بھی ایک کہکشاں میں مرکز سے ہٹ کر موجود ہے۔ یہ بہت بڑے انکشافات تھے جسے ہضم کرنا آسان نہیں تھا لیکن آج سے 60 سال پہلے جب انسان اُڑ ان بھر کر خلاء میں پہنچا تو اس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پایا کہ ہم بالکل ٹھیک سمت میں جارہے ہیں۔ اس حقیقت نے سائنسدانوں کے جوش میں اضافہ کیا اور انسان نے 60 سال میں وہ ترقی حاصل کی جو پوری تاریخ انسانی میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔کائنات کی قید میں گرفتار یہ انسان ہمیشہ سے کائنات کے آغاز کے بارے میں متجسس رہا، اسےسمجھنے کے لئے بیشتر تھیوریز پیش کی گئیں مگر کائنات کے پھیلاؤ کے پیش نظر بیگ بینگ تھیوری کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس ضمن میں ایک پریشانی یہ تھی کہ اگر بیگ بینگ واقعی وقوع پذیر ہوا تھاتو شروع میں "کائنات کا مطلع کافی ابر آلود رہا ہوگا "لیکن کچھ سالوں بعد جب مطلع صاف ہوا ہوگا تو روشنی کی کرنیں پوری کائنات میں پھیل گئی ہونگیں لہٰذااُس وقت جو روشنی پیدا ہوئی، اس روشنی کی باقیات آج بھی پوری کائنات میں موجود ہونی چاہیں کیونکہ کائنات کے پھیلنے کے باعث اُس روشنی کو بھی پھیل جانا چاہیے تھا اور اس کی wave length بہت زیادہ ہوجانی چاہیے تھی، لیکن wave length زیادہ ہونے کے باعث اُس روشنی کو عام آنکھ سے دیکھ پانا ممکن نہ تھا، لہٰذا اِس "اندیکھی روشنی کی کرن" کو کھوجنے کے لئے کافی کوششیں کی گئیں لیکن کہیں ان کا نام و نشان نہ دکھائی دیا گیا جس کے باعث بیگ بینگ تھیوری پر بھی سوالیہ نشان لگنا شروع ہوگئے۔ ابھی یہ تلاش جاری تھی کہ 20 مئی 1964ء کی دوپہر کو Wilsonاور Penziasنامی 2 فلکیات دانوں نے اپنی چھت پر موجود ریڈیو انٹینا کو جب ٹھیک کرنا چاہا تو انہیں عجیب و غریب شور سنائی دیا (جوآجکل آپ ٹی وی چینل خراب ہونے پر سنتے ہیں)۔ اس عجیب و غریب شور نے ان کو چونکا دیا اور حیرانگی یہ تھی کہ آسمان میں جس جانب بھی انٹینا کیا جارہا تھا یہ شور کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا،جس وجہ سے انہیں گمان ہوا کہ انٹینا یا تو خراب ہوگیا ہے یا پھر اس پر کوئی ایسی گَرد جمع ہوگئی ہے جس کے باعث سگنلز ملنے میں دشواری ہورہی ہے، لیکن ہر طرح سے تسلی کرلینے کے بعد انہوں نے جب تحقیق کی تو معلوم ہواکہ وہ بیگ بینگ کی بہت بڑی نشانی کو دریافت کرچکے ہیں، یہ شور دراصل وہی "روشنی" ہے جو آج سے 14 ارب سال قبل بیگ بینگ واقعے کے تقریباً 4 لاکھ سال بعد پھُوٹی تھی اور پوری کائنات میں پھیل گئی تھی،اسی خاطر اس شور کو انہوں نے "بیگ بینگ کی گونج" قرار دیا۔ ان radiations کوآج ہم Cosmic Microwave Background Radiations کے نام سے جانتے ہیں،ان لہروں کا درجہ حرارت2.7 کیلون (منفی 270 سینٹی گریڈ )ہے، یہ بہت بڑی دریافت تھی جس نے جدید فلکیات کا رُخ ستاروں سے کائنات کی تسخیر کی جانب موڑ دیا ۔یہ دریافت حادثاتی طور پر بغیر کسی کوشش کے ہوئی تھی لیکن اس کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ اس دریافت پر ان دونوں فلکیات دان کو 1978ء میں نوبل پرائز دیا گیا۔ کاسمک مائیکرو بیک گراؤنڈ ریڈیشن کے مل جانے سے جہاں بیگ بینگ تھیوری کے حق میں بہت بڑا ثبوت ہمارے ہاتھ لگا وہیں کائنات کے آغاز کے متعلق ہمیں کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہوگیا۔ اس دریافت کے ذریعے ہمیں یہ موقع مل گیا کہ کائنات کے ماضی میں جھانک کر اس کو سمجھ سکے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ کائنات کے پھیلاؤ کے باعث CMBR کی ویولنتھ بہت زیادہ ہوگئی جس وجہ سے ہم عام آنکھ سے اسے نہیں دیکھ پاتے اس کو "دیکھنے" کے لئے ناسا نے Explorer 66 اور Wilkinson Microwave Anisotropy Probe (WMAP)لانچ کیا جبکہ دوسری جانب یورپی خلائی ایجنسی نے Planck نامی اسپیس کرافٹ لانچ کیا ان تینوں اسپیس کرافٹس نے ایک ایک کرکے خلاء میں پہنچ کر ان ریڈیائی لہروں کا ڈیٹا حاصل کیا اور کائنات کے "بچپن"کی تصاویر بنانے کی کوشش کی،شروع میں ان مشنز کو کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے کائنات کے شروع کے ادوار کا نقشہ حاصل کرلیا۔اس نقشہ جات کے ذریعے ہمیں نئی معلومات ملیں جنہوں نے بیگ بینگ تھیوری پر مہر تصدیق ثبت کیں۔ان معلومات کے ذریعے سائنسدانوں کو ہماری کائنات کی شروع کے ادوار کے علاوہ کائنات کی شکل بھی سمجھنے میں مدد ملی۔ سائنسدانوں کا اندازہ تھا کہ ہماری کائنا ت کی شکل تین طرح کی ہوسکتی ہے۔ یا تو یہ کائنات زمین کی طرح گول ہونی چاہیے ، یا پھر یہ گھوڑے کی کاٹھی کی طرح کناروں سے اٹھی ہونی چاہیے ، اگر یہ دونوں نہیں ہیں تو اس کو چپٹا(صفحے کی طرح سیدھا)ہونا چاہیے۔ مندرجہ بالا مشنز کے ذریعے ملنے والے ڈیٹا کو جب پرکھا گیا تو سائنسدان حیرت زدہ رہ گئے کہ اس ڈیٹا کے مطابق ہماری کائنات نہ گول ہےنہ کاٹھی جیسی بلکہ بالکل چپٹی ہے۔کائنات کی شکل کا اندازہ لگانے کےلئے2 طرح کے طریقہ کار استعمال کیے گئے، سب سے پہلے ان مشنز کے ذریعے ملنے والے ڈیٹا کو جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ ہماری کائنات میں یہ ریڈیائی لہریں ہر جگہ یکساں طور پر موجود ہیں، کہیں گرم ہیں کہیں ٹھنڈی ہیں، نقشے پر گرم علاقے ان جگہوں کو ظاہر کرتے ہیں جہاں پر کائنات کے شروع میں ستارے اور کہکشائیں پیدا ہوئیں، ہمیں معلوم ہے کہ اگر کسی بھی گول چیز پر ہم triangle بنائیں تو ان کا مجموعی زاویہ 180ڈگری سے زیادہ کا ہوگا، اگر کسی چپٹی سطح پر triangleبنائی تو ان کا مجموعی زاویہ 180ڈگری کا ہوگا اور اگر کوئی سطح گھوڑے کی کھاٹی کی طرح کناروں سے اٹھی ہوگی تو اس پر triangle بنانے کے باعث زاویہ 180 ڈگری سے کم ہوگا، بالکل ایسے ہی CMBR کے نقشے پر موجود نشانات سے اسپیس کرافٹ تک triangle بنایا گیا اگر ہماری کائنات میں خم ہوتا تو اس نقشے میں موجود گرم اور ٹھنڈے علاقے ضرورت سے زیادہ جگہ گھیرتے، یعنی ان کے زاویوں میں ایک ڈگری سے زیادہ فرق ہوتا اور اگر ہماری کائنات گھوڑے کی کاٹھی کی طرح کناروں سے اُٹھی ہوتی (hyperbola طرزکی ہوتی) تو ان نشانات کے مابین زاویے میں ایک ڈگری سے کم کا فرق ہوتا، مختصراً کہاجائے تو نقشے میں distortion یا بے ترتیبی ہوتی لیکن ایسا نہیں تھاجس کا مطلب ہے کائنات فلیٹ ہے۔ کائنات کے چپٹے ہونے کو اس طریقے سے بھی سمجھا گیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات کے کسی حصے میں اگر مادے کی مقدار زیادہ ہوگی تو وہاں پر زمان و مکان میں خم پیدا ہوجائے گا سو اگر کائنات میں مادے کی مقدار بہت زیادہ ہو تو کائنات کی شکل گول ہوگی،اگر ایسا ہوتا ہے تو کائنات ایک حد تک پھیلے گی اس کے بعد دوبارہ اسی نقطے میں بند ہوجائے گی جہاں سے بیگ بینگ کے وقت اِس کا آغاز ہوا، اگر کائنات میں مادے کی مقدار کم ہو تو کائنات کی شکل کاٹھی جیسی ہوگی یعنی کناروں سے ابھار ہوگا، اگر کائنات میں مادے کی مقدار اس کی critical density کے برابر ہوتوکائنات فلیٹ ہوگی، اِن دونوں اقسام کی کائناتیں ہمیشہ پھیلتی رہے گی اور بالآخر ٹھنڈی ہوجائے گی۔حساب کتاب کرنے اور ڈیٹا کو کھنگالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کائنات میں مادے کی مقدار اس کی critical density کے برابر ہےجس وجہ سے ہماری کائنات فلیٹ ہے۔ ان تحقیقات کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ ہم دراصل ایک چپٹی کائنات میں رہتے ہیں جو صفحے کی طرح سیدھی ہے اور پھیلتی جارہی ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے ہم زمین پر رہتے ہوئے ہزاروں سال تک اسے فلیٹ سمجھتے رہے کیا ایسی غلطی ہم کائنات کے معاملے میں بھی کررہے ہیں؟ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ہماری قابل مشاہدہ کائنات 93 ارب نوری سال وسیع ہے، ان 93 ارب نوری سال کے باہر کیا ہے ؟ کیا اس کے باہر کائنا ت کا وہ لامتناہی حصہ موجود ہے جس کا دیدار ہم نہیں کرپارہے؟ یہ خیال بھی ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کائنات گول ہی ہو اور 93 ارب نوری سال اس کائنات کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہو جس کی وجہ سے کائنات کا خم ہمیں دکھائی نہیں دے رہا جیسے زمین پر بیٹھے ہوئے ہم زمین کے خم کو عام آنکھ سے نہیں محسوس کرپاتے، کائنات کی پرسراریت کے باعث بےشمار "معصوم سوالات" ہمارے ذہن پر ہرلمحہ سوار رہتے ہیں لیکن کائنات کی وسعتوں کے باعث آنے والے اربوں سالوں تک ہم اسکے باہر موجود مظاہر کا نظارہ نہیں کرسکیں گے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو ٹھیک ہوگا کہ ہم شاید کبھی بھی نہ جان پائیں کہ اس 93 ارب نوری سال کے باہر کیا ہے!۔ دیکھا جائے تو ہماری یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ زمین جیسے نقطے پر رہتے ہوئے ہم کائنات کےگوشوں پر پڑے پردے اٹھا رہے ہیں اور آج ہم اپنی کائنات کے متعلق بہت کچھ نہیں تو کافی کچھ سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔CMBR کے ذریعے سائنسدانوں کو دوسرا چکرا دینے والا انکشاف inflation theory کی صورت میں ملا، جس کو اگلے حصے میں سمجھیں گے۔
