کائنات کا مقصد اور انسان.
کائنات کی عُمر تقریباً 13.8 ارب سال ہے، ہمارے سورج کی عمر 4.6 ارب سال ہے، زمین کی عمر 4.54 ارب سال ہے، زمین پر زندگی کی شروعات 3.5 ارب سال پہلے ہوئی اور اوائلی انسان تقریباً 20 لاکھ سال پہلے نمودار ہوا. اگر کائنات کا مقصد و منتہیٰ انسان ہی تھا تو انسان کی زندگی کی ابتدا اربوں سال کے بعد ہی کیوں ہوئی؟ زندگی کو انسان کی شکل و صورت میں ڈھلنے کے لئے اتنے کَٹھن اور جان لیوا مراحل سے ہی کیوں گُذرنا پڑا کہ بقائے حیات کی جدوجہد میں تقریباً %98 اَنواع اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا صفحہِ ہَستی سے مِٹ گئیں؟ باقی انواع کو چھوڑیں اگر صرف ہم جنہیں Homo sapiens sapiens کہا جاتا ہے، سے پہلے والے انسان جو Homo کی کیٹیگری میں آتے ہیں جیسے Homo habilus, Homo erectus, Homo neanderthal وغیرہ کی نظر سے اگر کائنات کو دیکھیں تو کیا وہ بھی ہماری طرح یہی سوچتے ہونگے کہ یہ کائنات اُن کے لئے بَنائی گئی تھی؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر اِس کا ایک ہی مطلب ہے کہ کائنات خود میں کوئی مَقصد نہیں رَکھتی بلکہ انسان ہی اُس میں مقصد ڈھونڈھتا ہے یا یوں کہیں کہ انسان ہی کائنات کو مَقصد دیتا ہے. اور اگر جواب نہیں میں ہے تب بھی اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کائنات اُن Homos یا ہم سے پہلے والے انسانوں کے لئے بَنائی گئی ہوتی تو زمین پر حالات زندگی کے لئے سازگار ہوتے اور یوں اپنی بَقا کی جَنگ لَڑتے لَڑتے وہ اَنواع صَفحہِ ہَستی سے نیست و نابود نہ ہوجاتیں. سَچ بات تو یہی ہے کہ کائنات کا مقصد کیا ہے یہ خود کائنات کو بھی نہیں پَتا. یہ انسان ہی ہے جو اپنی زندگی، اپنے ماحول، اِس زمین و کائنات کو مقصدیت دیئے بِنا نہیں رہ سکتا. کیونکہ انسان ہی زمین پر ایک ایسی ذی شعور ہَستی ہے جو ہر چیز کو اپنے یعنی انسانی پَہلو سے دیکھتی اور تعبیر کرتی ہے. اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کائنات کی ساری تعبیر ہی Homo-centric ہے. مقصدیت ہمارے ذہن کی پیداوار ہے جس میں ہماری خواہشات کا عَکس دیکھا جاسکتا ہے ورنہ سورج اِس لئے نہیں بَنا کہ اُس کی روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچے تو ہم دنیا کو دیکھ سکیں، پیڑ اِس لئے نہیں پیدا ہوئے کہ وہ ہمیں چھاؤں اور پَھل دیں کیونکہ پیڑ تب بھی چھاؤں اور پَھل دیتے تھے جب زمین پر انسان کا وجود ہی نہیں تھا، گَنگا نَدی اِس لئے نہیں بَنی تھی کہ ہِندو اُس میں ڈُبکیاں لگاکر اپنے پاپ دھوسکیں وغیرہ. سَمجھنے کی بات یہ ہے کہ کائنات یا زمین اگر انسان کے لئے ہی بَنے تھے تو حالات اور ماحول زندگی کے اتنے سازگار ہونے چاہیے تھے کہ انسان کو لاکھوں کروڑوں سال بقا کی جنگ لڑکر ارتقا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی. یہ زندگی ہی تھی جو نامساعد حالات سے لَڑتے ہوئے، ماحول سے مطابقت رکھتے ہوئے، اندھے فطری قوانین کے تحت جدوجہد کرکے آج یہاں تک پہنچی ہے. ہم کائنات کو کس طرح دیکھتے ہیں اُس کے حوالے سے کون سا نظریہ و رویہ رکھتے ہیں اِس سے کائنات / فطرت کو کوئی فرق نہیں پَڑتا بلکہ فرق ہمیں پڑے گا کیونکہ جتنا ہمارا نظریہ اور رویہ کائنات / فطرت کو صحیح طریقے سے سمجھے اور دیکھے گا اُتنا ہی ہم اپنے وجود اور تہذیبی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہونگے اس کی وجہ یہ ہے کہ فطرت نے ہماری خوشفہمیوں یا خواہشات کا احترام نہیں کرنا بلکہ ہم ہی نے فطری قوانین کے مطابق ڈھلنا اور چَلنا ہے، فطرت نے ہمارے لئے نہیں بَدلنا بلکہ ہم نے ہی اپنے وجود اور تہذیب کو فطرت کے قوانین کے تحت لانا ہے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