باب العلم مولا علی کے پوتے اور شہید کربلا امام عالی مقام کے صاحبزادئے علی بن حسین جو کہ زین العابدین اور امام الساجدین کے نام سے مشہور ہیں نے ایک بار فرمایا کہ “اتنا دکھ مجھے کربلا میں نہیں پہنچا جتنا دکھ اہل کوفہ کی خاموشی پر ہوا ہے۔کوفہ ایک شہر نہیں بلکہ ایک خاموش امت کا نام ہے ، جہاں کہیں ظلم ہو اور لوگ خاموش رہیں وہ شہر کوفہ ہے اوراس کے مکین کوفی “۔ امام زین العابدین نے رہتی دنیا تک ظلم پر خاموش رہنے والوں سے متعلق ایک ایسی تشبیہ دے دی جس کا انکار ممکن نہیں ہے ۔کربلا کا واقعہ تو 14 سوسال قبل پیش آیا مگر اس کے بعد ظالم اور ظلم کے چہرے بے نقاب ہوگئے ۔اور اٗن امتوں کے بھی جو ظلم ہوتے دیکھتی رہیں مگر خاموش رہیں ۔ہر عہد میں بے شمار شہر کوفہ بنے اور اٗن کے مکینوں کو کوفیوں کا درجہ ملا۔
اگر مقبوضہ کشمیر اور فلسطین پر نظر ڈالیں تو یہی لگتا ہےکہ پوری دنیا کوفہ میں بدل چکی ہے ۔ظلم اور جبر کی جو داستان یہاں پر رقم ہوئی ہے اس کا اظہار ہی ممکن نہیں ہے ۔یو این او گویا دمشق کا وہ تخت ہے جس پر عصر حاضر کے یزید اور اس کے درباری براجمان ہیں ۔جبکہ دنیا کے مہذب کہلائے جانے والے ممالک اور ان میں بسنے والی اقوام جو ایک جانور کےمرنے پر تڑپ اٹھتی ہیں کو کشمیریوں اور فلسطینیوں کی دلدوز چیخیں نہیں سنائی دیتیں۔تو کیا ان مہذب ملکوں کو کوفہ سے تشبیہ دینا غلط ہے کیا ان کے شہری اہل کوفہ سے کم بے حس ہیں۔
اقوام عالم سے گلہ بجا سہی مگر کچھ دیر کو رک کر اپنے گریبان میں بھی تو جھانک لینا چاہیے۔کہیں ہم بھی تو اپنے گردو پیش میں ہونے والے کسی ظلم پر خاموش تو نہیں ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی مظلوم ظلم سے بچنے کے لیے ہر بند دروازے پر دستک دے رہا ہو اور ہم بند دروازوں کے پیچھے دبک کر دستک کا ان سنا کررہے ہوں۔اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کہیں کوئی بھوک سے تو نہیں بلک رہا کوئی علاج نا ہونے کے سبب ایڑیاں تو نہیں رگڑ رہا کوئی انصاف کے لیئے دربدر ٹھوکریں تو نہیں کھا رہا۔اگر ایسا کچھ ہورہا ہے اور اس پر ہم خاموش ہیں نا توکسی مظلوم کی مدد کررہے ہیں اور نا ہی اس پر کوئی آواز بلند کررہے ہیں تو یقین جانیں ہم کوفی ہیں۔
زاتی مفادات کی خاطر ، کسی مصلحت کے تحت یا پھر حاصل شدہ نعمتوں کے چھن جانے کے ڈر سے اگر ہماری زبانیں خاموش ہیں تو کیا ہم پھر بھی کوفی نہیں ہیں ۔خیبر سے لے کر کراچی تک اس خطہ ارضی پر بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوکررہ گئی ہیں ۔غربت اور بھوک سے تنگ آ کر لوگ اپنے خاندان سمیت خودکشیاں کررہے ہیں ۔ عام آدمی دو وقت کے کھانے کے لیئے صبح سے شام تک تگ و دو کرتا ہے مگر اس کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترستے ہوئے انسانوں پر کیوں کسی کو رحم نہیں آتا۔کیا اس خطہ ارضی پر جنم لینا اپنے اختیار میں ہے اگر نہیں ہے تو پھر یہاں پیدا ہونے والوں کی زندگی جہنم کیوں بن چکی ہے۔
کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت کے نام پر عام آدمی کے ساتھ گزشتہ سات دھائیوں سے کھلواڑ کیوں ہورہا ہے ۔کہاں ہے ہو نظام جس کے لاگو کرنے سے عام آدمی کی بھوک ختم ہو اس کو چھت مل سکے اور وہ سکون کی زندگی گذار سکے ۔ماڈریٹ اور روشن پاکستان سے لے کر نئے پاکستان کے کہانی کاروں سے کوئی پوچھے کہ قائد کا پاکستان کیوں نہیں بنا دیتے ۔نئے تجربے کیوں کررہے ہو۔جو قائد نے کہا کبھی اس پر بھی عمل کرکے دیکھ لو شائد حالات کچھ بہتر ہوجائیں ۔
ماڈریٹ اور روشن پاکستان کے عہد کا خاتمہ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے پاکستان پر ہوا اور نیا پاکستان کچھ زیادہ ہی مہنگا ثابت ہوا ہے۔کیا حاصل ہوا اس طرح کی قصہ کہانیوں سے اور ان تماشوں سے۔ایک مدت تک مغربی جمہوریت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے قوم کو لگائے رکھا اور جب دیکھا کہ اس بار یہ فلم نہیں چلنے والی تو مذہب کی آڑ لے لی اور پرانے سائن بورڈ پر نیا پینٹ کرکے ریاست مدینہ لکھ دیا۔ جو دوکان پٹ چکی ہو جو کاروبار فلاپ ہوچکا ہو اس کے بھلے ہی نام بدل دیں اس نے نہیں چلنا یہ کاروباری دنیا کا اصول ہے۔
اگر واقعی ہی دوکان چلانی ہے تو اچھا مال لاو نئی انتظامیہ لاو خریداروں کو بہتر سروس دو ، مارکیٹ سے نرخ کچھ کم رکھو تو آہستہ آہستہ دوکان چل جائے گی ۔گاہکوں کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوجائے گا ۔ مگر شائد فائدہ اسی میں ہے کہ دوکان کو خسارے میں ہی چلایا جائے اور اسی لیئے چلایا بھی جارہا ہے ۔ریاست مدینہ کے نام کی آڑ لےکر ظلم ، جبر اور استحصال کی حکمرانی نے سانس لینا دوبھر کردیا ہے۔نااہلی ، نالائقی اور کرپشن کےکربل میں مظلوم عوام کو مہنگائی ، غربت کی ننگی تلوار سے تہہ تیغ کیا جارہا ہے۔ پینے کے صاف پانی کو ترستا ہوا کروڑوں تشنہ لبوں کا یہ ہجوم دو گھونٹ پانی مانگ رہا ہے کہ شائد زندگی بچ جائے۔
عام آدمی کی سفید پوشی کے پردے کو آگ لگا کر ظالموں کا وحشیانہ رقص جاری ہے۔زندہ رہنے کی معصوم خواہش کو مہنگائی کے نیزے میں پرو کر سربازار گھمایا جارہا ہے۔ٹٰیکسز کی بے رحمانہ بیڑیاں پاوں میں ڈال کرموجودہ مسلط بدترین نظام کے زندان میں عوام کو پھینک دیا گیا ہے۔اس ظلم پر اس جبر پر سب ایسے خاموش ہیں جیسے گویا ہونٹوں کو سی دیا گیا ہو۔اس قدر ظلم پر تو پتھر بھی چیخ اٹھتے ہیں تو پھر آج کے زندہ انسانوں کو کیا ہوگیا ہے کیوں اتنی خاموشی ہے کوئی اس ظالم نظام کے خلاف بولتا کیوں نہیں ہے۔کہیں ہم کوفہ میں تو نہیں بس رہے کہیں ہم کوفی تو نہیں بن گئے۔
تحریر:ملک سراج احمد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...