چالیس سالہ ٹکنیشن کا کام ائیر کنڈیشنگ اور دوسرے برقی آلات کی تنبصیب کا تھا۔ 1960 میں ایک صبح کام کرتے وقت انسولیشن میں سے ایسبیسٹوس کا ایک چھوٹا سا ذرہ الگ ہوا تھا۔ فضا پر اڑتے ہوئے یہ سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑے تک پہنچ گیا تھا۔ جسم کا مدافعتی نظام حرکت میں آیا۔ اس کو مار بھگانے کے چکر میں خلیے تیزی سے تقسیم ہوئے۔ یہاں سوجن سے ہو گئی، جیسا کسی زخم کے بھرتے وقت ہوتی ہے۔ اس سوجن کے لئے خلیے بڑی تیزی سے تقسیم ہوئے تھے۔ تیزی سے تقسیم ہونے والے خلیوں میں سے ایک میں کچھ گڑبڑ ہو گئی۔ یہ راس جین میں ہونے والی میوٹیشن تھی۔ اس میٹوٹیشن والی جین کے خلیے تیزی سے بڑھ سکتے تھے۔ یہ کینسر نہیں تھا لیکن اس موذی مرض کے خلاف بندھے حفاظتی حصاروں میں سے ایک اس خلیے میں ٹوٹ گیا تھا۔
راس میوٹیشن والا یہ خلیہ اپنی کاپیاں بناتا رہا۔ یہ بائیں پھیپھڑے کی پرلی دیوار پر جاری تھا۔ دس سال گزر گئے۔
یہ صاحب تمباکو نوش تھے۔ سگریٹ کے ٹار کا کارسینوجن عنصر اس جگہ تک پہنچ گیا۔ یہاں اس کا تصادم راس میوٹیشن والے اس علاقے سے ہوا۔ خلیوں کے اس گچھے میں سے ایک میں، ایک اور میوٹیشن ہو گئی۔ دوسری اونکوجین ایکٹیویٹ ہو گئی تھی۔
دس برس اور گزرے۔ ان دو میوٹیشن والے خلیے اس جگہ بڑھتے رہے۔ پھر ایک روز ان میں سے ایک تقسیم ہونے کے دوران ایکس رے کی زد میں آ گیا۔ اس میں کاپی کا یہ عمل خرابی کا شکار ہوا اور اس بار ٹیومر سپریسر جین غیرفعال ہو گئی۔ اس کا اثر نہیں ہوا کیونکہ اس کی دوسری کاپی پائی جاتی تھی، لیکن اگلے سال ہونے والی میوٹیشن نے اس دوسری کاپی کو بھی غیرفعال کر دیا۔ اب ایک ایسا خلیہ بن چکا تھا جس میں اونکو جینز فعال اور ٹیومر سپریسر جین غیرفعال ہو گئی تھیں۔ خلیاتی تقسیم کے عمل کی بریکیں فیل ہو گئی تھیں اور ایکسرلیٹر دب چکا تھا۔
چار میوٹیشن والے ان خلیوں نے موت کا مارچ شروع کر دیا۔ تقسیم در تقسیم ہونے کے معاملے میں اپنے بھائی بندوں (عام خلیوں) کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بڑھنے کی اس تیز رفتار کی وجہ سے یہ نئی میوٹیشنز اکٹھی کرتے گئے، نئے پاتھ وے فعال کرتے گئے۔ انہوں نے بڑھنے اور زندہ رہنے کے لئے مہارت حاصل کر لی۔ ٹیومر کی ایک موٹیشن نے خون کی رگیں اگانا شروع کیں، ایک اور نے اس خون سے توانائی حاصل کر کے جسم کی ان جگہوں پر رہنے کا فن پا لیا جہاں پر آکسیجن کم ہو۔
میوٹنٹ خلیوں سے میوٹنٹ خلیے بنے۔ ایک خلیے میں وہ جین ایکٹیویٹ ہو گئی جو حرکت میں مدد کرتی ہے۔ حرکت کرنا والا یہ خلیہ پھیپھڑے کے ٹشو سے حرکت کرتا ہوا خون میں داخل ہو گیا۔ اس کے ایک جانشین نے ہڈی میں رہنے کی صلاحیت حاصل کر لی۔ خون میں تیرتا ہوا یہ کولہے تک پہنچ گیا۔ یہاں پر زندہ رہنے، چناوٗ اور کالونی بنانے کا نیا کھیل شروع ہو گیا۔ پھیپھڑے سے شروع ہونے والے اس ٹیومر کا یہ پہلا میٹاسٹیسس تھا۔
