کہانی کے آگے کی کہانی
میری چھوٹی بیٹی مشابہ کو کہانیاں سننے کا بہت شوق ہے۔ مجھے بھی اسے کہانیاں سنانا اچھا لگتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی اسے اپنی امی سے زیادہ مجھ سے لگاؤ رہا ہے۔ بے چاری امی کو گھر کے کاموں سے فرصت ہی کہاں کہ وہ اسے کہانی سنائے۔ بستر پر آتے آتے وہ تھک کر نڈھال ہو جاتی ہے اور میں چاہ کر بھی اس کے لیے کچھ خاص نہیں کر پاتا۔
مشابہ روز میرے دفتر سے لوٹنے پر پوچھتی ہے کہ میں اسے آج کون سی کہانی سنانے والا ہوں اور مجھے اس روز سنائی جانے والی کہانی کا ایک خاکہ تو فوراً ہی پیش کر دینا ہوتا ہے اور مشابہ کھانا کھا کر میرے بستر پر آنے کا انتظار کرنے لگ جاتی ہے۔
ایک روز دفتر کا کام کچھ زیادہ ہی ہو گیا تھا۔ دن بھر کی مصروفیت کے سبب سر بھاری بھاری لگ رہا تھا ۔ گھر پہنچتے ہی مشابہ کے جانے پہچانے سوال سے سامنا ہوا۔
’’ابو آج کون سی کہانی سنائیں گے آپ؟‘‘
’’نہیں بیٹا آج نہیں، آج سر میں بہت درد ہے۔‘‘
’’نہیں، نہیں، بالکل نہیں، مجھے کہانی سننی ہے تو سننی ہے۔‘‘ اور اس نے منہ پھلا لیا۔ مشابہ جب غصہ ہو جاتی ہے تو اسے منانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے سمجھ لیا وہ ایسے نہیں مانے گی۔ آخر لاکھ نہ چاہنے پر بھی مجھے کہانی سنانے کے لیے حامی بھرنی پڑی۔ کھانے کے بعد وہ میری بغل میں آکر لیٹ گئی اور میں نے کہانی شروع کی۔‘‘
’’ایک جنگل میں ایک باگھ رہتا تھا۔‘‘
’’کیا ابو! پھر سے وہی باگھ والی کہانی؟ آج ہم راجا والی کہانی سنیں گے۔‘‘
وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے میں نے ہاںکہنا ہی بہتر سمجھا اور یوں کہانی شروع کی۔
پرانے زمانے کی بات ہے۔ ایک ریاست میں ایک راجا راج کرتا تھا۔ اس ریاست کی طاقت اور دولت کی شہرت دور دور تک پھیلی تھی۔ وہاں ایک سے بڑھ کر ایک بہادر، رحم دل، سخی اور دانا راجاؤں نے راج کیا تھا مگر یہ موجودہ راجا نہایت ہی ظالم ، بے وقوف اور مغرور تھا۔ اس نے اپنی ریاست میں ہوا کو چھوڑ کر سبھی چیزوں پر ٹیکس لگا دیا تھا۔ روزانہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی تھیں۔ کسان جو اپجاتے اس کا تین حصہ لگان کے طور پر سرکاری خزانے میں چلا جاتا۔تاجروں اورسوداگروں کو اپنی کمائی کا آدھا حصہ ٹیکس کے طور پر جمع کرنا پڑتا۔ کسی کی کوئی چیز اگرراجا کو پسندآ جاتی، وہ اسے فوراً محل میں منگوا لیتا۔ افکار کی سزا موت تھی۔ ریاست میں بہو بیٹیاں محفوظ نہیں تھیں۔ چور اچکوں کے وارے نیارے تھے۔ انہیں سرکاری محافظت حاصل تھی۔ وہ جم کر لوٹ پاٹ کرتے اور لوٹ کا کچھ حصہ راجا تک بھی پہنچاتے۔ چھوٹے چھوٹے قصور کے لیے کڑی سے کڑی سزا کا نظم تھا۔ راجا کے درباری اور ملازمین سبھی راجا کی چاپلوسی کرنے والے تھے۔ راجا جب بھی ان سے اپنی رعایا کے متعلق پوچھتا تو وہ بتاتے کہ عوام بہت خوش ہے، آپ کی جئے جئے کار کرتی ہے، آپ کی پوجا کرتی ہے وغیرہ وغیرہ اور پھر وہ راجا کے قصائد پڑھنے لگتے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے۔ کبھی کبھی یہ تعریف تو اس قدر حد سے تجاوز کرجاتی کہ خود راجا کے لیے بھی اس پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا۔ آخر جس رعایا پر اس قدر ظلم ڈھایا جا رہا ہو وہ خوش کیسے رہ سکتی ہے؟ راجا کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس تک صحیح خبر نہیں پہنچائی جا رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ خواب خرگوش میں کھویا رہے اور رعایا کی بے اطمینانی اس قدر بڑھ جائے کہ وہ بغاوت پراتر جائے۔ بس راجا نے سوچا کہ کسی طرح رعایا کے متعلق صحیح صحیح معلومات حاصل کی جائیں مگر کیسے؟ راجا نے بہت سوچا مگر چونکہ اس کے پاس پہلے سے ہی بہت کم دماغ تھا اور جو تھا اس میں سے بھی وہ بیشتر حصہ خرچ کر چکا تھا اس لیے اس کے پلے کچھ نہ پڑا۔ تب اس نے اپنے سب سے بزرگ وزیر کو بلایا جو اس کے باپ دادا کے زمانے سے اس کے دربار میں تھا۔ وزیر نے بتایا کہ کس طرحاس کے باپ دادا رعایا کا حال چال جاننے کے لیے راتوں میں بھیس بدل کر گھومتے تھے۔ اس سے انہیں صحیح بات کا علم ہوتا رہتا تھا۔ راجا کو لگا کہ یہ نہایت دشوار کام ہے کہ رات میں نرم ملائم بستر کاآرام چھوڑ کر گلی گلی بھٹکا جائے مگر چارا بھی کچھ نہ تھا۔ اس نے اپنے بوڑھے وزیر کی بات مان لی۔
ایک روز شام ڈھلے راجا نے ایک سادھو کا بھیس بنایا اور خاموشی سے محل سے اکیلے نکل گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد اس نے دیکھا کہ ایک پیڑ کے نیچے کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ ایسامعلوم ہوتا تھاکہ وہ کسی سنجیدہ موضوع پر غور وخوض کر رہے ہیں۔ سادھو کا بھیس بدلے راجا کو دیکھ کر سبھی خاموش ہوگئے۔ر اجا کو لگا کہ پوچھ تاچھ کی شروعات کرنے کے لیے یہ لوگ ٹھیک رہیں گے۔ راجا ان کے قریب گیا اور بولا— ’’بابا، سادھوہوں، دور دیس سے آیا ہوں۔ کافی تھک گیا ہوں، پینے کا پانی اور کچھ کھانے کے لیے ملے گا؟ لوگوں نے اسے عزت کے ساتھ بٹھایا۔ ایک نے اسے پینے کے لیے پانی دیا اور ایک کچھ کھانے کا انتظام کرنے کے لیے اٹھ کر چلا گیا۔ راجا نے ان لوگوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ پیٹ بھر کھانا نہ ملنے کے سبب ان کی ہڈیاں نکل آئی تھیں۔ گال پچک گئے تھے، آنکھیں دھنس گئیں تھیں، جلد روکھی اور بے جان ہوگئی تھی۔ ان کے ہاتھ پاؤں پر گھٹے پڑے تھے جو ان کی کڑی محنت کی داستان بیان کر رہے تھے۔ راجا نے تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں کیں، پھر انہیں ٹٹولنے کی نیت سے کہا— ’’آپ لوگوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ لوگ بہت تکلیف میں ہیں۔ کیا یہاں کا راجا اپنی رعایا کا خیال نہیں رکھتا؟‘‘
’’نہیں نہیں۔ ہمارے راجا بہت اچھے اور رحم دل ہیں۔ ہم سب ان سے بہت خوش ہیں۔‘‘
دراصل راجا جتنا بے وقوف تھا، اس کی رعایا اتنی ہی ہوشیار تھی۔ ان لوگوں کو شک ہوا کہ کہیں یہ سادھو راجا کا بھیجا ہوا کوئی جاسوس تو نہیں ہے۔ اگر وہ لوگ راجا کے خلاف کچھ بھی بولیں گے تو یہ اس کی خبر راجا تک پہنچا دے گا اور پھر ان پر راجا کا ظلم قہربن کر ٹوٹے گا۔ لہٰذا ان لوگوں نے سادھو کا بھیس دھرے راجا کے لاکھ گھما پھرا کر پوچھنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کہا۔ آخر راجا وہاں سے اٹھ کر آگے بڑھ گیا۔ راجا یہ جان کر حیران تھا کہ اس نے تو اپنی رعایا پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی پھر بھی اس کی رعایا اتنی خوش ہے! پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ تو عوام ہیں، گرے پڑے لوگ ہیں۔ انہیں تو اس طرح رہنے کی عادت ہے۔ عیش و عشرت ، نفاست و سہولت یہ سب تو بڑے گھرانوں کی چیزیں ہیں۔ یہ سوچ کر اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ آج کا کام تو ہو گیا۔ راجا نے سوچا اور واپس محل لوٹنے کو ہوا کہ دیکھتا ہے ایک شخص روتا ہوا اور چھاتی پیٹتا ہوا چلا آرہا ہے۔ ’’یہ شخص بہت غمزدہ اور رنجور معلوم ہوتا ہے۔ چلو اس سے بھی دریافت کرہی لیتا ہوں۔ راجا کو یکبارگی خیال آیا۔ وہ فوراً اس آدمی کے قریب پہنچا اور پوچھا—