اب تک کائنات کی پیدائش کے متعلق پیش کیے گئے نظریات میں سب سے مضبوط نظریہ بیگ بینگ کا ہے،لیکن اس میں بھی کچھ سقم موجود ہیں جن کا حل وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں ملتا جارہا ہے۔جُوں جُوں ہم ترقی کررہے ہیں مشاہدات ہمیں بیگ بینگ واقعے کی حقیقت کی جانب تیزی سے لے کر جارہے ہیں۔مضمون کے پچھلے حصے میں ہم نے سمجھا کہ کیسے مائیکرو ویوز بیک گراؤنڈ ریڈیشن (CMBR)کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اور بیگ بینگ کے ظہور کا ثبوت ہمیں فراہم کرتی ہیں۔آج سے 70 سال پہلے سائنسدانوں نے بیگ بینگ کے متعلق اُٹھنے والے سوالات کے جوابات ڈھونڈنا شروع کیے تو ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ہمیں آنے والا وقت مزید ورطہ حیرت میں ڈبو دے گا۔ بیگ بینگ نظریے پر تین بہت بڑے اعتراضات سامنے آئے۔ پہلا اعتراض کائنات کا چپٹا ہونا تھا، سائنسدانوں کا ماننا تھا کہ اگر واقعی بیگ بینگ وقوع پذیر ہوا ہے تو کائنات کو چپٹا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں خم ہونا چاہیے تھا، جیسے زمین گول ہے ہماری کائنات کو ویسا گول ہونا چاہیے تھالیکن ہم نے پچھلے حصے میں مفصل انداز میں سمجھا کہ کیسے کائنات اب تک کی معلومات کے مطابق فلیٹ ہے،اس اعتراض کو فلکیات میں Flatness problem کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرا بڑا اعتراض یہ سامنے آیا کہ ہماری کائنا ت کو پیدا ہوئے تقریباً 13.8 ارب سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اگر آپ خلاء میں کھڑے ہوکر ٹیلی سکوپ کی مدد سے اپنے سیدھے ہاتھ پر موجود کائنات کے 13 ارب نوری سال دُور علاقے میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ اُس علاقے میں کہکشاؤں کی مقدار تقریباً اتنی ہی ہے جتنی آپ کے بائیں ہاتھ پر موجود کائنات کے 13 ارب نوری سال دُور علاقے میں ہے۔ یعنی اِن دونوں علاقوں کے مابین 26 ارب نوری سال کا فاصلہ موجود ہے، اور کائنات کو پیدا ہوئے 13.8 ارب سال گزر چکے ہیں، ان دونوں علاقوں کے مابین کوئی تعلق قائم نہیں ہوپایا اس کے باوجود دونوں علاقوں کا درجہ حرارت اور مادے کی مقدار ایک جیسی کیسے ہے؟ اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ آپ پانی کا گلاس لیں، آپ نے گلاس کے ایک کنارے پر Red رنگ کی سیاہی کا قطرہ ڈالا، جبکہ دوسرے کنارے پر blueرنگ کی سیاہی کا قطرہ ڈالا، سرخ اور نیلے رنگ کے ملاپ سے purple رنگ بننا چاہیے، اور فرض کیجئے ان دونوں قطروں کو پورے گلاس میں پھیلنے کے لئے دس منٹ کا وقت درکار ہے جسکے بعد پورے گلاس میں پانی کا رنگ purpleہوجائے گا، لیکن آپ 1 منٹ بعد دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورے گلاس میں پانی purple رنگ کا ہوگیا ہے، آپ لازمی پریشان ہونگے کہ ابھی تو ان دونوں رنگوں کا ملاپ ہونے کےلئے کافی وقت درکار تھا اس سے پہلے ان دونوں نے ملکرتمام پانی کو purpleکیسے کردیا؟ بالکل کچھ ایسا ہی سوال سائنسدانوں کے ذہنوں میں گونجنا شروع ہوگیا کہ کائنات کے 2 ایسے کنارے جو 26 ارب نوری سال دور ہیں ان دونوں کا درجہ حرارت اور کہکشاؤں کی مقدار ایک جیسی کیسے ہے؟اس اعتراض کو فلکیات میں Horizon Problem کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابھی ان 2 سوالوں نے بیگ بینگ نظریے کے حامیوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا تھا کہ تیسرا اعتراض بھی سامنے آگیا۔سٹرنگ تھیوری، گرینڈ یونیفائیڈ تھیوری اور تھیوری آف ایوری تھنگ (Theory of Everything) یہ بتاتی ہیں کہ بیگ بینگ واقعے کے وقت کائنات میں موجود تمام قوتیں (forces)ایک تھیں، بیگ بینگ سے کچھ وقت بعد یہ قوتیں الیکٹرومیگنیٹک فورس، ویک نیوکلئیر فورس ، سٹرانگ نیوکلئیر فورس ،کشش ثقل اور دیگر اقسام کی قوتوں میں تقسیم ہوگئیں۔یہی تھیوریز یہ بھی پیشنگوئیاں کرتی ہیں کہ اگر واقعی بیگ بینگ جیسا کوئی واقعہ ماضی میں وقوع پذیر ہوا ہے تو کائنات میں جگہ جگہ یک قطبی مقناطیسی میدان (magnetic monopoles)ہونے چاہیے تھے، لیکن ہمیں کائنات میں کہیں بھی ایسا کوئی یک قطبی مقناطیسی میدان دکھائی نہیں دیتا۔یک قطبی مقناطیس کے معنی ہیں کہ مقناطیس 2 قطب پر مشتمل ہوتا ہے،North poleاور South pole، آپ ایک مقناطیس کو 2 حصوں میں تقسیم کردیں، تو نئے وجود میں آنے والے مقناطیس بھی 2 قطبین (pole)پر مشتمل ہونگے یعنی نارتھ پول اور ساؤتھ پول، جس کامطلب ہے کہ آپ مقناطیس کو جتنا مرضی تقسیم کرلیں اس کے 2قسم کے ہی قُطب موجود رہیں گے، کوئی بھی مقناطیس یک قطبی نہیں ہوسکتا، اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ سائنسدانوں کو بھی فی الحال معلوم نہیں۔بہرحال کائنات میں کہیں بھی یک قطبی مقناطیسی میدان موجود نہیں ،مختلف لیبارٹریز میں کوشش کی گئی کہ جیسے دیگر کوانٹمی ذرات کو تلاش کیا گیا شاید کوئی مونوپول ذرہ بھی دریافت ہوجائے جسے بیگ بینگ واقعے کا اہم ثبوت مانا جاسکتا ہو لیکن ہماری زمین کیا، کائنات کے کسی گوشے میں ایسا کوئی ذرہ یا علاقہ دریافت نہ ہوسکا جس وجہ سے بیگ بینگ پر اُٹھنے والے اعتراضات ٹھیک معلوم ہونے لگے، یک قطبی مقناطیس کی غیرموجودگی کے اعتراض کو Monopole Problem کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی تیسرے اعتراض کو سمجھنے کے لئے کئی سائنسدانوں نے سرتوڑ کوشش کی مگر 1979ء میں ایلن گوتھ نے اس کا ممکنہ حل پیش کیا جس کو ہم آج انفلیشن تھیوری (inflation theory) کے نام سے جانتے ہیں۔ایلن گوتھ نے بتایا کہ ہماری کائنات بیگ بینگ کے باعث پیدا ہوئی لیکن پیدائش کے پہلے سیکنڈ کے کھربویں سے بھی کم سیکنڈ میں یہ کائنات "اچانک" ایک ذرے سے پھیل کر بےپناہ وسیع ہوگئی اور پوری کائنات کی شکل اختیار کرگئی۔