وفاقی وزارت برائے اوورسیز پاکستانیز کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ بیرون ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کے مسائل حل کرے، بالخصوص وہ پاکستانی جو باہر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دوسرے ملکوں میں ’’کمیونٹی ویلفیئر اٹیچی‘‘ مقرر کئے جاتے ہیں۔ اس وقت مختلف ملکوں میں کمیونٹی ویلفیئر اٹیچی کی 19 اسامیاں موجود ہیں۔ گزشتہ برس صورتِ حال یہ تھی کہ کچھ اسامیاں ان میں سے خالی تھیں اور کچھ مستقبل قریب میں خالی ہونا تھیں۔ اووسیز پاکستانیز کی وزارت نے ان اسامیوں کو پر کرنے کے لیے قواعد کے مطابق اخبارات میں اشتہار دے کر اہل سرکاری ملازموں کو مقابلے میں شرکت کی دعوت دی۔ 29 نومبر 2014ء کو تحریری امتحان ہوا جس میں 341 امیدواروں نے شرکت کی۔ یہ تحریری امتحان ’’نیشنل ٹیسٹنگ سروس‘‘ نے لیا جو ایک آزاد ادارہ ہے اور غیر جانب داری سے امتحان لے کر متعلقہ محکموں کو نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ اووسیز پاکستانیز کی وزارت نے فیصلہ کیا کہ صرف ان کامیاب امیدواروں پر غور کیا جائے جنہوں نے تحریری امتحان میں 57 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔ اس معیار پر 102امیدوار پورے اترے۔ اب قواعد کی روسے ان امیدواروں کا، جو تحریری امتحان کے نتیجہ میں سرفہرست تھے، انٹرویو ’’ڈیپارٹمنٹل سلیکشنکمیٹی‘‘ نے لینا تھا۔ ہر وزارت کی اپنی ڈیپارٹمنٹل سلیکشنکمیٹی ہوتی ہے جو حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔ اس کمیٹی کی تشکیل یوں تھی:
سیکرٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز:چیئر مین
جوائنٹ سیکرٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز: ممبر
جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن: ممبر
ڈپٹی سیکرٹری متعلقہ وزارت: ممبر اور سیکرٹری کمیٹی
اس وقت کل 19 میں تین اسامیاں (جدہ، ابو ظہبی اور ایتھنز) میں خالی تھیں اور بھرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ چار اسامیاں (سیؤل، مسقط، ریاض اور دبئی میں) وہ تھیں جن پر مامور افسر اپنی میعاد پوری کر چکے تھے اور واپس آنے والے تھے۔ ان کے علاوہ چار اسامیاں (ریاض، بغداد، جدہ، بارسلونا) ایسی تھیں جو جون 2015ء میں خالی ہونا تھیں۔ یوں ڈیپارٹمنٹل سلیکشنکمیٹی نے گیارہ اسامیوں کے لیے امیدوار منتخب کرنے تھے۔ قاعدہ یہ تھا کہ ایک اسامی کے لیے کمیٹی تین امیدواروں کا چنائو کرے گی؛ چنانچہ کمیٹی نے گیارہ اسامیوں کے لیے 33 امیدوار منتخب کرنے تھے۔ کمیٹی نے انٹرویو کے لیے مندرجہ ذیل معیار مقرر کیا۔ یاد رہے، اس معیار کو اووسیز پاکستانیز کے وفاقی وزیر نے باقاعدہ منظور کیا۔
تحریری امتحان: 80 نمبر
سالانہ رپورٹیں: 10 نمبر
انٹرویو: 10 نمبر
کل نمبر:100
اب یہ جو انٹرویو کے دس نمبر تھے، ان کی تقسیم یوں تھی۔
جنرل نالج:2 نمبر
متعلقہ مضمون: 2 نمبر
اسلامیات: 2نمبر
تجربہ: 4 نمبر
کل :10 نمبر
کمیٹی نے 10 فروری 2015ء سے 13 فروری تک چار دن انٹرویو لیے۔ 102 میں سے 90 امیدوار انٹرویو کے لیے آئے۔ تمام 90 امیدواروں کے نمبروں پر مشتمل فہرست تیار کی گئی۔
اب آخری مرحلہ ’’سپیشل سلیکشنبورڈ‘‘ کا تھا۔ حکومت کا قانون یہی تھا کہ ڈیپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی ہر اسامی کے لیے تین امیدوار چنے گی۔ پھر سپیشل سلیکشنبورڈ تینوں کا انٹرویو لے کر ایک امیدوار کو منتخب کرے گی۔ یوں سپیشل سلیکشن بورڈ نے گیارہ اسامیوں کے لیے 33 امیدواروں کا زبانی امتحان لے کر گیارہ افراد چننے تھے۔ حکومت نے سپیشل سلیکشن بورڈ کی تشکیل یوں کی تھی:
وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز: چیئرمین
سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن: ممبر
سیکرٹری امور خارجہ: ممبر
سیکرٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز: ممبر
ایم ڈی اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن: ممبر
جوائنٹ سیکرٹری متعلقہ وزارت: ممبر اور سیکرٹری بورڈ
گویا سپیشل سلیکشنبورڈ میں وفاقی وزیر سربراہ تھے اور تین وفاقی سیکرٹری بطور رکن شامل تھے۔
اس سپیشل سلیکشنبورڈ نے یہ سفارش بھی کی کہ جو چھ اسامیاں(کویت، دوحہ، دبئی1، مانچسٹر، میلان اور کوالالمپور میں) اپریل 2016ء میں خالی ہونا ہیں ان کے لیے بھی افرادی قوت اسی فہرست میں سے لی جائے۔ اس کی وجوہ اس بورڈ نے یہ دیں کہ چنائو کے مراحل وقت طلب ہیں۔ اشتہار، تحریری امتحان اور دوبار انٹرویو میں اتنا طویل عرصہ لگتا ہے کہ پہلے ہی اسامیاں ایک سال خالی رہیں! کام کا نقصان ہوا۔ پھر نیشنل ٹیسٹنگ سروس اور دوسرے مراحل پر زرکثیر حکومت کا الگ لگتا ہے۔ چنانچہ بورڈ نے مکمل اتفاق سے فیصلہ کیا ہے کہ اپریل 2016ء میں خالی ہونے والی اسامیوں کے لیے بھی افسر اسی فہرست سے نامزد کر دیئے جائیں۔سپیشل سلیکشن بورڈ نے مندرجہ ذیل سترہ افسروں کو منتخب کیا۔ عتیق الرحمن خان، سلمان افضل، فرخ علی، عمر سعید ملک، واصف ممتاز، فیصل رند، رانا شکیل اصغر، فضلِ حامد، سید حسن رضا، احمد معاذ، سرفراز درانی، احمد تیمور ناصر، محمود لطیف، وقاص احمد، محمد طاہر، ندیم احسن، ذوالفقار خان۔
بورڈ نے حسب قواعد متبادل سترہ امیدوار بھی منتخب کیے۔ اب آخری مرحلہ وزیراعظم کی منظوری کا تھا۔ چنانچہ سمری وزیراعظم کے دفترمیں 4 مارچ 2015ء کو بھیج دی گئی۔ یہ سمری پہلے وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز نے منظور کی۔ پھر وفاقی سیکرٹری امور خارجہ نے منظور کی۔ پھر وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے منظور کی۔ یوں یہ سمری مارچ کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم کے دفتر میں حاضر ہوگئی!
آپ نے دیکھا کہ اس سارے قصے میں چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اخبار میں اشتہار چھپا۔ درخواستیں وصول ہوئیں۔ دستاویزات ارسال کرنے کیلئے توسیع دی گئی۔ تحریری امتحان ایک آزاد خودمختار ادارے نے لیا۔ میرٹ لسٹ بنی۔ 57 فیصد سے زیادہ نمبر لینے والوں کے انٹرویو ہوئے۔ ہر چیز ریکارڈ پر آئی۔ وفاقی وزیر اور تین وفاقی سیکرٹریوں نے ان مدارج کی تکمیل میں حصہ لیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، وزیراعظم کے دفتر کو اس کی منظوری یا عدم منظوری میں کتنا وقت لینا چاہیے تھا؟ ایک ہفتہ؟ دو ہفتے؟ چار ہفتے؟ دوماہ؟ تین ماہ؟ بس یہیں آ کر کہانی وہ موڑ مڑتی ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے سینے پر دو تھپڑ مار کر بین کیا تھا ؎
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
وزیراعظم کے دفتر نے اس سمری کو پورے چھ ماہ اپنے پاس رکھا۔ اس عرصے میں کوئی اعتراض لگا نہ کوئی معلومات یا اطلاع حاصل کرنے کے لئے متعلقہ وزارت سے رابطہ کیا گیا۔ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اگر وزیراعظم کو اس سلسلے میں کچھ تحفظات تھے تو متعلقہ وفاقی وزیر اور تینوں وفاقی سیکرٹریوں کو بلاکر ڈسکس کرتے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہاں، اس عرصہ میں متعلقہ وزارت یعنی اوورسیز پاکستانیز کا وفاقی سیکرٹری ضرور ریٹائر ہو کر گھر چلا گیا۔ متشرع شکل و صورت کے اس ’’خودسر‘‘ افسر کی عمومی شہرت ہی ایسی تھی! کسی کی غلط بات مانتا نہ تھا۔ جو کام بھی کرتا، میرٹ پر شفاف طریقے سے کرتا۔ موصوف کو خوشامد کے فن میں بھی دلچسپی نہ تھی!
