کیفی اعظمی 14 جنوری، 1919ءکو پیدا ہوئے . 10 مئی، 2002 کو ، اس دنیا کو الوداع کہا .انکا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ پیدائش اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں ہوئی۔ کیفی گیارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر چکے تھے۔ ان کی پہلی نظم اس طرح تھی:
مدت کے بعد اس نے جو الفت سے کی نظر
جی خوش تو ہوگیامگر آنسو نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہر حال چل پڑے
شروعات رومانی شاعری سے ہوئی .ترقی پسند تحریک اور ترقی پسندوں کا ساتھ ملا تو کیفی نے آخری سانس تک ترقی پسندی کا ساتھ دیا . کمیونسٹ پارٹی کے اہم رکن رہے . ایسا بھی ہوا کہ دن فاقوں میں گزرے .مگر شوکت کیفی کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائیں ایسی مثالی محبت اور دوستی ادب کی دنیا میں کم دیکھنے کو ملتی ہے . شوکت کیفی نے زندگی بھر ساتھ نبھایا . کیفی کی شاعری کو ترقی پسندوں نے بھی پروپگینڈے کی شاعری کہا مگر اس دور کا جائزہ لیں تو کیفی خاموشی سے اپنا کام کیے جا رہے تھے . بے نیاز طبیعت پایی تھی اور اس بات کا گلہ نہیں تھا کہ سردار جعفری اور دیگر دوستوں کو بھی ان کی شاعری سے شکایت ہے .
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
ممکن ہے اس نظم کو بھی پروپیگنڈا نظموں کے خانے میں رکھ دیا جائے لکینن جب شاعر اس نتیجے پر پہچتا ہے کہ کویی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی تو قاری اس استعاراتی نظام کا حصّہ بن جاتا ہے جہاں ظلم کی آگ روشن ہے اور اس آگ کو بجھانے کے لئے سب کو مل کر ساتھ آنا ہوگا .
اب ایک دوسری نظم دیکھئے
اپنی لاش آپ اٹھانا کوئی آسان نہیں
دست و بازو مرے ناکارہ ہوئے جاتے ہیں
راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جُز مرے اور مرا راہ نما کوئی نہیں
اس سیاسی پس منظر میں آزادی کے بعد کی تاریخ بھی ہے اور صدیوں کا سفر بھی . وہ مقبول ترین شاعر تھے . حساس طبیعت کے مالک تھے .
دس میئ ٢٠٠٢ کی صبح کیفی اعظمی کے انتقال کی خبر مجھے ملی یہ میرے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ حیرانی یہ تھی تیزی سے بڑھتی پھیلتی ہوئی فسطائی تہذیب میں یہ شخص زندہ کیسے تھا . بابری مسجد رام مندر ڈرامہ اپنے عروج پر تھا ۔کیفی تو ’دوسرا بن واس‘ لکھتے ہوئے ہی مر گئے تھے۔ شاید نہیں۔ آزاد ہندوستان میں ’پتہ نہیں‘ کتنی کتنی بار اس زمین کے شاعر کو مرنا پڑا تھا۔
اس زمانہ میں خبریں ملتی رہتی تھیں .۔ کیفی اب اشاروں میں باتیں کرتے ہیں۔ سانس کی لو مدھم مدھم ہوچکی ہے۔ چراغ کبھی بھی بجھ سکتا ہے۔ جوش، فیض، فراق کے کارواں کے اس آخری سپہ سالار سے گاندھی کا تبادلہ نہیں دیکھا گیا۔ وہ گاندھی کے گجرات کو گوڈسے کا گجرات بنتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ پھر خبر ملی۔ وہ جسلوک ہسپتال میں بھرتی ہیں۔ مجھے تعجب اسی بات کا تھا۔
”کیفی تم کو مرجانا تھا
کیفی تم زندہ کیسے تھے؟“
ہر بار امیدیں پالنے والے شاعر کے ہاتھوں سے امید کا آخری چراغ بھی گم ہو گیا .یہ امید تب بھی قائم تھی تھی، جب آزادی کے چھتیس سال گزرے تھے۔ خوں میں ڈوبی آزادی کے چھتیس سال۔
کیفی نے ناراضگی تو دکھائی مگر پھر فوراً ہی امید کی مشعل لیکر بھی سامنے آگئے۔
”ایک دو بھی نہیں، چھتیس دیئے
ایک ایک کرکے جلائے میں نے
ایک شمع نام کا، آزادی کے
اس کے جلتے ہوئے ہونٹوں نے کہا
چاہے جس ملک سے گیہوں مانگو
ہاتھ پھیلانے کی آزادی ہے“
آیا غصے کا ایک ایسا جھونکا
بجھ گئے سارے دیئے
ہاں، مگر ایک دیا، نام ہے جس کا امید
جھملاتا ہی چلا جاتا ہے
٭٭٭
زندگی بھر ایک جدوجہد بھری زندگی—کمیونسٹ پارٹی کے آرگن ’قومی جنگ‘ میں بغیر نام پتے کے، روس کی حمایت میں نظمیں چھپوانے والا شاعر— بچپن کے دنوں کا وہ جذباتی بچہ جو کسان بچوں کی غریبی یاد کرتے ہوئے اپنے کپڑے تک تیوہاروں میں سلوانے سے انکار کردیتا تھا— لکھنو کے ویمنس کالج کے مشاعرے میں نظم پڑھنے والا شرمیلا شاعر— ’شوکت‘ کے ساتھ زندگی کے سمندر میں چھلانگ لگانے والا شاعر— سوشلزم میں یقین رکھنے والا شاعر— لیکن امیدیں ساتھ چھوڑ رہی تھیں— کیفی جانتے
تھے کہ ایک جیسی فکر رکھنے والوں کو حالات کا مقابلہ مل کر کرنا ہوگا .
