کچھ باتوں کی سمجھ اب تک نہیں آئی۔ انڈے اور مرغی کی طرح یہ بات بھی اب تک سمجھ نہیں آئی کہ زندگی سے متاثر ہوکر فن ترویج پاتا ہے یا فن زندگی کی صورت گری کرتا ہے۔ چٹیل میدانوں میں دیکھتے ہی دیکھتے عمارتوں، سڑکوں ، پلوں، باغوں کا جال بچھ جاتا ہے۔ بجلی، پانی، گیس اور دیگر ضروریات زندگی مہیا ہوجاتی ہیں۔ جہاں زندگی کا نام و نشان نہ تھا وہاں ہزاروں لاکھوں لوگ سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ فن کا ہی کمال ہے۔ تعمیر کے، شہریات کے، منصوبہ بندی کے اور دیگر بے شمار فنون کے نتیجے میں ایک جیتا جاگتا شہر وجود میں آتا ہے۔
یہ ایک مثال ہے ورنہ روز اوّل سے کوئی نہ کوئی فن، کوئی نہ کوئی ہنر زندگی کے حسن میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور تہذیب و تمدن ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہیں اور پتھروں سے جانور کا شکار کرکے کھانے والا اور غاروں کی گپھاؤں میں سر چھپانے والا انسان آج روزی کمانے کے جدید ترین طریقوں سے عظیم الشان اور آرام دہ ترین مکانات میں زندگی بسر کررہا ہے۔
یہی حال کچھ زبان و بیان کا بھی ہے۔شاعری، افسانہ، ڈرامہ ، فلم اور موسیقی سے کئی جملے، محاورے اور اشعار روزمرہ کی بول چال میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اپنے سامنے کئی جملے کسی ڈرامے یا فلم سے مشہور ہوئے یا کسی گیت کے بول زبان پر ایسے چڑھے کے پھر زبان کا ہی حصہ بن گئے۔
بہت ہی چھوٹا سا تھا جب کسی کو کہتے سنا” رومن قوم کے ذلیل کتے” اور مخاطب بجائے ناراض ہونے کے دانت نکالنے لگا۔ بڑی عجیب سی بات تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ کوئی فلمی مکالمہ ہے۔ اب جو یہ سلسلہ شروع ہوا تو روزانہ بات چیت کے بہت سے جملوں کا سرا کسی فلمی مکالمے، گانے یا ڈرامے سے ملتا نظر آیا۔
انہی دنوں ایک بہت ہی ،ایمان افروز، مکالمہ سننے ملا” چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض”۔ اس مکالمے کی تاثیر کچھ ایسی تھی کہ بہت سے پیشہ ور چور اور اچکے نماز روزے کی پابندی کرنے لگے تو دوسری طرف بہت سے پابند صوم وصلوات حضرات نے چوری چکاری کا پیشہ اختیار کرلیا اور آج یہ دونوں حضرات کچھ اس طرح گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ کون کس سے متاثر ہے ۔ من تو شدم، تو من شدی ، لیکن بہرحال تقریباً پورا ہی معاشرہ اس کی عملی تفسیر بنا ہوا ہے۔
علاؤالدین مرحوم اپنے زمانے کے بہت ہی مقبول اور مشہور اداکار تھے۔ انہیں عوامی اداکار کا خطاب ملا ہوا تھا۔ اس زمانے میں اسی قسم کی اداکاری کا رواج تھا۔ تھیٹریکل ، غیر فطری اور مصنوعی انداز میں مکالمے بولنا۔ ایسی اداکاری کو آج “ اوور ایکٹنگ” کہا جاتا ہے۔ لیکن ان دنوں ایسی اداکاری پر انعامات ( ایوارڈ) ملا کرتے تھے۔ علاؤالدین ایسی ہی اداکاری کرتے تھے اور ان کے کئی کردار اسی حوالے سے مشہور ہوئے۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی فلم “ بدنام “ میں ان کے مکالمے آج بھی کئی لوگوں کے دل ودماغ میں گونجتے ہیں۔
