کہانی کا نیا موڑ
یہ کئی دفعہ ہوا۔ کلاس میں طلبہ میرا رونا، دھونا سن کر پوچھتے کہ سر کیا واقعی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا کوئی صفحہ روشن نہیں ؟ میں اپنے ذہن کے پوشیدہ گوشوں میں ’’کانٹے سے کہوٹہ تک‘‘ کی کہانی سناتا۔ مگر دل ہی دل میں جب ڈاکٹر عبدالقدیر کا مقابلہ بھارتی ڈاکٹر عبد الکلام سے کرتا تو میری اپنی زبان لکنت زدہ ہوجاتی۔ مگر آج لمحہ موجودتک تو میں مطمئن ہوں۔ مطالعہ پاکستان کا ایک روشن باب پڑھانے کی خواہش تو پوری ہوئی!
کل کا طالب علم پڑھے گا کہ دس برس کی جلا وطنی کاٹنے کے بعد جب نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنا تو وہ لوگوں کو بہت مختلف لگا۔جن لوگوں نے اسے دودھ میں مکھی کی طرح نکالا تھا، اب وہ بے بسی سے اسے وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے دیکھ رہے تھے، لیکن انھیں تسلی تھی کہ ہمارے ہی ہاتھوں سے تراشا ہوا یہ ’’بھگوان‘‘ پچھلی غلطیاں نہیں کرے گا۔ مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔ نواز شریف نے آتے ہی افغانستان اور بھارت سے تعلق ٹھیک کرنے کی بات کی۔ اس نے امریکہ کے بجائے چین کو فوقیت دینے کی پالیسی اختیار کی۔ یمن کی جنگ میں الجھ کر نئی پراکسی وار کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا۔ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تقسیم پر اپنے شدید تخفظات کا اظہار کر دیا۔ظالمان جب پشاور میں معصوم بچوں کا خون پینے سے بھی باز نہ آئے تو فوج بھی آپریشن پر تیار ہو گئی اور اس نے پوری قوت کے ساتھ، طنز کا کوئی تیر چلائے بغیر، فوج کا ساتھ دیا۔ نواز شریف اس حوالے سے یکسو تھا کہ ملک کو ترقی دینی ہے تو امن ناگریز ہے۔ اس کے بغیر لوڈشیڈنگ ہو یا انفراسٹر یکچرکی تعمیر ، معیشت کی بحالی ہو یا سی پیک منصوبہ، کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثبت سوچ نے رنگ لانا شروع کر دیا، ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سٹاک ایکسْچینج ریکارڈ سطح پر پہنچا، ڈالر سو روپے سے کم سطح پر آ گیا۔ جی ڈی پی 5 درجے سے بھی تجاوز کرگئی ۔ معیشت کے حوالے سے عالمی ادارے مثبت اشارے دینے لگے۔ ماہرین نے یقین کرنا شروع کر دیا کہ لوڈشیڈنگ کا جن قابو میں آجائے گا۔وہی فوج تھی ،وہی رینجر اور وہی صوبائی حکومت، بس وزیراعظم بدلا ہوا تھا ،اس لیے کراچی میں بتدریج امن ہو تا چلا گیا۔ جیسے تیسے انٹر نیشنل کرکٹ بحال ہو گئی۔ دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ نواز شریف کا اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ مخالفوں نے کہنا شروع کر دیا کہ نواز شریف کی گردن میں سریا آگیا ہے۔ اسی لیے اس نے پرویز مشرف اینڈ کمپنی کے محاسبے کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ وہ اور اس کی ٹیم خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنے ’’فلسفے‘‘ بکھارنے لگی ہے۔ ’’بھری محفلوں‘‘ میں کہا جانے لگا ہے کہ ہم دہشت گردوں کو پکڑتے اور آپ چھڑا لے جاتے ہیں ۔ آپ کی وجہ سے ہم عالمی برادری میں اکیلے ہو تے جا رہے ہیں ۔ یہ حافظ سعید کون سے انڈے دیتا ہے جو اس کو سرکاری مہمان کا پروٹول دیا جاتا ہے ۔ اور یہ انتہا تھی کہ ایک نیم پاگل قاتل سے بلیک میل ہونے کے بجائے اسے وہی سزا دے ڈالی جو عدالت نے اسے دی تھی۔ اوراس وقت تو بعض لوگوں کے منہ سے جھاگ بہنا شروع ہو گئی جب اسلام آباد یونیورسٹی کی ایک چیئر کا نام غیر مسلم ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھ دیا گیا۔ جب یہ سب ہو نے لگا تو چشم فلک نے دیکھا کہ چند ما ہ کے اندر اندر عجیب عجیب باتیں ہونے لگیں۔