یہ انفلیشن کا دور (inflation era) ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کے لئے تھا اور اس میں کائنات روشنی سے لاکھوں گنا تیزی سے پھیل گئی، یہاں پر عموماً فزکس کے طلباء سوال کرتے ہیں کہ آئن سٹائن کی تھیوری کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی سے تیز حرکت نہیں کرسکتی تو کائنات کیسے روشنی سے لاکھوں گنا تیزی سے پھیل گئی، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ کائنات کے اندر قید کوئی بھی چیز روشنی سے تیز سفر نہیں کرسکتی، لیکن کائنات بذات خود کسی بھی رفتار سے پھیل سکتی ہے۔ انفلیشن تھیوری کے ممکنہ ثبوت بھی کائنات میں ملے ہیں مگر ان کے متعلق سائنسدان چونکہ ابہام کا شکار ہیں اس خاطر ان کو بطور ثبوت اب تک تسلیم نہیں کیا گیا۔سائنسدانوں کے مطابق ہماری کائنات میں پر یہ انتہائی عجیب دور گزرا ہے جس میں "اچانک" سے کائنات ایک ایٹم سے بھی چھوٹے ذرے سے عظیم کائنات میں تبدیل ہوگئی ، یہ اچانک سب ایسا کیوں ہوا؟ خیال یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جیسے روشنی اور دیگر کوانٹمی ذرات موجود ہیں ویسے ہی انفلیشن کا باعث بننے والے inflaton نامی ذرات بھی کائنات میں موجود ہیں ۔2012ء میں سائنسدانوں نے سرن لیب میں اس جیسا ہی ایک ذرہ دریافت کیا تھا لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ ذرہ دراصل ہگز بوزون ہے جو کائنات میں ستارے اور دیگر مادہ کی پیدائش کا باعث بنا۔تجربات کے ذریعے انفلیشن کا باعث بننے والے ذرے کی موجودگی کو معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،اگر inflaton نامی ذرہ حقیقتاً دریافت ہوگیا تو اسے کائنات کی پیدائش کے فوراً بعد بننے والا پہلا ذرہ ہونے کا اعزا ز حاصل ہوجائے گا۔انفلیشن تھیوری کے ذریعے ہمیں بیگ بینگ پر اُٹھائے جانے والے پہلے اعتراض کا جواب بھی مل گیا۔ flatness problem کا جواب یہ ملا کہ کائنات بیگ بینگ کے پہلے ہی سیکنڈ میں اس قدر پھیل گئی کہ ہم جس حصے میں آج موجود ہیں یہ فلیٹ دِکھائی دے رہا ہے، جیسے آپ نے ایک فٹ بال پر پاؤں رکھا ہواور وہ فٹبال اچانک سے پھیل کر زمین جتنی بڑی ہوجائے تو آپ کو وہی فٹ بال گول کی بجائے فلیٹ دِکھائی دے گی، لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ہماری کائنات گول ہو مگر ہم جس حصے یا patch میں رہتے ہیں جسے ہم قابل مشاہدہ کائنات کہتے ہیں جوکہ 93 ارب نوری سال ہےوہ ہمیں فلیٹ دکھائی دیتا ہے،اگر انفلیشن کا دور ہماری کائنات پر سے نہ گزرتا تو ہوسکتا ہے ہمیں کائنات کا خم بھی دکھائی دیتا۔فلیٹنس پرابلم کے بعد دوسرا اعتراض Horizon Problem تھا جس کو اِس تھیوری کے ذریعےحل کیا گیا۔انفلیشن تھیوری کے مطابق انفلیشن سے پہلے جس وقت کائنا ت ایک نقطے میں تھی اس دوران پوری کائنات کو موقع مل گیا تھا کہ اپنے درجہ حرارت کو برابر کرلے اور تمام کثافت کو برابر بانٹ لے، جس وجہ سے آپ کو کائنات میں ہر جگہ ایک جیسا درجہ حرارت اور ایک جیسی مادے کی مقدار دکھائی دے گی، انفلیشن کے باعث ہمیں یوں لگتا ہے کہ کائنات کے کنارے کبھی آپس میں contact میں نہیں تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انفلیشن سے پہلے کائنات کا ہر علاقہ آپس میں contact میں تھا۔