اہلخانہ کے بھی شکوے شکایت بجا تھے، نا تو ان کو وقت دے پاتا تھا نا ہی کسی تقریبات میں شرکت کے مواقع ملتے تھے کیونکہ صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے۔ کب دن سے رات ہوئی اور رات سے دن معلوم ہی نہیں چلتا تھا۔ ایک مدت بعد سوچا کے ایک دن گھر میں صرف کروں، بیگم کو یہ نوید سنائی کے صبح مت اٹھانا آج دفتر نہیں جاوّنگا سہہ پہر کے بعد ہم کسی ساحل سمندر پر چلیں گے رات کا کھانے کسی اچھے سے ریسٹوانٹ پر کھا کر رات گئے واپس آئیں گے۔ ۔۔
چونکہ صبح جلدی اٹھنے کی عادت بنی ہوئی تھی اور آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلا کام واٹس ایپ گروپس کو دیکھنا بھی اہم فرائض منصبی میں شامل تھا تاہم اس بار دل پر جبر کرتے ہوئے سب کچھ نا دیکھنے کا فیصلہ کیا۔۔ مگر جب چار و ناچار موبائل پر نظر ڈالی تو وہاں ایک پرچہ نظر آیا۔ اٹھا کر دیکھا تو وہاں سامان کی لسٹ موجود تھی۔۔ خود کو زن مرید سمجھتے ہوئے بیگم کو آواز دی کے ناشتہ سے فراغت پاتے ہی آپ کو مطلوبہ سامان مہیا کر دونگا۔۔۔
بچے بھی حیران تھے کے آج بابا گھر میں کیسے ہیں۔ اٹھتے اٹھتے 11 بج ہی گئے ضروری حاجات سے فارغ ہوکر ناشتہ کیا سامان کی لسٹ جیب میں ڈالی اور برسوں سے ساتھ نبھانے والی موٹر سائیکل نکالی۔غنیمت یہ ہوئی کے بغیر پلگ صاف کئے پہلی کک میں اسٹارٹ ہوگئی۔ کراچی کی شدید گرمی سے بے نیاز ہوکر بازار سے سودا سلف لیا۔ پھر فروٹس کے ٹھیلے پر پہنچا وہاں کیلوں کی بھر مار تھی جگہ جگہ ٹھیئے پتھاروں میں بھانت بھانت کے کیلے موجود تھے بغور جائزہ لینے کے بعد بالآخر ایک ریڑھی کے پاس رک گیا۔ ایک درجن کیلوں کی قیمت 80 روپے سن کر ماتھا ٹھنکا،،، حسب روایت پوچھ ہی لیا کے بھائی جان اتنے مہنگے کیوں دے رہے ہو،، تو جواب ملا کے ٹھیلا لگانے کا یومیہ بھاڑا 200 روپے ہے۔۔ اگر لاک ڈاوّن کے دوران لگاوّ تو 100 روپے اضافی دینا پڑتے ہیں یعنی 300 روپے روزانہ وہ میں اپنی جیب سے ادا نہیں سکتا۔۔ حیران و پریشانی کے عالم میں ایک سوال اور جڑ دیا کے کے تقریبآ کتنے ٹھیلے روزانہ لگتے ہیں جواب ملا اندازآ ایک سو سے اوپر ہونگے ایک صاحب آتے ہیں وہ جمع کر کے لے جاتے ہیں۔ تو میں نے کہا بھائی یہ تو بھتہ ہے آپ کی دکان تھوڑی ہے جو ٹھیلا لگانے کا کرایہ بھی دو۔۔۔۔ مجھے ایسے دیکھنے لگا کے جیسے میں کوئی خلائی مخلوق ہوں یا باوجوہ انجان بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔ میری حیرانگی کو بھانپتے ہوئے خود ہی جواب دے دیا کے اگر ہم یومیہ بھاڑا نا ادا کریں تو۔۔ ہمارا ٹھیلا بمعہ فروٹس ضبط کر لئے جاتے ہیں اور تھانے مِیں 5000 روپئے ادا کرو تو جاں بخشی ہوتی ہے بصورت دیگر عدالتوں کے چکر کون کاٹے۔۔ اسی لئے خاموشی سے 300 روپے دینا مناسب ہیں۔۔ یہ جواب سن کر میں تو لاجواب ہوگا۔۔۔ 100 روپے کا ایک کرارا نوٹ دے کر اپنی راہ لی۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...