زندگی مجھے اپنے میلوں اور جھمیلوں میں لیے پھرتی رہی اور میں سر پٹ دوڑتے وقت کی دُم زور سے پکڑے دوڑتا کم گھسٹتا زیادہ رہا اور اب ہانپ کے گر چکا ہوں
ابھی ابھی سفید کپڑوں میں ایک خوبصورت نرس آئی تھی، زندہ مسکراہٹ لیے مجھ سے میرا حال پوچھا اور پھر کچھ دوائیں دے کے پھر آنے کا کہہ کے چلی گئی جیسے اسے امید ہو کہ یہ زندگی کی دوڑ سے تقریباً باھر پڑا بوڑھا، اس کے دوسرے راؤنڈ تک سانسیں گھسیٹ ہی لے گا
ایک وقت تھا اور زیادہ دور کا بھی نہیں کہ جب محاورۃ ایک ہی سانس میں ایسی ایسی کہانی سنا جاتا تھا کہ لوگ سانس لینا بھول جاتے تھے. میں نے بچپن سے اب تک، صرف اپنا جہلم شہر دیکھ رکھا تھا مگر میری کہانیاں دہلی اور لکھنؤ کے نوابوں کے ایسے ایسے سربستہ راز کھولتی تھیں کہ سننے والے جیسے خود کو وہیں پاتے ہوں. کبھی مرزا غالب کے ساتھ آم کھاتے ہوئے ہماری گفتگو سناتا تو سننے والے جملوں کو شعر سمجھ لیتے. کبھی روم کی پتھریلی گلیوں میں اٹالین حسیناؤں کے پاس سے اپنا سیاہ گھوڑا دوڑاتے نکلتا تو وہ دیوار کے ساتھ لگ جاتیں اور دور تک ان کی نظریں میرا پیچھا کرتیں اور سننے والے گھوڑے کی ٹپ ٹپ صاف سنتے دکھائی دیتے. کبھی افریقہ کے جنگلوں میں میری شیر سے لڑائی اور پھر ہماری شیر کے مرنے تک کی دوستی کے قصے سننے والوں کی آنکھوں میں آنسو لے آتے.
میں وہاں وہاں پہنچا جہاں تک کا کبھی نام سنا یا پڑھا تھا اور مجھے سننے والے بھی یقیناً اب ویسے ہی وہاں وہاں پہنچتے ہوں گے جہاں تک کی راہ میں انھیں "سنا" آیا تھا
ابھی ساتھ والے بیڈ پہ پڑے میرے ہی ایک ہم عمر کو گھر والے کلمہ پڑھنے کی تلقین کر ریے ہیں اور وہ منہ ہی منہ میں جانے کیا کہہ رہا ہے،وہ اسے اللہ یاد دلا رہے ہیں تو مجھے بھی یاد آیا کہ مجھ میں اور اللہ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں. کہانی یوں ہے کہ نہ میرے آگے پیچھے کوئی ہے نہ اس کے. ہم اکیلے ہیں دونوں.. میں بھی جہلم سے باھر کہیں نہیں گیا اور وہ بھی آسمان کے جانے کون سے کونے میں زندگی کاٹتا رہا ہے، کبھی اسے زمین پہ آتے نہیں دیکھا. دو ٹانگیں کبھی جو پورے جسم کا بوجھ ڈھوتی تھیں، اب وہی دو ٹانگیں سوٹی کے سہارے گھسیٹ رہا ہوں، یقیناً اللہ بھی میری طرح کسی عصا کا محتاج ہو گیا ہو گا. وہ بھی زندگی کے میلوں اور جھمیلوں سے گزرتا گزرتا، لمبی لمبی کہانیاں چھوڑتا اب کہیں بستر علالت پہ پڑا میری طرح سانس کھینچ رہا ہو گا. ہر پانچ چھے منٹ کے بعد اس کی چھاتی سے بھی کھانسی کا طوفان بدتمیزی امڈتا ہو گا اور پھر اس طوفان کے گزر جانے کے بعد میری طرح آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرنے کی ہمت بھی نہ پاتا ہو گا. آپ اسے پانی کہہ سکتے ہیں مگر جب میری عمر تک پہنچیں گے تو آنکھ سے جو بھی نکلے گا، آنسو ہی لگے گا
سچ تو یہ ہے کہ سب کہانی ہے، میں بھی، خدا بھی اور ہم دونوں کی سنائی کہانیوں کے علاوہ میرے اور خدا کے درمیان ایک بات اور بھی مشترک ہے… ہم دونوں مر رہے ہیں
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...