اچھی بھلی حکومت سے حماقتوں پر حماقتیں ہو نے لگی ہیں ۔ دھرنا ڈراما ختم ہوا تو پاناما سکینڈل آگیا۔ اس میں چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے لیکن دائرہ صرف نواز شریف کے گرد لگا دیا گیا۔ عدالت نے سرعام اعلان کیا کہ اس کیس کو ہمارے پاس لائیں ، تاریخی فیصلہ دیں گے۔ اور پھر واقعی ایسا فیصلہ آیا کہ ساری دنیا نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں ۔ کسی ایک بھی عالمی فورم پر اسے انصاف کے مطابق قرار نہیں دیا گیا۔ حتیٰ کی عمران خاں جیسے دشمن نے بھی اسے کمزور فیصلہ قرار دیا۔ نااہلی کے بعد بھی جب مطلوبہ بتائج حاصل نہ ہوئے بلکہ شیر عوام کے جنگل میں آکر مزید اونچی آواز میں دھاڑنے لگا۔ اور جب پارٹی میں بھی قابل اطمینان ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی تو اگلے مرحلے کا آغاز ہو۔
سارے جہان کو معلوم تھا کہ نواز شریف خاندان کے لندن میں فلیٹس ہیں اور 1993سے ہیں لیکن اس سے پہلے نہ وہ بے نظیر کو نظر آئے ، نہ پرویز مشرف کو اور نہ کسی اور طاقت کو ۔ حلف میں ختم نبوت والی عبارت میں کی جانے والی لفظی تبدیلی پر اگرچہ ساری پارلیمنٹ شامل تھی لیکن اس کی زد میں صرف نواز شریف آیا اور جاہلوں کے غول کے غول کو دارالحکومت پر کھلا چھوڑ دیا گیا۔ ان کو پوری اجازت تھی کہ جس کی مرضی ٹانگ بھنبھوڑیں یابازو۔ حکومت کتنی بااختیار تھی ، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ خورشید شاہ بول پڑے کہ کہ وزیراعظم محض خلائی مخلوق کے احکام پر دستخط کرتے ہیں ۔ جیسے تیسے پانچ برس مکمل ہوئے ۔ انتخابات کے لیے صف بندی ہوئی تو معاملہ پھر بھی خلائی مخلوق کے لیے تسلی بخش نہ تھا، سروے اسی کے حق میں جا رہے تھے ۔چنانچہ اپنے تئیں حالات مناسب دیکھ کر سزا دے ڈالی گئی ۔ فیصلہ سنانے سے ڈیل کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مگر نواز شریف اس جنگ میں اب ہر چیز جھونک دینے کا تہیہ کیے بیٹھا تھا۔ آخر سرینا ہوٹل سے بند لفافہ بشیرے کے حوالے کر دیا اور اس نے کانپتے ہاتھوں سے دستخط کر دیے۔ اب خیال یہی تھاکہ نازو نعم میں پلی بیٹی اور مغل شہزادوں کی شہرت رکھنے والا نواز شریف بی کلاس کی جیل میں جانا کیسے قبول کرے گا۔ لیکن نواز شریف بھی جانتا ہے کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ پولیس کے بجائے رینجرز مقابلے میں ہے ۔ ٹی وی چینلز پر مارشل لاء لگ چکا ہے ۔اکا دکا جو صحافی بہادری دکھا رہے تھے ، اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹائے جا رہے ہیں ۔ ایک ایک لیگی امیدوار کو دھمکیاں مل رہی ہیں ۔ان کے بچوں کی نقل حرکت کی انھیں اطلاع دی جارہی ہے ۔ ساڑھے تین لاکھ فوجی بھائی ’’ الیکشن ‘‘ کی نگرانی کے لیے بک ہو چکے ہیں ۔ لیکن بہادری کی داستان رقم کی جاچکی ہے ۔ سیاست دان ثابت کر چکا ہے کہ وہ کمانڈو سے بہادر ہے ۔ وہ منظر سے غائب ہے لیکن منظر اسی کے گرد گھوم رہا ہے ۔ وہ تاحیات نا اہل ہے لیکن پارٹی کا نام اب بھی ن لیگ ہے ۔ اندھوں کو بھی معلوم ہے کہ یہ کیسا منصفانہ الیکشن ہے جس میں پارٹی صدر کو جیل میں بند کر دیا ہے ۔ اور اس کے بعد کی قیادت بھی گیارہ برسوں کی قید میں ہے۔ میڈیا ڈیکٹیشن لے رہا ہے ۔ مرضی کے کئی محاذکھول دیے گئے ہیں۔ کرینیں، جیپیں، گائے، بھینسیں انتخابی راستے بند کرنے کے لیے بے قابو چھوڑ دی گئی ہیں ۔ قابل ذکر سیاسی جن بھوتوں کی جن جن طوطوں میں جان تھی ، ان کو قبضے میں لیا جا چکاہے ۔ کئی سکہ بند دہشت گردوں کے پٹے ٹھیلے کر کے میدان میں اتار دیا گیا ہے ۔ اپنی نوعیت کا پہلا الیکشن ہے کہ کوئی نتیجہ خیز اتحاد نہیں بننے دیا گیا ۔ مگرفضا اب بھی ابر آلود ہے۔ اب فیصلہ یہ ہونا باقی ہے کہ 1977میں ضیاء الحق والی حکمت عملی اختیار کی جائے یا عمران خان پر اعتماد کیا جائے ۔ ہماری دعا ہے کہ کم ازکم عمران خان ہی پر اعتماد کر لیا جائے !
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“