’’اے بھلے انسان تمہیں کیا تکلیف ہے جو اس طرح رو رہے ہو؟‘‘
’’راجا کے سپاہیوں نے میرے سارے کھیت ہڑپ لئے۔‘‘ وہ سبکتا ہوا بولا۔
’’تو یہ تمہاری تکلیف کی وجہ ہے؟‘‘ راجا کو لگا کہ اسے اب مناسب آدمی مل گیا ہے جو ساری بات سچ سچ بتا دے گا۔ ’’تو تم اس لیے رو رہے ہو کہ تمہارے کھیت ہڑپ لئے گئے؟‘‘
’’نہیں مہاراج میں تواس لیے رو رہا ہوں کہ سپاہیوں نے میرا گھر چھوڑ دیا۔ کاش وہ اسے بھی ہڑپ لیتے تو میرا گھر بھی شاہی خاندان کے کام آجاتا کہہ کر وہ پھر سے دہاڑ مار کر رونے لگا۔
راجا نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ آدمی تو ان لوگوں سے بھی بڑا شاطر ہے۔ ہو نہ ہو یہ آدمی بالکل جھوٹ بول رہا ہو۔ راجا نے دماغ لگایا جو اس کے پاس پہلے سے ہی بہت تھوڑا بچ رہا تھا۔ اس نے اس آدمی سے سچ اگلوانے کی نیت سے کہا— ’’دیکھو تم مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ میںکوئی معمولی سادھو نہیں ہوں۔ ترکال درشی ہوں۔ بھوت (ماضی)، ورتمان (حال)، بھوشیہ (مستقبل) تینوں دیکھ سکتا ہوں۔ اگر تم مجھ سے جھوٹ بولو گے تو میں تمہیں اپنے ماتھے پر لگے بھبھوت سے ایک پل میں بھسم کر دوں گا۔‘‘
بھسم ہونے کا نام سن کر وہ آدمی تھرتھر کانپنے لگا۔ ڈرتے ڈرتے بولا—
’’سادھو مہاراج مجھے راجا کا بہت خوف ہے۔ راجا کے آدمی ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ میںکچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر آپ کو سچ جاننا ہے تو یہاں سے پانچ کوس دور جنگل میںایک بوڑھا لکڑہارا رہتا ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ آپ اس کے پاس چلے جائیں۔ وہاں آپ کو آپ کے سارے سوالوں کا صحیح صحیح جواب مل جائے گا اور مجھے بخش دیں‘‘ کہہ کر وہ جان لے کر بھاگا۔ راجانے سوچا چلو آج سچائی جان ہی لیتا ہوں۔ راجا جنگل پہنچا جہاں لکڑہارا اپنیجھونپڑی کے باہر کھاٹ بچھا کر لیٹا ہوا تھا اور جنگلی جانوروں کو بھگانے کے لیے اس نے آگ جلا رکھی تھی۔ سادھو کا بھیس دھرے راجا کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور سادھو کو کھاٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود زمین پر بیٹھ گیا۔
راجا نے بغیر ایک پل گنوائے کہا—
’’اے لکڑہارے میں تمہارے پاس ہی آیا ہوں۔ سنا ہے تم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ میرے سوال کا سچ سچ جواب دوگے؟‘‘
لکڑہارے نے ہاں میںسر ہلایا۔
’’بتاؤ اس ریاست کا راجا کیساہے؟‘‘
’’یہاں کا راجا نہایت ہی ظالم، بے وقوف اور مغرورہے۔‘‘
یہ سن کر راجا پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اندر ہی اندر اس کا خون کھول اٹھا۔ بڑی مشکل سے اپنا غصہ چھپاتے ہوئے اس نے ٹوٹتی زبان میں پوچھا—
’’اچھا یہ بتاؤ وہ دکھتا کیسا ہے؟‘‘
لکڑہارے نے کہا— ’’ایک دفعہ میں نے اسے دیکھا ہے جب وہ شکار کھیلنے کے لیے ادھر سے گزرا تھا۔ اس سے اچھا تو اس کا بھانڈ ہے۔‘‘ اب تو راجا کا پارا ساتویں آسمان پر پہنچ گیا لیکن اس نے اس وقت وہاں سے چلا جانا ہی بہتر سمجھا۔
راجا محل میں لوٹا تو بہت بے چین تھا۔ بستر پر لیٹا تو کروٹیں بدلتا رہا۔ اس کی آنکھوں کی نیند اڑ گئی۔ سچ اتنا خراب ہوتا ہے !… اتنا بدصورت!
