کچھ دنوں قبل آپ نے کائنات کی کالی بلاؤں (بلیک ہولز) کا احوال پڑھا تھا۔۔۔ آج میں آپکو کائنات کے سرخ جنات (Red Gaints) کے بارے کچھ بتاتا ہُوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حیرت سرائے کائنات میں ہر چیز اپنے آپ میں ایک عجوبے سے کم نہیں۔۔
ایک ایٹم سے لے کر بڑے سے بڑے کائناتی اسٹرکچر تک جس پر بھی آپ اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔۔۔وُہ اپنے اندر چھپے اسرار سے آپکو حیرت زدہ کرنا شروع کر دے گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کے سرخ جن بھی در اصل ستارے ہیں بلکہ ستاروں کا بگڑا ہوا روپ ہیں۔۔۔۔
اسے آپ ایک ستارے کی موت کا پہلا مرحلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔
ہر ستارے کو موت کا انداز مختلف ہوتا ہے
بہت بھاری کمیت(سورج سے 30 گنا بڑے یا اس سے زائد کمیت) والے ستارے سپر نووا ہوکر کالی بلاؤں کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اس سے ذرا کم کمیت (سورج سے 10گنا سے 25گنا زیادہ کمیت) والے ستارے نیوٹران ستارے بن جاتے ہیں جنہیں کائنات کے بوجھل ترین اجسام ہونے کا رتبہ حاصل ہے۔۔۔
اور سورج سے آدھی کمیت سے لیکر تقریباً سورج سے 8گنا زیادہ کمیت والے ستارے جب اپنی عمر کے آخری دور میں داخل ہونے لگتے ہیں تو پھولنا اور سرخ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ۔۔ اور آخر میں سرخ جن بن جاتے ہیں۔۔۔
آپ سمجھ تو گئے ہُوں گے کہ سورج بھی انہی میں سے ایک ہے۔۔
تو جناب۔۔۔۔ سورج جیسے ستارے جب اپنی آخری عمر کو پہنچتے ہیں تو پھولنا اور سرخی مائل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی اصل سائز اور جسامت سے سینکڑوں گنا بڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔ جیسے کوئی غبارہ ہوا بھرنے پر پھول کر اپنی جسامت سے کئی گنا بڑا ہوجاتا ہے۔۔۔
پھر یہ ستارے پھولنے کے اس مرحلے میں ایک ارب سال گزار دیتے ہیں۔۔۔
ہمارے سورج کی قسمت میں بھی سرخ جن بننا ہی لکھا جا چکا ہے اور بلا شک و شبہ ایک دن یہ سرخ جن بن ہی جائے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ستارہ سرخ جن کیوں بنتا ہے؟
ہر ستارہ اپنے ایندھن یعنی ہائیڈروجن کو نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کے ذریعہ سے ہیلیم میں تبدیل کر رہا ہے اور اس عمل میں کچھ ہائیڈروجن ہیلیم میں تبدیل ہونے کی بجائے روشنی اور انرجی کی مختلف صورتوں میں بدل جاتی ہے۔۔۔
ستارے کو نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کیلئے ہائیڈروجن کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ستارہ ہائیڈروجن کی وافر مقدار لے کر ہی کائناتی اُفق پر اُبھرتا ہے۔۔۔ یہ مقدار وافر تو ہوتی ہے مگر لا محدود نہیں ہوتی۔۔۔
سورج ایک سیکنڈ میں 600ملین ٹن ہائیڈروجن کو ہیلیم میں بدلنے کیلئے استعمال میں لاتا ہے۔۔
