لندن میاں صاحب اپارٹمنٹ کے لیونگ ایریا میں بہت اطمینان سے بیٹھے چائے پی رہے تھے لیکن چھوٹے میاں کی بے چینی دیکھ کر حیران ہو رہے تھے جو ادھر ادھر ٹہلتے بار بار گھڑی پہ ٹائم دیکھ رہے تھے آخرکار میاں صاحب نے پوچھ ہی لیا " خیر اے نکے کیہڑے سوہرے جانا جے جیدی اینی بے چینی اے ' ؟؟ نکے میاں نے بریک لگائی اور پاس پڑی ایک کرسی پہ بیٹھ گئے اتنے میں حسین نواز بھاگتا ہوا اندر آیا میاں صاحب بولے " دھیان سے بیٹا ۔۔کیوں زمین پدری کردیا پیا ایں" ابو جی چاچو مہمان آگئے
نکے میاں بھی تقریباً بھاگتے ہوئے حسین نواز کے ساتھ اپارٹمنٹ سے باہر چلے گئے تھوڑی دیر بعد وہ دونوں کچھ شخصیات کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے نکے میاں مسلسل مسکرا رہے تھے۔ بولے میاں صاحب یہ ہمارے چیف صاحب آ گئے۔ میاں صاحب بولے " پہلا سیلیوٹ مجھے ہی مارا تھا یاد ہے مجھے " چیف صاحب " میاں صاحب آپکی اسی یاد داشت سے ڈرتا ہوں۔ خیر آپکا اپارٹمنٹ پیارا ہے یہ وہی ہے نا اہون فیلڈ والا ؟ " نہیں یہ چوبرجی والا ہے " میاں صاحب طنز سے بولے جس پہ چیف کھسیانی ہنسی ہنسے " بھائی صاحب بہت مذاقیہ ہیں"
شہباز شریف ہنسے جا رہے تھے " اچھا یاد آیا چیف صاحب اس باندر کو اکیلا پاکستان چھوڑ آئے ہیں۔ اونوں وی نال لے آیا کرو عوام وی دو دن سکون دے کڈ لین " میاں صاحب ہنستے ہوئے بولے " نہیں وہ پاکستان میں ہی ٹھیک ہے ۔گجرات کے چوہدریوں کے ترلے پآ رہا ہے۔ آرے لا کے آیا اونوں" چیف بولے "
پرانی عادتیں کہاں جاتی ہیں " میاں صاحب خود کلامی کرتے ہوئے " میاں صاحب آپکی طبیعت کیسی ہے " چیف نے بڑے پیار سے پوچھا "میاں صاحب کی طبیعت بہت خراب ہے اسی لیے مریم کو انکے پاس ہونا چاہییے۔ میاں صاحب مریم کے بغیر آپریشن نہیں کروائیں گے " نکے میاں نے تیز تیز لہجے میں مدعا بیان کیا۔
اچھا یہ میں نے کہا تھا ؟ یاد داشت کافی خراب ہوگئی میری " میاں صاحب بولے "چیف صاحب وہ والی باتیں کریں نا۔ شیروانی والی " نکے میاں پہلو بدلتے بولے "میاں صاحب جو بھی ہوا اس پر ہمیں افسوس ہے۔ غلطیاں دونوں طرف سے ہوئیں۔ تسی وی باہوبلی بنے ہوئے سی " چیف رویانسے ہو گئے۔
" نہیں چیف صاحب اب آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں ورنہ عمران کی محبت میں ہمارے ساتھ جو آپ نے کیا ہے وہ کّل عالم جانتا ہے " میاں صاحب جلال میں آ گئے " خیر اے پائی جی مٹی پاؤ ہن" نکے میاں جلدی سے بولے "مٹی تو انہوں نے عوام کی آنکھوں میں ڈالی تھی جو اب نکل رہی ہے " میاں صاحب نارضگی سے بولے۔
" ہمیں اسحاق ڈار چاہییے " چیف صاحب بولے " اکیلا اسحاق ڈار "؟ نہیں میرا مطلب پوری ٹیم ہوتی ہے" شہباز شریف بے صبرے ہو رہے تھے " ساڈے ولوں انکار اے ۔ کرائے پہ بندے ہم نہیں دیتے " میاں صاحب اڑ گئے "اسحاق ڈار چاہییے تو نئے الیکشن کروائیں " نکے میاں سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
" آپکا راج دلارا لوگوں کو فیکٹریوں سے چھابڑیوں تک لے آیا ہے ۔۔ ہم اس تباہی کی زمہ داری کیوں لیں" میاں صاحب دو ٹوک بولے "منت آلی گل اے میاں صاحب۔ اب تو مجھے واٹس ایپ پہ جگتیں پڑنے لگی ہیں" چیف " واٹس ایپ سے کیا یاد کروا دیا " میاں صاحب اداس ہو گئے
" آپکی جناح کیپ والی فوٹو بہت کیوٹ تھی شہباز صاحب۔ پتا نہیں آپکے ورکرز کیوں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے" چیف صاحب نکے میاں کی طرف متوجہ ہوئے" انہیں دکھ اتنے ملے ہیں کہ وہ اب ہر بات پہ ہنس لیتے ہیں۔ میں انہیں سیریس نہیں لیتا " نکے میاں شان بے نیازی سے بولے "او وی نہیں لیندے سیریس"
