سات لوگ ، کئ گھنٹوں سے رقص میں مشغول تھے کے چھ کے کان میں لنگر کی آواز پڑی ۔ انہوں نے دوڑ لگا دی پیٹ پُوجا کے لیے ۔ وہ اکیلا شخص جو کائنات کے رقص میں محو جنت کی پریوں کے ساتھ کھیلتا رہا بغیر پیٹ کی آگ بجھائے ، وہ بلھے شاہ ہی ہو سکتا تھا ۔
کل پُھول نگر ، پاکستان سے ایک نوجوان نے رابطہ کیا اور کہنے لگا کے ہم سب دوست آپ کا بلاگ پڑھ کر بہت ہلکا محسوس کرتے ہیں اور بعد میں مل کر بھنگڑا ڈالتے ہیں ۔ مجھے بے حد خوشی ہوئ اور سوشل میڈیا کو دعائیں دیں ۔ کل ہی میں نے ایک ویب پیج بنا کر psychic space شئیر کرنے کی بات تھی ۔ الحمد اللہ ، میں اپنے فیس بُک پیج سے بھی وہ کر پانے میں کامیاب ہو گیا۔ سوچتا ہوں اگر حکمرانوں سے مایوس نوجوانوں کو میں روشنی کی کرن دکھا جاؤں تو یقیناً اپنا اس دنیا میں آنے کا مقصد پا جاؤں گا ۔ کم از کم مارکس زُوسک کے مطابق
Handing souls to the conveyer belt of Eternity ..
جو شاید مرنے کے بعد تو گورکن کرتا ہے ۔ زُوسک مشہور آسٹریلوی لکھاری ہے اور اس نے بہت منفرد طرز میں اپنے تمام ناول لکھے ہیں ۔ مجھے اس کا ۲۰۰۵ میں لکھا ناول the book thief بہت پسند آیا ۔ کیا خوبصورتی سے وہ ایک لڑکی کی کہانی بیان کرتا ہے جسے وہ کتاب چور کہتا ہے ۔ اس پر ایک فلم بھی بنی اور اس کتاب کا انسانی survival instincts اُجاگر کرنے والا بیانیہ بہت زیادہ مقبول ہوا ۔
یہ ایک لیزل نامی چھوٹی بچی کی کہانی ، جس کی والدہ اسے اس کے بھائ سمیت میونخ میں ایک خاندان کے پاس پلنے کے لیے دینے جاتی ہے ۔ لیزل کا بھائ دوران سفر فوت ہو جاتا ہے اور ایک نزدیکی اسٹیشن پر اسے دفنا دیا جاتا ہے جہاں گورکن کی جو کتاب اس کی جیب سے قبر کھودتے وقت گر جاتی ہے اسے لیزل چوری کر لیتی ہے ۔ لیزل کے نئے والدین بھی بہت غریب ہوتے ہیں اور خاص طور پر والدہ تو بہت ظالم بھی ۔ اسے پہلا گفٹ ایک پرانی گڑیا ملتی ہے جس کی ایک ٹانگ نہیں ہوتی اور سر پر بال نہیں ۔ وہ عجیب و غریب محلہ ہوتا ہے ، ہر ہمسایہ دوسرے کا دشمن ۔ ہٹلر کا دور حکومت اور دوسری جنگ عظیم ۔ سامنے والے گھر میں ایک خاتون کو نجانے کیا خدا واسطہ کا بیر تھا لیزل کی ماں سے کے وہ صبح دروازے پر ٹھیک نشانہ باندھ کر تُھوکتی جس کی صفائ بھی لیزل کے زمہ لگی ۔ لیزل کو رات کو بہت خوفناک خواب آتے اور اس کا والد خواب میں آ کر سُلاتا ۔ لیزل کی ساری زندگی کتابیں اور درختوں سے پھل چوری کرنے میں گزر گئ اور آخر کار والدین جنگ کا نشانہ بن گئے اور لیزل ایک دفعہ پھر لا وارث ۔ لیکن اس کی روح ہمیشہ کی طرح کائنات کے رقص میں مگن ۔
ہماری سب کی کہانیاں ایک جیسی ہیں ۔ یہ بے بسی حضرت آدم کے سیب کھانے سے شروع ہوئ اور جاری ہے ۔ کل میرے ایک دوست فرما رہے تھے کے آدم کو حوا کی ضرورت تھی وگرنہ حوا بیتاب نہیں تھی ۔ حوا کی survival instincts
زیادہ بہتر تھیں اور ہیں ۔ مرد ہی شیطان کا روپ بھی دھار لیتا ہے اور رحمان کا بھی ۔
ہم قدرتی طور پر جہاں بھی placed ہیں ، صرف اور صرف اپنی انفرادیت اور ہمت مرداں کو اُجاگر کر کے زندگیاں آسان بنا سکتے ہیں ۔ یہی روحانیت ہے ، اس کے زریعہ ہی رُوح کی روشنی کائنات کی تمام روشنیوں سے مل کر ستاروں سے ملواتی ہے ۔ یہاں ہر چیز برف سے ڈھکی ہوئ ہے اور روح اس پاگیزگی کی علامت بن کر ابھر رہی ہے ۔ بہت خوش رہیں ۔ تقلید سے پرہیز کریں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...