ایک سیکنڈ میں 600ملین ٹن ہائیڈروجن کا استعمال کتنا حیران کن ہے اور ساتھ میں یہ خدشہ بھی ذہن میں سر اٹھاتا ہے کہ اس طرح تو جلد ہی سورج میں ہائیڈروجن ختم ہوجائے گی۔۔۔؟
تو جناب۔۔۔ حیران بیشک ہوں مگر پریشان نہ ہوں۔۔۔ کہ سورج ایسا اربوں سالوں سے کر رہا ہے اور مزید اربوں سالوں تک ایسا با آسانی کر سکتا ہے۔۔۔۔
سورج جب پیدا ہوا تھا تو 10 ارب سال تک اسی حساب سے بطور ایندھن خرچ کرنے کیلئے ہائیڈروجن کا ذخیرہ اپنے اندر چھپا لایا تھا۔۔۔۔
سورج اس وقت اپنی عمر کے 5۔4ارب سے 5ارب سال تک کی عمر گزار چکا ہے اور مزید اتنا ہی عرصہ یونہی یہ اپنا ایندھن جلا سکتا ہے۔۔۔
سورج اپنی جوانی کو خیر باد کہتا ہوا ادھیڑ عمری کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
بعض لوگ سورج کے نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن کو سورج کا ایندھن جلانا، کاربن جلانا وغیرہ بھی کہتے ہیں۔۔۔ نیوکلیئر فیوژن اور آگ کا جلنا الگ الگ عوامل ہیں۔۔۔ لیکن ان الفاظ سے مراد یہی نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن ہی لي جاتی ہے۔۔۔
ستارے اس مرحلے میں زیادہ تر ہائیڈروجن کوجلاتے ہیں۔۔ اس مرحلے کو ستارے کا مین سکوینس فیز (Main sequence phase)… کہتے ہیں
ایک مین سکیونس سٹار کے طور پر ہمارا سورج stellar equilibrium کہلاتا ہے
اسکا مطلب یہ ہے کہ نیوکلیئر فیوژن سے پیدا ہونے والی حرارت اور توانائی کا دباؤ ( جو سورج کے مادے کو باہر کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے) اور سورج کی کشش ثقل کا دباؤ (جو مادے کو مرکز میں دبانا چاہتا ہے) برابر ہیں اسلئے سورج نہ پھیلتا ہے اور نہ سکڑتا ہے بلکہ اپنی موجودہ صورت میں مستحکم رہتا ہے۔۔۔
ایک اور بات جس کا سمجھنا ضروری ہے۔۔۔وہ یہ کہ سورج جیسا ستارہ جب مین سیکوینس فیز میں ہوتا تو لاکھوں ٹن فی سیکنڈ ہائیڈروجن کا استعمال تو کرتا ہے مگر اس ہائیڈروجن کا صرف 7۔0فیصد حصہ روشنی اور انرجی میں کنورٹ ہوتا ہے اور باقی اور بڑا حصہ ہیلیم کے ایٹموں کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔۔۔۔
وقت کے ساتھ یہ جوہری آگ ستارے کو کمزور کرتی رہتی ہے۔۔۔کشش ثقل اُسے دبانا چاہتی ہے اور حرارت اُسے پھیلانے پر تُلی ہوتی ہے۔۔۔ ان دونوں کی کھینچا تانی سے جیسے تنگ آ کر ستارہ پھٹ سا پڑتا ہے روشنی اور توانائی کا جی بھر کر اخراج کرتا ہے
اربوں سالوں سے یہی کھینچا تانی جاری ہے اور روشنی اور توانائی کا اخراج بھی۔۔۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ ہمارا سورج جوانی کو خیر باد کہہ کر ادھیڑ عمری میں داخل ہو رہا ہے۔۔۔ مزید کچھ ارب سال بعد یہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے گا تو بھی مزید کئی میلین سالوں تک یہی عمل برقرار رکھے گا۔۔۔
جس طرح بڑھاپے میں کئی بیماریاں سر ابھارتی ہیں اور وہ بیماریاں بھی کھل کر سامنے آتی ہیں جو جوانی کی طاقت کے آگے منہ چھپائے ہوتی ہیں۔۔