تیسرا اعتراض جو Monopole Problem کےنام سے جانا جاتا ہے،اس کا جواب Inflation theory نے ایسے دیا کہ بیگ بینگ کے فوراً بعد انفلیشن کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے پہلے magnetic monopolesوجود میں آگئے تھے مگر انفلیشن کی وجہ سے جب کائنات پھیلی تو یہ مقناطیسی مونوپول انتہائی کمزور ہوگئے، آج یہ اتنے کمزور ہیں کہ ان کو detectکرنا ممکن نہیں ہے۔بیگ بینگ کی گُتھیاں سلجھانے میں انفلیشن تھیوری نے چونکہ بہت کردار ادا کیا اسی وجہ سے انفلیشن تھیوری کو بیگ بینگ کا extended version بھی کہا جاتا ہے۔ اس عجیب و غریب تھیوری نے ایک اور مشکل حل کی ، جدید سائنس نے 2015ء اور 2017ء میں تجربات کے ذریعے تصدیق کی ہے کہ ہر سیکنڈ کے قلیل حصے میں کوانٹم لیول پر ذرات بنتے اور مٹتے رہتے ہیں جسے ہم quantum fluctuations کے نام سے جانتے ہیں، ہمیں نظر آنے والی خلاء دراصل خالی نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قسم کی فیلڈز اور ذرات سے بھری پڑی ہے، سو سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ بیگ بینگ کا واقعہ بھی اسی طرح پیش آیا کہ خلاء میں quantum fluctuationکے باعث کوانٹم ذرہ بنا ،اسی دوران اس میں انفلیشن ہوئی اور وہ کوانٹمی ذرہ سیکنڈ کے کھربویں حصے میں ایک کوانٹم ذرے سے کائنات میں تبدیل ہوگیا۔اُس ذرے میں جہاں پر quantum fluctuations کی density زیادہ تھی ،اس ذرے کے بڑے ہوجانے پر وہ کوانٹم فلیکیچویشنز واپس عدم میں نہ لوٹ سکیں سواُن جگہوں میں مادہ بننا شروع ہوگیا، جوکروڑوں سال بعد ستاروں کی شکل میں سامنے آیا جبکہ بقیہ جگہ خلاء بن گئی۔جدید سائنس جُوں جُوں کائنات کو سمجھتی جارہی ہے ، کائنات اُتنا ہی حیران کن رویہ دکھانا شروع ہوگئی ہے۔اگر ہم ٹھیک سمت میں جارہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اور ہماری کائنات جس کوانٹمی ذرے سے وجود میں آئی جس نےصرف ایک سیکنڈ کی قلیل مدت کے لئے جنم لیا تھا لیکن انفلیشن کے باعث امر ہوگیا ، کیا یہ سب فقط حادثاتی تھا؟ کیا ہم سب یہاں تک کہ ہماری کائنات عدم سے وجود میں آئی؟ کیا یہ بھی ممکن ہے کہ آج کسی کوانٹمی ذرے میں انفلیشن ہوجائے اور ہماری کائنات کے اندر ہی ایک نئی کائنات وجود میں آجائے؟ سائنسدان ہر دن اس متعلق تحقیق میں آگے بڑھ رہے ہیں ، لیکن کائنات کے متعلق ایک پہیلی ہم سُلجھا نہیں پاتے کہ دوسری گھُتی سلجھنے کے لئے منتظر کھڑی ہوتی ہے۔کائنات کا یہ عجیب رویہ اسی خاطر ہے کہ ہم ابھی اپنے نظام شمسی سے باہر نہیں نکل پائے، جس کا احاطہ فقط ایک نوری سال ہے، جبکہ ہماری قابل مشاہدہ کائنات 93 ارب نوری ہے، اور اس سے باہر موجود کائنات کتنی کتنی وسیع ہےاس کا سوچنا بھی محال ہے!
زیب نامہ
بیگ بینگ کے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے:
https://www.facebook.com/hellozaib/posts/1226394714127784
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“