صبح دربار میں آتے ہی راجا نے فرمان جاری کیا—
’’اعلان کروا دو۔ آج سے میری ریاست میں سچ بولنا منع ہے۔ جو بھی سچ بولتا پایا جائے گا اسے محل کے سامنے والے چوراہے پر سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔‘‘ راجا جیسا بے وقوف تھا اسی طرح کے اس نے درباری بھی رکھے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ عقل مندوں سے اس طرح نفرت کرتا تھا جس طرح اندھا آنکھ والے کی آنکھ کو اس کا عیب سمجھتا ہے۔ جو جتنا بڑا بے وقوف اور پاجی تھا اس کی دربار میں اتنی ہی زیادہ عزت تھی۔ لہٰذا کسی نے بھی راجا کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔ چند لوگ جنہیں یہ لگا کہ ایسا ہونا ممکن نہیںہے وہ بھی خاموش بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد راجا نے اپنے رابطۂ عامہ کے افسر سے پوچھا—
’’کیا میرا فرمان جاری کر دیا گیا ہے؟‘‘
افسر نے ایک لمحہ بھی موقف کیے بغیرکہا— ’’جی نہیں حضور، بالکل نہیں‘‘کہہ کر وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ راجا خوش ہوگیا۔
راجا کے اس فرمان کے بعد تو درباریوں میں جھوٹ بولنے کی ہوڑ سی لگ گئی۔ سبھی نے ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔ لوگ راجا کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرنے لگے۔ جو لوگ دربار میں جگہ پانا چاہتے تھے انہوں نے راجا کی تعریف میںکتابیں لکھنی شروع کرد یں۔ بڑے بڑے پتھر نصب کئے جانے لگے جن پر راجا کی شان میں قصائد کھدے ہوئے تھے۔ مصوروں اور سنگ تراشوں نے سارا کام چھوڑ کرراجا کی بڑی بڑی تصویریں اور مجسمے بنانے شروع کر دئے جنہیں لوگ تمام چوک چوراہوں پر لگوانے لگے۔ راجا جب شہر گھومنے نکلتا تو ان تصویروں اور مجسموں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔ اسے لگتا کہ اس نے اس بار واقعی عقل مندی کا کام کیا ہے۔ اس سے اس کی مقبولیت عوام میں کئی گنا بڑھ گئی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ راجا کے اس فیصلے سے عوام پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ سچ بولنے والے ادھر ادھر چھپنے لگے۔ بعض ریاست کو چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں چلے گئے۔ کچھ وہیں گوشہ نشیں ہو گئے۔
اس طرح دن گزر رہے تھے۔ ایک دن راجا کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس لکڑہارے کی خبر لی جائے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ بس پھر کیا تھا اس نے فوراً لکڑہارے کو بلا بھیجا۔ لکڑہارے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس جیسے غریب اور معمولی انسان کو راجا کیوں بلا رہا ہے؟ وہ ڈرتے ڈرتے دربار پہنچا۔ راجا نے اسے دیکھ کر پوچھا—
’’تمہیں یاد ہے کچھ دنوں پہلے تمہاری جھونپڑی پر ایک سادھو گیا تھا جس نے تم سے راجا کے متعلق سوال کیا تھا اور اس کا سچ سچ جواب مانگا تھا اور تم نے راجا کو بہت برا بھلا کہا تھا۔‘‘
’’جی یاد ہے۔‘‘لکڑہارا ہکلاتے ہوئے بولا۔’’وہ سادھو میں ہی تھا۔‘‘ راجا کی بھوئیں تن گئیں۔
اب لکڑہارا کاچہرہ سوکھے پتے کی مانند زرد ہو گیا۔ اسے خوفزدہ دیکھ راجا اندر سے خوش ہوا۔ اس نے پوچھا— ’’بتاؤ میں کیسا ہوں؟‘‘
لکڑہارے نے کہا— ’’سچ بولنا میری زندگی کا اصول ہے۔ جان چلی جائے مگر میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ آپ نہایت ہی بے وقوف، ظالم اور مغرور ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی راجا غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا—