بڑھاپے کی سب سے بڑی بیماری طاقت کی کمی یعنی کمزوری ہے
بالکل ایسے ہے سورج کو یہ کھینچا تانی اور توانائیوں کا اخراج اندرونی طور پر کمزور کر چکا ہوگا۔۔۔ اُسکی طاقت یعنی ہائیڈروجن کم ہوگئ ہوگی۔۔ مگر سورج اپنی جوانی اور رعب کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش میں اپنے مرکز کے گرد ہائیڈروجن کے خول بنا کر ہائیڈروجن کی زیادہ سے زیادہ مقدار خرچ کرنے لگے گا
کشش ثقل کا دباؤ کور اور اِرد گرد کے ریجن کو شدید گرم کر دے گا۔۔۔ شدید درجہ حرارت ہائیڈروجن کے خول کو جلانے کے لئے کافی ہوگا اتنی مقدار میں ہائیڈروجن کے جلنے سے کور میں قیامت کی سی گرمی پیدا ہوگئ جس سے سورج کی بیرونی تہیں آگے کی طرف سرکنے لگیں گی۔۔۔
اب سورج مین سکوئنس فیز سے سرخ جن بننے کی درمیانی راہ پر گامزن ہوچکا ہوگا۔۔۔
اس درمیانی راہ پر پہنچنے والا ستارہ subgaint star کہلاتا ہے۔۔۔ اسے آپ آسانی کے لیے ستارے کی ضعیف العمری بھی کہہ سکتے ہیں
ہائیڈروجن کا زیادہ خرچ ستارے کی چمک کو ایسے ماند کرنے لگتا ہے جیسے بڑھاپا چہرے کی رونق چھین لیتا ہے۔۔۔ اسی دوران سورج کی بیرونی تہیں مزید دور ہوکر ٹھنڈا ہونے لگیں گی
یعنی سورج جوانی جیسا جوش دکھانے کا خمیازہ بھگتنا شروع کر چکا ہوگا۔۔۔۔
پھر سورج کی طاقت (ہائیڈروجن) بالکل ہی ختم ہوجائے گی۔۔۔ اب باری ائے گی خون (ہیلیم) جلانے کی……
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس مرحلے پر سورج کی جسامت بڑھنے لگے گی رنگت اور روشنی سرخ ہوجائے گی اور چمک میں بھی اضافہ ہوگا۔۔۔ اس کی ڈرائیونگ انرجی کور میں (ہائیڈروجن کے بلکل ختم ہونے کے بعد) رہ جانے والی ہیلیم سے پیدا ہوگی
جو کولیپس (منہدم) ہوتی اور ڈینس (کثیف) ہوتی جائے گی اور کور کا درجہ حرارت بھی بڑھتا جائے گا، یہاں تک کہ subgaint فیز کے اختتام تک کور اتنا گرم ہوجائے گا کہ ہیلیم کو جلانے لگے گا۔۔۔۔جس سے بڑے پیمانہ پر توانائی پیدا ہوگی جو سورج کو پھیلنے اور سرخ ہونے پر مجبور کر دے گی
پھر شاید مزید کروڑوں سال لگیں گے اور سورج اپنے حجم سے کئی سو گنا پھیل چکا ہوگا اور انتہائی سرخ رنگ میں ڈھل چکا ہوگا۔۔
اسطرح کائنات کے خوفناک، اندھیرے اور سرد جنگل میں ایک مکمل سرخ جن اپنی خوفناک اور دیوہیکل شکل میں ظاہر ہو چکا ہوگا۔۔۔۔۔جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی تصویر: آرٹسٹ کا تخیل۔۔۔۔
مختلف فاصلوں پر موجود سرخ جنات (redgaint stars)
Image via NASA Goddard Space Flight Center/ Chris Smith (KBRwyle).
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
دوسری تصویر:
Comparison of the size of our sun to the smallest and largest red giant for which oscillations (starquakes) have been detected with the Kepler Space Telescope. Image via Daniel Huber/ University of Sydney.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...