راستے گھوم کے سب جاتے ہیں منزل کی طرف
ہم کسی رخ سے چلیں ساتھ ہی چلنا ہوگا
اور یہ شعر دیکھئے —
ایک کے بعد خدا ایک چلا آتا ہے
کہہ دیا عقل نے تنگ آکے خدا کوئی نہیں“
جو زندگی بھر دوستی، محبت اور بھائی چارے کی بات کرتا رہا۔ جس نے کبھی ایک خدا کے تصور پر یقین نہیں کیا— جو آزادی کے بعد لگا تار زخمی ہوتا رہا— ١٩٤٩میں جب پارٹی انتہا پسندی کا شکار ہوئی— کامریڈ جیل میں ٹھونسے جانے لگے— جو بچ گئے وہ دھیرے دھیرے پارٹی سے نکالے جانے لگے— ١٩٦٢ کا چینی حملہ— روس اور چین کے اختلافات ابھر کر سامنے آئے— ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ کیفی ہر بار آوارہ سجدوںسے گزرتے رہے ، نظمیں کہتے رہے۔ لیکن کب تک۔ کبھی ادب اور سیاست سے ایک ساتھ پیار کرنے والے شاعر نے اسی پاک سرزمین پر سیاست کو کچھ ایسا ننگا ہوتے دیکھا کہ جینے کی خواہش دم توڑ گئی۔ بدھم شرنم گچھامی سے اذاں کی آواز تک— مایوس شاعر کی نظر میں دنیا تنگ ہوگئی تھی۔
’صبح اتری جو سمندر میں نہانے کے لیے
رات کی لاش ملی پانی میں‘
برسوں پہلے کی بات ہے، دہلی میں مشاعر ہ تھا۔ میرا ناول ’بیان‘ چھپ کر آچکا تھا۔ کیفی صاحب نے نام سنا تھا۔ پڑھنے کی خواہش دم توڑ چکی تھی۔ میں نے آزادی کی چھتیسویں سالگرہ پر لکھی گئی نظم یاد دلائی۔ ذرا سا ہنسے۔ لیکن شرپسندوں کی نیی تھذیب نے ہنسی بھی چھین لی تھی۔ مجھے یاد ہے۔ بڑی مشکل سے دو چار لوگ پکڑ کر ڈایس تک لائے اور کیفی نے اپنی مشہور نظم ’رام کا دوسرا بنواس‘ سنائی۔
’رام بن واس سے جب لوٹ کے گھر میں آئے
یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگا
چھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
اتنے دیوانے کہاں سے میرے گھر میں آئے
جگمگاتے تھے جہاں رام کے قدموں کے نشاں
پیار کی کہکشاں لیتی تھی انگڑائی جہاں
موڑ نفرت کے اسی رہگزر میں آئے‘
پھر ملاقات نہیں ہوئی۔
بابری مسجد شہادت کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان بڑھتے فاصلے کو لے کر اداس تھے۔ دوست ایک ایک کرکے تنہا چھوڑ گئے۔ سردار جعفری ، ساحر، جاں نثار اختر، اخترالایمان، غلام ربانی تاباں سب رخصت ہوئے . وقت کے ساتھ وہ گھن گرج والی آواز بھی کھوتی جارہی تھی۔
کیفی کس کے لیے جیتے اورکیوں جیتے—؟ مودی کا گجرات انہیں بھی ایک مسلمان بنا کر کہتا— جے شری رام بولو۔ وہ رام کے تیسرے بنواس کے لیے تیار نہیں تھے۔ خون میں ڈوبی آزادی کے زخم مندمل نہیں ہو سکے . آنکھیں بدل گیی تھیں ۔ گاندھی جی کی دو آنکھوں کے درمیان زعفرانی تلواروں سے دراڑیں ڈال دی گیی تھیں ۔ ۲۰۰۲ کی شروعات میں وہ سب کچھ ہوا، جس کی امید نہ ملک کو تھی نہ کیفی کو .
کیفی تم کو مرنا ہی تھا۔ تعجب یہ ہے کہ تم زندہ کیسے تھے؟ کیفی بڑا شاعر نہ سہی ، بڑا انسان ضرور تھا . اردو کے جان نثاروں میں تھا . پیار کی کہکشاں لٹانے آیا تھا . محبت اور مساوات کی باتیں کرنے آیا تھا . کیفی کا حق ہے کہ ہم انھیں فراموش نہ کریں .
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...