یہ سب جس شخص کے اندر ہو رہا تھا، وہ پہلے تو بے خبر رہا تھا لیکن اب اس کو کچھ علامات محسوس ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ سانس پھول جایا کرتا۔ کبھی سینے میں تکلیف کی لہر دوڑ جاتی۔ چلتے وقت کبھی یوں لگتا جیسے پسلی کے نیچے کوئی شے ہل رہی ہو۔ ایک سال گزرا، یہ بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتا گیا۔ اس نے اب ڈاکٹر سے رجوع کیا۔
سی ٹی سکین کیا تو پھیپھڑے کے برونکس پر ایک چھال کی طرح لپٹا مواد نظر آیا۔ بائیوپسی کروائی تو پھیپھڑے کا کینسر تشخیص ہوا۔ سرجن نے معائنہ کیا اور سی ٹی سکین دیکھا تو سرجن نے بتا دیا کہ اس کا آپریشن نہیں کیا جا سکتا۔ تین ہفتے کے بعد اس کو واپس ہسپتال آنا پڑا۔ تکلیف پسلیوں کے ساتھ ساتھ کولہے میں بھی تھی۔ ہڈی کے سکین سے پتا لگ گیا کہ کینسر یہاں تک پھیل چکا ہے۔
شریانوں میں کیمیوتھراپی کی ڈرگ ڈالی گئی۔ پھیپھڑے کے ٹیومر نے ان ادویات پر ریسپونس دکھایا۔ وہ شخص خلیوں کو مارنے والی ان ادویات کے اثرات کا بہادری سے مقابلہ کرتا رہا۔ لیکن اس علاج کے دوران اس ٹیومر کے خلیے نے ایک اور میوٹیشن حاصل کر لی۔ اب یہ اس نے ان ڈرگز کے خلاف مدافعت پا لی تھی۔ ابتدائی تشخیص کے سات ماہ بعد ٹیومر جسم میں واپس گھر کر چکا تھا۔ پھیپھڑوں، ہڈیوں اور جگر تک واپس آ گیا تھا۔
اور پھر، 17 اکتوبر 2004 کو، جب تکلیف رفع کرنے والی ادویات کے زیرِ اثر گہری غنودگی طاری تھی، اس کے بیوی اور بچے بستر کے گرد موجود تھے۔ وہ میٹاسٹیٹک لنگ کینسر کے ہاتھوں چل بسا۔ ایسبیسٹوس کا وہ ذرہ ابھی بھی بائیں پھیپھڑے کے پرلی طرف موجود تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیکل سائنس کہانی سنانے کا فن ہے۔ مریض اپنے معالج کو اپنی بیماری کہانی بتاتے ہیں۔ معالج ان کو علاج کے بارے میں سمجھانے کے لئے کہانی سناتا ہے۔ سائنس کی کہانیاں پڑھنے والوں کو یہ بتاتی ہیں کہ یہ سب کام کیسے کرتا ہے۔ کینسر کی پیدائش، کینسر کا باعث کرنے والے ایجنٹ جو جینز پر کس طریقے سے اثر کرتے ہیں، خلیوں میں پاتھ وے کس طرح یکے بعد دیگرے کھلتے ہیں۔ میوٹیشن، سلیکشن، سروائیول کے چکر کیسے کام کرتے ہیں۔ کینسر کے بارے میں یہ ہماری اب تک کی سمجھ کی کہانی ہے۔ اس میں واقعات کی ترتیب ہائیپوتھیٹیکل ہو لیکن اس سب کے بیچ میں یہ اصل شخص کی کہانی ہے۔ اب ہم اس بیماری کے اتنے تفصیلی ماڈل بنا سکتے ہیں کہ یہ کہانیاں بتا سکیں۔ یہ ڈاکٹر سدھارتا مکھرجی کے کیرئیر میں ان کے زیرِ نگہداشت کینسر وارڈ میں انتقال کرنے والے پہلے مریض کی کہانی ہے۔
اس مریض کا ذکر اس کتاب میں
The Emperor of All Maladies by Siddharta Mukherjee