The man who saw Tomorrow
اکثر دوستوں کو اس فلم کے بارے میں معلوم ہوگا اور شاید اس کا نام بھی جانتے ہونگے جس کے متعلق یہ فلم ہے.اگر نہیں جانتے ہو چلو میں بتاتا ہوں.یہ فرانس کے ایک نجومی،شاعر ،ماہر طب اور روحانی بزرگ تھے جسکا نام Michel de Nostredema
جو اب دنیا میںNostradamus کے نام سے مشہور ہےیہ 14 دسمبر 1503 میں سیلون ڈی صوبہ فرانس میں پیدا ہوا اور سنہ 1566 کو فوت ہوا۔یہ شاعری بھی کرتا تھا اور قریباً 1942 رباعیاں لکھی ہیں جنمیں دنیا کے بارے میں پیشنگوٸیاں لکھی ہیں۔یہ کتاب پہلی بار 1955 میں شاٸع ہوٸی اور دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔اسی شاعری کی بنیاد پر ایک فلم بنی جس کا نام
The man who saw tomorrow
رکھا گیا۔دنیا میں کیا ہوگا اور کیا واقعات پیش آٸینگے وہی باتیں اسکی شاعری اور اس فلم میں دیکھنے کو ملتی ہیں اسکے علاوہ ایک اور فلم اس پر بنی ہے جس کا نام
The prophecies of Nostradamus
رکھا گیا ہے۔پوری عیساٸی قوم کو ان پر ناز ہے اور مسلمان قوم کسی سے کم نہیں وہ بھی اس نام کو مالا کی طرح جپتے ہیں۔خیر اس میں ہمارے نوجوانوں کا کیا قصور کیونکہ جب ہمارے بزرگ تعلیم یافتہ لوگوں کو خود فرصت نہیں ہے اپنے بزرگوں اور اسلاف کے کارناموں کو جاننے کی تو نوجوانوں کو کیوں قصور وار ٹھراٸیں۔آپ میں سے کتنے لوگ ابنِ سینا، خیام،ابوریحان البیرونی،امام غزالی،حافظ شیرازی،شاہ نعمت الللہ ولی ،ابنِ خلدون ،ماہِ نخشب یا زیچِ خیام وغیرہ وغیرہ کے ناموں سے واقف ہیں؟ علامہ اقبال نے یونہی نہیں کہا تھا۔
دگر از یوسفِ گُم گشتہ سخن نتوان گفت
تپشِ خونِ زلیخا نہ تو داری و نہ من
نوسٹراڈمنس کی پیشنگویاں اگر سچ ہوٸی ہیں تو اچھی بات ہے لیکن ہمارے مردِ قلندر
حضرتِ شاہ نعمت الللہ ولیؒ کی پیشنگویاں کیا سچ ثابت نہیں ہوٸی ہیں۔آٸیۓ پہلے آپکو ان کا تعارف کراتا ہوں۔شاہ نعمت الللہ ولی ملکِ شام کے حلب شہر میں 1330 عیسوی میں پیدا ہوۓ اور 1431 میں رحلت فرماگۓ
یعنی تقریباً 589 سال پہلے اس جہان سے گزرگۓ ہیں۔انکے والد کا نام میر عبدالللہ اور بیٹے کا نام شاہ خلیل الللہ تھا۔انکے صوفی سلسلے کو نعمت اللٰہی بولتے ہیں۔انہوں نے ایران، افغانستان،مصر، سمرقند،بخارا،ملتان اور کشمیر کا سفر کیا ہے۔آخر پر ایران میں کرمان کے شہر ماہان میں سکونت اختیار کی اور وہیں مدفون بھی ہیں جہاں انکی درگاہ پر ہر روز ہزاروں عقیدتمند حاضری دیتے ہیں۔انہوں نے عربی اور فارسی میں درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں جنمیں انکے قصیدے کو شہرتِ عام حاصل ہوٸی۔ان کے اشعار کی تعداد 2000 بتاٸی جاتی ہے مگر آجکل صرف تقریباً 350 اشعار ہی دستیاب ہیں جنمیں دنیا کے آنیوالے واقعات اور حادثات کے بارے میں پیشنگوٸی کی گٸی ہے اور اکثر سچ ثابت ہوٸی ہیں۔انہوں نے باددشاہوں کے نام تک لکھے ہیں اور دوسرے برگزیدہ افراد کے نام بھی جنمیں کرم چند گاندھی کا نام بھی شامل ہے۔مغل بادشاہوں میں صرف اورنگ زیب کا ذکر نہیں کیا ہے۔لودھی خاندان کے بادشاہوں کا بھی ذکر ہے۔انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ ، سکھ مذہب کے بانی گورو نانک جی کا ذکر بھی کیا ہے کشمیر کے حالات پر بھی مفصل تبصرہ ہے۔پہلی جنگ عظیم دوسری جنگِ عظیم کے ساتھ ساتھ تیسری عالمگیر جنگ کا بھی ذکر ہے اور اسلحٸہ آتشین یعنی Atomic weapons
استعمال ہونے کا بھی ذکر ہے۔ترکی، چین اور پاکستان کی آپسی دوستی اور پھر اس سے پیدا ہونے والے حالات کا بھی مفصل تذکرہ ہے
امام مہدی کہاں ظہور پذیر ہونگے اور دجال کہاں نکلے گا یہ سب باتیں انکے قصیدے میں درج ہیں۔بدقسمتی سے ایران میں پڑھاٸی کے دوران میں نے انکے اصلی فارسی دیوان کی کھوج نہیں کی شاید اسلٸے کہ میں ان دنوں جوان تھا اور مستی کی دنیا میں جی رہا تھا۔
نوسٹراڈمنس شاہ نعمت الللہ ولی کے 135 سال بعد فوت ہوا۔مجھے لگتا ہے کہ نوسٹراڈمنس نے نعمت الللہ ولی کے قصیدوں کا منظوم ترجمہ کیا ہے ۔جتنی پیشنگویاں نعمت الللہ ولیؒ نے کی ہیں اور سچ ثابت ہوٸی ہیں اتنی Nostradamns نے نہیں کی ہیں۔ شاید آج کے حالات کے بارے میں شاہ نعمت الللہ
یوں فرماتے ہیں۔
قہرِ عظیم آید بہرِ سزا کہ باشد
اجر از خدا بسازد یک حکمِ قاتلانہ
یعنی ایک بڑا قہر نازل ہوگا جوکہ اس قسم کی براٸیوں کی سزاکے لۓ موزون ہوگا اور خداتعالیٰ ایک قاتلانہ حکم فرماٸینگے
الللہ ہمیں اپنے اسلاف اور بزرگوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق دے اور علمِ نافع عطا کرکے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین۔علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے۔
علمِ بے عشق است از طاغوتیان
علمِ با عشق است از لاھوتیان ۔