’’اسے فوراً رہا کردو اور کل سویرے چوک پر سولی پر مت لٹکاؤ۔‘‘
ریاست کے قانون کے مطابق فوراً لکڑہارے کی مشقیں کس دی گئیں اور سویرے اسے پھانسی دینے کی تیاریاں ہونے لگیں۔
صبح لکڑہارے کی پھانسی دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ چوراہے پر جمع ہوگئے۔
لکڑہارے کو پھانسی پر چڑھانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ تبھی لکڑہارا زور سے چلایا۔
’’ارے شہر والو۔ یہ تمہارا راجا تمہیں جھوٹ بولنے کی تلقین کرتا ہے مگر یہ نہایت ہی سچا انسان ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی بھیڑ پرسکتہ طاری ہوگیا۔ جو جہاں تھا وہیں ٹھہر گیا۔ خاموشی اتنی کہ سوئی کے گرنے کی بھی آواز صاف سنی جا سکتی تھی۔ لکڑہارے نے کہنا شروع کیا— ’’یاد ہے تم لوگوں کو، راجا نے کیا اعلان کیا تھا؟ جو شخص سچ بولے گا اسے سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ میں نے سچ بولا اور مجھے راجا سولی پر چڑھوا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ راجا بالکل سچا اور اپنی بات کا پکا انسان ہے۔‘‘
لکڑہارے کی بات سن کر پوری بھیڑ راجا کی طرف دیکھنے لگی۔ راجا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے لکڑہارے سے معافی مانگی اور فوراً اپنا فرمان واپس لے لیا۔ اتنا ہی نہیں، اس نے لکڑہارے کو اپنا خاص وزیر بنا لیا اور اس کے مشورے کے مطابق راج کاج چلانے لگا۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی شہرت اپنے پرکھوں کی طرح ہی انصاف پسند، غریب پرور اور عقلمند راجا کے طور پر دوردور تک پھیل گئی۔ رعایا کو اب کسی بات کی کمی نہیں رہی۔ ان کے اچھے دن لوٹ آئے۔ سبھی راجا کی جئے جئے کار کرنے لگے۔
’’کہو کہانی کیسی رہی؟‘‘ میں نے مشابہ سے پوچھا—
’’آپ بھی نہ ابو۔ کچھ بھی سنا دیتے ہیں۔ اب میں اتنی بے وقوف تھوڑے ہوں۔ کہیں عادتیں بھی اتنی جلدی بدلتی ہیں؟ آپ کی کہانی ٹھیک تھی مگر اس کا خاتمہ بالکل غلط تھا۔‘‘
’’تو کیسے ہونا چاہئے تھا، تم ہی بتاؤ۔‘‘ میںنے تجسس سے پوچھا—
’’تو سنئے۔‘‘ مشابہ نے سنانا شروع کیا۔
پھانسی کی ساری تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔ مقررہ وقت پر لکڑہارے کو جب پھانسی کے تختے کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو یکایک لکڑہارے نے رک کر کہا—
’’اے شہر والو۔ دیکھو تمہارا راجا کتنا سچا ہے؟ اس نے کہا تھا کہ سچ بولنے والے کو سولی پر چڑھایا جائے گا اور مجھے سچ بولنے والے کو سولی پر چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ راجا بالکل سچا اور اپنی بات کا پکا ہے۔
یہ سن کر راجا زور سے ہنسنے لگا۔ اسے ہنستا دیکھ لکڑہارا بھی ہنسنے لگا۔ اب سارے سپاہی، درباری، عوام سبھی ہنسنے لگے۔ عوام خوشی سے جھومنے لگی۔ لوگوں کو لگا کہ راجا نے لکڑہارے کو معاف کر دیا۔
’’کون کہتا ہے کہ تمہیں سولی پر چڑھایا جائے گا؟‘‘کہتا ہوا راجا نے اپنی تلوار نکالی اور ایک ہی جھٹکے میں لکڑہارے کا سر دھڑ سے الگ کر دیا۔ اس طرح سچ کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی گئی۔
’’یہ ہوئی نہ بات‘‘ کہہ کر مشابہ ہنسنے لگی۔
میں خاموش ہو گیا۔ مشابہ مجھ سے اور اس کی کہانی میری کہانی سے بہت آگے نکل چکی۔
——————————–
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“