“ کہاں سے آئے یہ جھمکے، کس نے دئے یہ جھمکے، کیا کہہ رہے ہیں یہ جھمکے” ۔۔ یہ مکالمے اتنے مشہور ہوئے کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان کے تفتیشی اداروں نے انہیں اپنا لیا۔ اب کسی سیاستدان، سرمایہ دار، جاگیردار جج، جرنیل کے پاس مشتبہ دولت یا حقیقی ذرائع سے زیادہ آمدنی نظر آتی ہے تو ، نیب، ایف آئی اے ، اِنکم ٹیکس اور کسٹم قسم کے ادارے پوچھ اٹھتے ہیں “ کہاں سے آئے یہ جھمکے، کس نے دئے ہیں یہ جھمکے” اور پھر متعلقہ شخص کی ساری زندگی ان جھمکوں کی “ منی ٹریل” دینے میں گذر جاتی ہے۔بہت سے اپنی براءت میں کہتے نظر آتے ہیں کہ” تیس برس تک ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہے، کوئی حقہ نہیں پیا” یعنی یہ آمدنی اسی دور کی ہے۔ ایک مشہور سیاسی خاندان بھی رنگیلا مرحوم کا ایک اور مکالمہ دہراتا ہے “ خاندانی حکیم ہوں ، کوئی تیل نہیں بیچتا”۔ تفتیشی ادارے لیکن کم ہی مطمئن ہوتے ہیں یہاں تک کہ ملزم حکومت میں آجاتا ہے بلکہ حاکم بن جاتا ہے اور “ کہاں سے آئے جھمکے “ والا سوال قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔
کچھ ایسے بھی حکمران ہوتے ہیں کہ ان کا وقت پوراہونے لگتا ہے تو عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنتے ہیں اور “ ۔۔۔۔کتا ہائے ہائے” کے نعروں کی گونج میں رخصت ہوتے ہیں لیکن ایک دو سال ہی گذرتے ہیں اور آنے والے حاکموں سے نالاں عوام کے ٹرکوں اور رکشاؤں پر سابق حکمرانوں کی تصویریں اس مصرعہ کے ساتھ نظر آتی ہیں۔
“ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد” ۔
ایک وقت تھا کہ پنجابی فلموں کا دور دورہ تھا۔ پنجابی فلموں میں مکالمے کم اور بڑھکیں اور دھمکیاں زیادہ ہوتی تھیں۔ ان دنوں مظہر شاہ، ساون اور اسد بخاری کی بڑھکیں زبان زد عام تھیں۔
“ اوئے میں ٹبر کھانداں، ڈکار نہ لینداں” ( اوئے میں پورا خاندان کھا جاتا ہوں اور ڈکار بھی نہیں لیتا)۔ میری پنجابی کو معاف کیجئے گا۔ اللہ کمی بیشی معاف فرمائے، مفہوم کچھ اسی قسم کا ہوتا ہے۔
“ اوئے ساڈے نال متھا لائیں” ( اگر ہمارے ساتھ سر مارو گے تو۔۔) اس کے آگے حسب حال دھمکی ہوتی تھی۔
ہمارے کچھ نوخیز سیاستدان بھی اس انداز تکلم سے متاثر ہوکر سرعام اپنے مخالفین کو لتاڑا کرتے تھے “ اوئے میاں ساب”۔
پنجابی فلموں کے کچھ مکالمے اپنی جگہ ایک عجوبہ ہیں۔ اکثر کسی بدمعاش کا ٹکراؤ جب ہیرو سے ہوتا ہے تو ہیرو متنبہ کرتا ہے “ اینا ای قدماں تے کھلوتا رئیں او بیغیرتا” ( انہی قدموں پر کھڑا رہ اے بے غیرت)۔ یا پھر “ پیرا ں تو مٹی نہ چھڈیں” ( پیروں سے مