اس وقت ہم اربوں ڈالر کی ایک دوڑ کے درمیان میں ہیں۔ یہ ٹیلی سکوپ بنانے کی دوڑ ہے۔ جائنٹ میجیلان ٹیلی سکوپ، تھرٹی میٹر ٹیلی سکوپ اور یورپ کی ایکسٹریملی لارج ٹیلی سکوپ زمین پر نصب کی جانے والی رصد گاہوں کے وہ پراجیکٹ ہیں جو کائنات میں دور تک دیکھ کر کائنات کے بچپن کو دیکھ سکیں گے۔
موجودہ کسی بھی ٹیلی سکوپ سے دس گنا طاقتور یہ پراجیکٹ جلد سے جلد مکمل ہو کر پہلی روشنیاں دیکھنے کی دوڑ میں مگن ہیں جو اگلے چند برسوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ لیکن یہ دوڑ اس وقت کیوں؟
عام طور پر ٹیلی سکوپ کا سائز چالیس سالوں میں دگنا ہو چکا ہوتا ہے۔ 2000 میں آٹھ سے دس میٹر قطر کے ٹیلی سکوپ بنے تھے۔ اس وقت ہمیں اس کا علم ہوا کہ کائنات کے بارے میں ہمارا علم بہت کم ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہم نے سوچا کہ اس لاعلمی کی تاریکی کو کیسے کم کیا جائے؟ اس کا جواب آسان تھا۔ بڑے آلات سے پرانی روشنی پکڑ کر۔
ٹیکنالوجی بھی لمبی چھلانگ لگائی جا چکی ہے۔ جو 2000 میں ممکن نہیں تھا، وہ اب ممکن ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ سے آٹھ میٹر کے بجائے تیس میٹر کا عدسہ بنانا ممکن ہو گیا ہے۔ اس کے پیچھے چند اہم جدتیں ہیں۔ پہلی آئینے کا ڈیزان اور سائز ہے۔ جو کسی بھی ٹیلی سکوپ کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔ یہ جتنا بڑا ہو، اتنی چھوٹی اور دور دراز کی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایک شیشہ بیس فٹ سے زیادہ کا نہیں بن سکتا۔ یہ شیشے کے میٹیریل کے خاصیت کی وجہ سے ہے۔ اس کے لئے الگ ٹکڑوں میں شیشہ لے کر اس طریقے سے جوڑا جاتا ہے کہ فوکس ایک ہی جگہ پر رہے۔ اس شیشوں کو اٹھانے کے لئے فولاد کا ایک بڑا سٹرکچر چاہیے۔ اس قدر مضبوط کہ ہوا سے ہلے نہیں اور خود اپنے وزن سے جھکے نہیں۔ اس کا کنٹرول اس قدر پریسائز ہونا ضرور ہے کہ ستارے کا تعاقب کرنے کے دوران کسی قسم کی وائبریشن نہ ہو۔
اس ایک ہزار ٹن کے سٹرکچر کو کس طریقے سے اس طرح ڈیزائن کیا جا سکتا ہے؟ تیل کی پتلی سے تہہ پر تیرا کر جس کے اوپر یہ بغیر کسی فرکشن کے تیر سکے۔ جائنٹ میجیلان ٹیلی سکوپ ایسے ڈیزائن ہوئی ہے۔ اس کا ڈیزان 2012 میں شروع ہوا تھا اور تعمیر 2015 میں۔ امید ہے کہ 2023 میں یہ اپنا کام شروع کر دے گی۔ ہبل ٹیلی سکوپ سے دس گنا بہتر دیکھ سکے گی۔ اس کی جگہ اتاکامہ صحرا میں کمپاناس کی چوٹی ہے۔
ایکسٹریملی لارج ٹیلی سکوپ کا ابتدائی ڈیزائن سو میٹر کے سائز کا تھا جسے انجینیرنگ کے چیلنج کی وجہ سے کم کر دیا گیا۔ اس کی پریسیژن نینومیٹر کی سطح پر ہونی ہے۔ اس کا سٹرکچر 798 انفرادی آئینوں سے مل کر بننا ہے۔ ہر شیشے کو الگ پالش کر کے اور بالکل ایکوریسی کے ساتھ تا کہ فوکس میں کوئی فرق نہ آئے اور پھر اس سب کا بالکل ایکوریٹ کنٹرول۔ نینومیٹرز کی غلطی اس کو خراب کر سکتی ہے۔ اور یہ سب دنیا کے دور دراز اور خشک ترین مقام پر بنایا جا رہا ہے جو چلی میں دس ہزار فٹ کی بلندی پر اس کی تعمیر 2024 میں مکمل ہونا متوقع ہے۔
تھرٹی میٹر ٹیلی سکوپ ہوائی میں زیرِ تعمیر ہے۔ جس پہاڑ پر اسے نصب کیا جا رہا ہے، اسے مقامی آبادی مقدس سمجھتی ہے، اس لئے اس کی تعمیر تنازعے کی وجہ سے بند رہی لیکن سمتبر 2018 میں سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے بننے والی یہ ٹیلی سکوپ اب 2025 میں اپنے کام کا آغاز کرے گی۔
ہبل ٹیلی سکوپ خلا میں ہے۔ زمین کی رصدگاہوں کو ایک مسئلہ ہوا کا ہے۔ زمین تک کئی ملین یا پھر بلین سال سے سفر کرتے روشنی جبکہ زمین کے فضائی غلاف میں داخل ہوتی ہے تو لہرا جاتی ہے (جس سے ستارے ٹمٹماتے دکھائی دیتے ہیں)۔ یہ ٹمٹماہٹ آسٹرونومر کے لئے دردِ سر ہے، جن کو اپنی تصویر بالکل صاف صاف چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی اگلی جست اس مسئلے کو حل کرنے کی ہے۔
پچھلی دہائیں میں ایک نئے شعبے نے بہت ترقی کی ہے جو ایڈاپٹو آپٹکس کا ہے۔ ٹیلی سکوپ سے لیزر خلا میں پھینکی جاتی ہے۔ بالائی کرے کے سوڈیم ایٹمز کو یہ ایکسائیٹ کرتی ہے اور یہ چمکنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ چمک ایک مصنوعی ستارہ بنا دیتی ہے۔ ماہرینِ فلکیات اس کی مدد سے فضا کی حالت کو معلوم کر لیتے ہیں۔ اس کو ریفرس بنا کر ٹیلی سکوپ اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔ اور آپ بہت صاف تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔
یہ ایڈجسٹمنٹ ایک سیکنڈ میں پاچ سو سے ایک ہزار مرتبہ کی جاتی ہے۔ اور روشنی کی ویو لینتھ کا بیسواں حصہ پریسیژن کی ضرورت ہے۔
ان کے بننے کے بعد روشنی جمع کرنے کے وہ آلات موجود ہوں گے جو ابھی تک ہمارے پاس نہیں تھے۔ یہ ایڈانسڈ آپٹیکل جیومیٹری کا اہم شعبہ ہے۔ ان سے ہمیں سائنس کے کچھ پیچیدہ سوالوں کے جواب ملنے کی امید ہے۔ شمسی نظام کے باہر سیارے اور ان کی کیمسٹری۔ ان کی فضا کا تجزیہ۔ سیارے بنتے دیکھانا بھی ناممکن نہیں رہے گا۔ کہکشائیں کیس بنتے ہیں؟ ہم اس کا بھی بہتر مشاہدہ کر سکیں گے۔
کائنات بہت بڑی ہے۔ ان پرانی روشنیوں کا مشاہدہ ہمیں بہتر موقع دے گا، ان کہکشاؤں اور بلیک ہولز کو جاننے کا، جب یہ ابھی کم سن تھی۔ جب اس کا تاریک دور ختم ہوا تھا۔ جب اس سے پہلی روشنیاں نکلی تھیں اور آفاقی صبح کا سویرا ہوا تھا۔
ساتھ لگی تصویر ان کے سائز کا بتاتی ہے۔ اگر اس میں دائیں طرف نیچے کے کنارے پر دیکھیں تو ایک انسان کھڑا نظر آئے گا۔ اس سے ان کے سائز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