"ٹویٹر پہ کچھ شرارتی بچے پتا نہیں چائنہ کا حبیب جالب کسے کہتے ہیں "میاں صاحب نے ہنستے ہوئے کہا " یہ وہی بچے ہیں جو اداروں کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب کرواتے ہیں" نکے میاں ناراضگی سے بولے "اب مجھے پتا چلا کہ تمہارے اور خواجے کے مجھے اتنے" اولامے" کیوں آتے ہیں " میاں صاحب نے جھاڑا۔
"میاں صاحب آپ کو نثار کے بھی ایسے ہی اولامے ملتے تھے۔ لیکن دیکھیں نہ وہ ابھی تک آپکا جوگی بن کر بیٹھا ہے " نکے میاں مسکا لگاتے ہوئے "لیکن میں نے تو سنا ہے وہ "جیپ " میں بیٹھ گیا تھا۔ اب میری طبیعت اتنی بھی خراب نہیں کہ وہ چکر بھول جاؤں بازآ جا " میاں صاحب نے نکے کو وارننگ دی
"حسین جا کر مائیکل کی دکان سے کوئی بوتل شوتل لاؤ چیف صاحب کے لیے"میاں صاحب نے حسین کو کہا "میاں صاحب روٹی پانی کا انتظام کرتے ہیں نا" نکے میاں فوراً بولے "اچھا" کرپٹوں"کے گھر کی یہ روٹی پانی کھا لیں گے " میاں صاحب طنز سے بولے چیف صاحب اور نکے میاں ایکدوسرے کا منہ تکنے لگے۔
"میاں صاحب روٹی پانی سب کھائیں گے ،اب صلح کر لیں " چیف زرا سنبھلتے ہوئے گویا ہوئے "اور نثار صاحب سے بھی صللح کر لیں وہ بھی بس پہنچنے والے ہیں " نکے میاں نے بیچ میں لقمہ دیا" نا کاکا تینوں کادیاں جلدیاں ہندیاں ، کونسے تم دونوں "وِگ بدل " بھائی ہو" میاں صاحب تپ گئے۔
"چلو چھڈو نثار نوں میاں صاحب غصہ نا کرو "نکے میاں ڈر کر بولے "میاں صاحب جو بات میں کرنے آیا ہوں۔ اس طرف آپ آنے ہی نہیں دیتے۔ ہم اپنا کفارہ چکانا چاہتے ہیں۔ جیہڑے بندے تے تسی ہتھ رکھو۔ اونوں ڈن کر دیاں گے" چیف دریا دلی دکھاتے ہوئے بولے "کیوں چیف صاحب عمران نے خودکشی کرلی"
"کاش کر لیتا" چیف بڑبڑائے "دیکھیں میاں صاحب ملک ہم سب کا ہے۔ ہم سب نے اسے سنوارنا ہے۔ چلیں آگے بڑھتے ہیں۔ کچھ "مصالحت" کی راہ نکالتے ہیں۔" چیف نے سارا مدعا بیان کر دیا "اچھا مینوں ایک گل دسو۔ یہ چور ڈاکووں سے مصالحت کیسے ہوسکتی ہے" میاں صاحب سپاٹ لہجے میں بولے۔
"خان کو لگتا تھا وزیراعظم کی کرسی کوئی تخت طاؤس ہے اور آپکو لگتا تھا کہ جسے طاقت لگا کر ادھر بٹھا دیں گے وہ معجزہ کردے گا۔ یہ کانٹوں کا تاج اور پتھریلی رہ گزر ہے۔ جسم سے پہلے روح چھلنی ہوتی ہے" میاں صاحب جذباتی انداز میں بولے "اپنی بیگناہ بیٹی کو تیسرے درجے کی جیل میں دیکھا ہے"
"میاں صاحب آپکو اور آپکی پارٹی کو سیاست تو اسی پاکستان میں کرنی ہے۔ ہمارے سنگ " چیف صاف گوئی سے بولے " ٹھیک ہے پھر آپ اپنے لاڈلے کے پانچ سال پورے ہونے دیں۔ ہماری سیاست کہیں نہیں جا رہی" میاں صاحب بھی ضد میں آگئے " پائی جی میں " نکے میاں اضطراب میں بولے۔ "تیرے نال میں بعد وچ نبڑاں گا۔ فی الحال چیف صاحب نوں دروازے تک چھڈ آواں " میاں صاحب اٹھتے ہوئے بولے "میاں صاحب یعنی جواب ہی سمجھوں پھر " چیف صاحب "کبھی بندہ جیت جاتا ہے۔ کبھی اسے سبق مل جاتا ہے ۔انجام دونوں ہی ٹھیک ہیں دیکھا جائے تو" میاں صاحب مسکرا کر بولے
"لندن میں آج بڑا طوفان ہے۔ پتا نہیں اسلام آباد میں کیا صورتحال ہوگی" چیف چھتری کھولتے ہوئے بولے "جبر اور حبس کے موسم کا انجام " طوفان " ہی ہوتے ہیں" یہ کہہ کر میاں صاحب واپس مڑ گئے۔ چیف چند لمحے انہیں جاتا دیکھتے رہے پھر تھکے قدموں سے گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئے۔