اگست 1912 کو تجسس سے لبریز آسٹریا کا ایک سائنسدان ایک گرم ہوا کے غبارے میں بیٹھتا یے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین سے اوپر کو اُٹھنا شروع کر دیتا ہے۔ اسکے غبارے میں چند سائنسی آلات ہوتے ہیں۔ یہ بلندیوں پر جاتے ہوئے اِن آلات سے فضا میں آئنز کی مقدار ماپنے لگتا ہے۔ آئنز دراصل وہ ایٹم ہوتے ہیں جنکے کچھ یا تمام الیکڑرانز ان سے خارج ہو چکے ہوں یا ان میں اضافی ہوں۔ جیسے جیسے یہ زیادہ اوپر جاتا ہے، اسکے آلات زیادہ آئنز ماپتے ہیں۔
اس آسٹرین سائنسدان کا نام وکٹر ہِس تھا۔ یہ جیسے ہی 5300 میٹر تک پہنچے، آئنز کی ریڈنگ سمندر کی سطح پر کی جانے والی پیمائشوں سے تین گنا بڑھ گئی۔
وکٹر نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ ریڈیشنز خلا سے آ رہی ہے۔جو دراصل روشنی کے قریب رفتار سے سفر کرتے آئنز ہیں۔ ان میں مختلف عناصر کے آئنز شامل تھے۔ جن میں ہائڈروجن کے آئنز یعنی پروٹانز89 فیصد، ہیلیئم کے 10فیصد جبکہ باقی تمام عناصر بشمول یورینیم کے 1 فیصد تھے۔
یہ ذرات خلا سے جب زمین کی فضا میں داخل ہوتے تو فضا میں موجود ایٹموں سے ٹکراتے اور ان سے مزید بنیادی ذرات بنتے ہیں۔ جیسے کہ میوینز جو کہ الیکٹرون کی طرح کے ذرات ہوتے ہیں مگر انکا ماس الیکٹرانز سے زیادہ ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہر سیکنڈ میں کھربوں میونز زمین سے ٹکراتے ہیں۔
خلا سے آنے والے ان ذرات کو cosmic rays
کہتے ہیں۔ اور یہ ہمارے اردگرد ہر جگہ موجود ہیں۔
ان چارجڈ پارٹیکلز کے باعث سائنسدانوں نے اینٹی میٹر کے ذرات بھی دریافت کیے جیسے کہ پوزیٹران۔ جنکا ماس الیکٹران جیسا ہے مگر چارج پروٹان کے برابر۔
کازمک ریز کمپیوٹر کی دنیا میں ایک درد سر ہیں۔ وجہ کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے ٹرانسسٹرز ہیں جو بائنری یعنی چارج یا بغیر چارج کو 1 یا 0 سٹیٹ میں رکھتے ہیں۔ ان کاسمک ریز کا کمپیوٹر میں موجود چارج سے کمپیوٹر میں سیو میموری یا کمپیوٹر کے آپریشنز پر اثر پڑ سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جدید کمپیوٹرز اور خلا میں بھیجے جانے والے کمپوٹرز کو اس طرح ڈیزاین کیا جاتا ہے کہ ان پر cosmic rays کا کم سے کم ہو اور ان کے اثر سے پیدا ہونے والی غلطیوں کو خود بخود کمپیوٹر ٹھیک کر سکے۔ مگر کبھی کبھار ایسا نہیں ہو پاتا۔ مثال کے طور پر ان ریز کی وجہ سے 2000 میں بیلجیئم میں ہونے والے انتخابات پر بھی اثر پڑا جب ووٹ گننے والے کمپیوٹر نے ایک امیدوار کے ووٹ اصل۔تعداد سے بڑھا دیے۔ یعنی کمپیوٹر نے 35 پنکچر لگا دیے۔ایسا ہی کچھ 2009 میں ہوا جب ٹویوٹا کی گاڑیوں کے بریکنگ سسٹم میں مسئلہ پیدا ہوا جس سے ٹویوٹا کو اپنی 90 لاکھ گاڑیاں واپس منگوانی پڑیں۔
وکٹر ہس کو 1936 میں کاسمک ریز کی دریافت پر فزکس کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز دیا گیا۔
مگر سوال یہ ہے cosmic rays آتی کہاں سے ہیں؟
اس کا جواب ہے سورج سے اور کائنات میں جگہ جگہ پھٹتے ستاروں سے جنہیں ہم سپرنووا کہتے ہیں۔ایک ستارہ جو سورج سے ماس میں کئی گنا بڑا ہو اپنے انجام پر اس تباہی سے پھٹتا ہے کہ اسکے اندر موجود عناصر کے ذرات یا آئنز کائنات کے طول و عرض میں پھیلتے ہیں اور زمین پر بھی آتے ہیں۔
ستارے عناصر بنانے کی بھٹیاں ہیں۔کائنات میں ہمارا وجود انہیں ستاروں کی مرہون منت ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ کسی نہ کسی طرح سے ہم سے جڑا ہے۔ ہم اپنے اندر ایک کائنات رکھتے ہیں۔
ہم ستاروں کی خاک ہیں گویا
خود میں اک کائنات ہیں گویا
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...