آج کانوں سے ماضی کی ایک آواز ٹکرائی آواز کیا تھی دل کے تار چھیڑ گئی
"زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نا
اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے نا"
تو سوچا ، آج آپ دوستوں کو اس مدھر اور جادوئی آواز کے مالک بارے میں بتایا جائے ، کئی دوست تو جانتے ہوں گے، مگر نئی نسل کی معلومات کیلئے ضروری ہے
مدھر آواز کے مالک معروف گلوکار سلیم رضا چار مارچ 1932 کو ہندوستانی پنجاب کے شہر امرتسر کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے، شروع میں ان کا نام Noel Dias رکھا گیا تھا
قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور لاہور میں رہائش اختیار کی اور اپنا نام تبدیل کرکے سلیم رضا رکھ لیا
ان کی پاکستان آمد بھی کسی داستاں سے کم نہیں مستنصر حسین تارڑ صاحب اپنی لاہور پر تحریر کی گئ کتاب میں لکھتے ہیں، ' ڈاکٹر انیس احمد نے میری اس کتاب کی پروف ریڈنگ کی۔ جب بیڈن روڈ کا باب پڑھا تو شکایتی انداز میں گویا ہوئے، ' آپ سلیم رضا کو کیسے بھول گئے۔ وہ بھی تو بیڈن روڈیا تھا۔'
یہ میرے لئے ایک خبر تھی۔ لیکن چونکہ میں کتاب میں وہی کچھ لکھ رہا تھا جو دیکھا تھا ، کبھی سلیم رضا کو بیڈن روڈ پر نہ دیکھا اور نہ ہی اس کے بارے میں سنا
ڈاکٹر انیس احمد نے ماضی کی دھند میں روپوش ہو چکا ایک ایسا قصّہ سنایا جس نے میرے دل کو چھُو لیا۔ " سلیم ابھی بچّہ تھا،
اپنی ماں کے ساتھ امرتسر میں اُس کٹڑی میں رہتا تھا جہاں ہمارا قیام تھا۔ اُس کا تعلق ایک عیسائی خاندان سے تھا۔ محلے والے اس کی ماں کو ' موٹی میم' کہا کرتے تھے۔ تقسیم کے موقع پر جب فسادات شروع ہو گئے۔ مشرقی پنجاب اور خاص طور پر امرتسر میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا تو ہماری کٹڑی کے سب مسلمانوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان جانے کے لیے، جو بھی تھا جتنا بھی تھا، رختِ سفر باندھ لیا اور کیا دیکھتے ہیں کہ سلیم رضا کی ماں بھی اپنا سامان باندھے بیٹھی ہجرت پر آمادہ ہے تو ہم نے پوچھا کہ موٹی میم، آپ تو عیسائی ہیں، آپ کی جان کو تو کوئی خطرہ نہیں تو آپ کیوں اپنا گھر بار ترک کر کے پاکستان جانا چاہتی ہیں؟ تو موٹی میم کہنے لگی کہ اس محلے کے سب لوگ میری برادری ہیں، میرے اپنے ہیں، آپ کے بغیر میں یہاں کیسے زندگی گزاروں گی، میں نے آپ کے ساتھ پاکستان جانا ہے۔"
سلیم رضا نے گلوکاری کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور 1955 میں فلم (نوکر) سے فلمی صنعت میں قدم رکھا اور اسی سال ریلیز ہونیوالی فلم (قاتل) کے گیت گا کر کافی مقبول ہوگئے۔
مگر انہیں اصل شہرت 1957 میں فلم (سات لاکھ) کے گیت
"یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں نشے میں ہوں"
سے ملی، جس کے بعد انھوں نے متعدد فلموں کو اپنے گیتوں سے مزین کیا، جن میں
اے دل کسی کی یاد میں
ہوتا ہے بے قرار کیوں
جس نے بھلا دیئے تجھے
اس کا ہے انتظار کیوں
جان بہاراں رشک چمن غنچہ دہن سیمیں بدن اے جان من جان بہاراں (عذرا)
کہیں دو دل جو مل جاتے
بگڑتا کیا زمانے (سہیلی)
حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں (پائل کی جھنکار)،
یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو ،یہ نگاہیں (گلفام)
تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
میرے دل کی انجمن میں (قیدی)
اور مشہور نعت شاہ مدینہ (نوراسلام) سرفہرست ہیں۔
تاہم 1966 میں فلم (پائل کی جھنکار) کے گیت حسن کو چاند جوانی کو غزل کہتے ہیں کے بعد ان کا زوال شروع ہوگیا۔
فلمی صنعت میں احمد رشدی، مہدی حسن، مسعود رانا، مجیب عالم اور دیگر گلوکاروں کی آمد کے بعد ان کی مانگ میں کمی آتی چلی گئی اور وہ مایوس ہو کر کینیڈا چلے گئے
1975 میں انہوں نے کینیڈا میں ایک میوزک کا انسٹی ٹیوٹ بنایا اور 1983 میں وہیں وفات کر گئے