چھ ماہ یعنی چوبیس ہفتوں کے بعد ،دن جن کے ایک سو اسی بنتے ہیں، وزیراعظم کے دفتر سے ایک افسر نے یہ سمری چار اعتراضات کمے ساتھ واپس کردی۔ پہلا اعتراض یہ کہ اشتہار میں سات اسامیاں تھیں جبکہ سمری میں سترہ اسامیوں کا ذکر ہے۔ اس اعتراض کا جواب سمری میں وفاقی وزیر اور تین وفاقی سیکرٹریوں نے پہلے ہی دے دیا تھا۔ ایک امتحان ہوا۔ میرٹ پر نوے پاکستانی امیدواروں کی میرٹ پر فہرست بنی۔ مستقبل قریب میں جو اسامیاں خالی ہو رہی ہیں، ان کے لئے اس فہرست میں سے کیوں نہ انتخاب کیا جائے؟ ان سارے مراحل پر مہینے لگے۔ لاکھوں روپے صرف ہوئے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی چیز قابل اعتراض نہیں!
دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ کچھ سروس گروپوں کو جن کا ’’کمیونٹی بہبود‘‘ اور پبلک ریلیشنز سے کوئی تعلق نہیں، زیادہ نمبر کیوں دیئے گئے؟ کون سے سروس گروپ؟ بچے بچے کو معلوم ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں جو ریٹائرڈ افسر پیرانہ سالی اور ضعف جسم و دماغ کے ساتھ مسند نشین ہیں کس خاص گروپ سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ وہی گروپ ہے جس نے ہر حکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ جس نے ضلعی حکومتوں کو قتل کرکے اپنی ڈفلی دوبارہ بجانا شروع کردی۔ سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس، کسٹمز، آڈٹ اینڈاکائونٹس، پولیس اور آئی ایس آئی میں کام کرنے والے افسر کمیونٹی ویلفیئر کا کام کیوں نہیں کرسکتے؟ کیا یہ کوئی (باقی صفحہ 13پر)
راکٹ سائنس ہے؟ اور کیا ایک مخصوص گروپ کے اہلکار اس فن میں پی ایچ ڈی ہیں؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ لگان جمع کرنے اور پٹواریوں کے ذریعے حکومت کرنے میں کمیونٹی ویلفیئر کا کیا کام ہے؟ سارا پاکستان جانتا ہے کہ کچہریوں میں کیا ہو رہا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ انتقال اراضی اور ریونیو کے دیگر شعبوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ تحریری امتحان میں زیادہ نمبر لینے والوں کو انٹرویو میں کم نمبر کیوں ملے؟ ظاہر ہے کہ ایسا چند امیدواروں کے معاملے ہی میں ہوا ہوگا۔ اگر یہ اعتراض درست مان لیا جائے تو سی ایس ایس کے اب تک کے سارے امتحان باطل قرار پاتے ہیں۔ کیا کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس یہ بات مان سکتا ہے کہ تحریری امتحان میں زیادہ نمبر لینے والا ہر امیدوار انٹرویو میں بھی زیادہ نمبر لے؟ اگر ایسا ہے تو پھر انٹرویو کی ضرورت کیا ہے؟ زور قلم اور شے ہے، زور بیان اور شے۔ کتنے ہی ثقہ عالم، تقریر نہیں کرسکتے۔ کتنے ہی کم علم، زور بیان سے متاثر کر دیتے ہیں! کیا انٹرویو لینے ورالے، امیدوار کا تحریری رزلٹ دیکھ کر پہلے ہی طے کرلیں کہ اسے انٹرویو میں بھی اسی حساب سے نمبر دینے ہیں؟ تو پھر نسبت تناسب سے انٹرویو لینے بغیر ہی انٹرویو کے نمبر دے دینے چاہئیں!
چوتھا اعتراض دو امیدواروں کے ریکارڈ سے متعلق ہے۔ یہ بھی کوئی ایسا پیچیدہ نکتہ نہیں تھا کہ چھ ماہ کا عرصہ لگایا جاتا!
سنا ہے کہ ان اعتراضات کے حوالے سے نئے سیکرٹری صاحب نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سارا کام نئے سرے سے، دوبارہ کرلیتے ہیں۔ یعنی پھراشتہار چھپے گا پھر تحریری امتحان ہوگا، پھر انٹرویو ہوں گے۔ پہلے ڈیپارٹمنٹل کمیٹی انٹرویو لے گی۔ پھر سپیشل سلیکشن بورڈ وفاقی وزیر اور تین چار وفاقی سیکرٹری پھر شہادت دیں گے کہ انہوں نے درست کام کیا ہے۔ پھر سمری اوپر جائے گی!
لطیفے کا آخری حصہ یہ ہے کہ پھر وہی ہوگا جو لدھیانے میں ہوتا آیا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں اسی طرح ہوں گی جیسے گزشتہ کئی عشروں سے ہوتی آئی ہیں! محنت کرنے والے دیانتدار لیکن روابط میں کمزور سرکاری افسروں کو مصطفی زیدی کا یہ شعر پڑھ کر، محنت اور صبر کی چکی میں پستے رہنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے؎
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلائو
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“