کیفی اعظمی
آج ہم سید اختر حسین رضوی المعروف کیفی اعظمی کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر بات کرتے ہیں ۔سید اختر حسین رضوی المعروف کیفی اعظمی 14 جنوری 1919 کو میجواگاؤں میں پیدا ہوئے ۔یہ گاوں بھارت کے شہر اعظم گڑھ کے نزدیک واقع ہے ۔کیفی اعظمی کی شادی شوکت اعظمی سے ہوئی اور ان کی بیٹی شبانہ اعظمی ہیں،شبانہ اعظمی بھارتی فلم انڈسٹری کی باکمال اداکارہ ہیں اور اپنے آپ میں ایک اعلی مقام رکھتی ہیں ۔ان کا ایک بیٹا بھی ہے جن کا نام بابا اعظمی ہے ،بالی وڈ فلم انڈسٹری میں وہ بہت مقبول ہیں ۔کیفی اعظمی کہتے ہیں انہوں نے 11 سال کی عمر میں ایک غزل لکھی تھی (اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے )،کہتے ہیں جب انہوں نے یہ غزل ایک مشاعرے میں سنائی تو سب شاعروں نے ایک ہی آواز میں کہا کہ گیارہ سال کا بچہ اتنی گہری غزل نہیں لکھ سکتا ۔کیفی صاحب کا کہنا ہے کہ اس بات کا انہیں بہت افسوس ہوا،بعد میں اس غزل کو لیجنڈری گلوکارہ بیگم اختر نے گایا بھی تھا ۔کسی کو وقت ملے تو یہ غزل ایک بار ضرور سنے ۔کیفی اعظمی مارکسسٹ فلاسفی سے بہت متاثر تھے ،وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سرگرم ممبر بھی رہے ۔کیفی اعظمی کا تعلق ایک فیوڈل یعنی زمیندار فیملی سے تھا ،لیکن انہوں نے ایک ایسی زندگی کا انتخاب کیا جو تکلیفوں اور مسائل سے بھرپور تھی ۔24 سال کی عمر میں کیفی اعظمی نے کانپور کی ایک فیکٹری میں کام کرنا شروع کردیا ،یہ جوتے بنانے والی فیکٹری تھی ،اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ ممبئی آگئے ۔ممبئی میں مارکسٹ فلاسفی کو عام کرنے لگے اور ساتھ ساتھ مشاعروں میں بھی حصہ لینا شروع کردیا ۔یہ وہ دور تھا جب اردو کے شاعروں کو بالی وڈ یعنی ہندی فلموں میں کام مل جاتا تھا ۔1952 میں کیفی اعظمی نے بزدل فلم کے گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے ،لیکن یہ فلم فلاپ ثابت ہوئی ۔کہا جاتا تھا کہ کیفی صاحب کی فلمیں ہمیشہ فلاپ ثابت ہوتی ہیں ،اس لئے وہ ہندی فلموں کے لئے ان لکی انسان رہے ۔ایسے میں چیتن آنند کیفی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ میری فلم کے لئے گانے لکھیں ،کیفی صاحب نے کہا انہین تو فلموں کے لئے ان لکی مانا جاتا ہے ،کیوں ایک ان لکی انسان کے ساتھ آپ کام کرنا چاہتے ہیں ۔چیتن آنند نے کہا انہیں بھی فلموں کے حوالے سے بدقسمت کہا جاتا ہے ،کیوں نہ تو بدقسمت انسان ملک کر قسمت کا ستارہ روشن کریں ۔اس کے بعد کیفی اعظمی اور چیتن آنند کی جوڑی نے کمال کردیکھایا ۔ہیر رانجھا بہت مقبول فلم ثابت ہوئی اس کے گانے کیفی اعظمی نے لکھے تھے ۔پھر کیفی صاھب نے مدن موہن کے ساتھ انوکھا اور تخلیقی کام کیا ۔فلم حقیقت کے گانے تو آج بھی سب کو یاد ہیں ۔حقیقت فلم کا یہ گانا ضرور سنیئے گا، ہوکے مجبور مجھے اس نے بلایا ہوگا ۔۔فلم کوہرا کا گانا ۔۔۔۔یہ نین ڈرے ڈرے ۔اس کے بعد فلم انوپاما ،ہنستے زخم وغیرہ کے گانے بیحد مقبول ہوئے ۔بطور شاعر کیفی اعظمی کو پدم شری جیسے عظیم ایوارڈ سے نوازا گیا ۔فلم سات ہندوستانی کے لئے انہیں نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا ۔کیفی اعظمی کی ایک فلم تھی جس کا نام تھا گرم ہوا یہ فلم تقسیم کے موضوع پر لکھی گئی ۔آج بھی اگر یہ فلم دیکھیں تو آنسو جھلک پڑتے ہیں ۔کیفی اعظمی نے ایک سے بڑھ کر ایک گانا لکھا اور تمام گانے امر ہو گئے ۔ایک گانا تھا جس کے بول ہیں ۔۔۔وقت نے کیا کیا حسیں ستم ۔۔۔۔۔۔تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم ۔۔کبھی اکیلے میں یہ گانا ضرور ملاحظہ فرمایئے گا ۔کیفی اعظمی میں ایک درد اور غم تھا،جس کا اظہار ان کے تمام عظیم نغموں میں ملتا ہے ۔کیفی اعظمی ایک ایسے اجنبی اور عجیب انسان تھے جو اپنا غم اپنے اندر چھپا کر رکھتے تھے ،اور شاید اسی لئے انہوں نے یہ نغمہ لکھا تھا ۔تم اتنا جو مسکرا رہے ہو ،کیا غم ہے جسے چھپا رہے ہو ۔بھارتی سینما اور شاعری کی تاریخ میں کیفی اعظمی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔بطور مارکسٹ وہ ہمیشہ انسانوں ،غریبوں اور مزدوروں کے لئے جنگ لڑتے رہے ،مساوات ،آزادی اور برابری کی باتیں کرتے رہے ،وہ باکمال انسان تھے ۔کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس جہان سے کسی اور دنیا کو روانہ ہو گئے ۔لیکن ان کے ںغمے اور شاعری آج بھی دنیا بھر کے انسانوں کے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔
عجیب آدمی تھا وہ
کبھی وہ صرف پھول تھا
کبھی وہ صرف آگ تھا
عجیب آدمی تھا وہ
وہ بندشوں سے کہتا تھا
میں تم کو توڑ سکتا ہوں
سہولتوں سے کہتا تھا
میں تجھ کو چھوڑ سکتا ہوں
ہواؤں سے وہ کہتا تھا
میں تم کو موڑ سکتا ہوں
وہ خواب سے یہ کہتا تھا
کہ تجھ کو سچ کروں گا میں
وہ آرزو سے کہتا تھا
میں تیرا ہمسفر ہوں
تیرے ساتھ ہی چلوں گا میں
توں چاہے جتنی دور بھی بنالے اپنی منزلیں
کبھی نہیں تھکوں گا میں
وہ زندگی سے کہتا تھا
کہ تجھ کو میں سجاؤں گا
توں مجھ سے چاند مانگے
میں چاند لےکے آؤں گا
وہ آدمی سے کہتا تھا
کہ آدمی سے پیار کر
عجیب آدمی تھا وہ
………………………
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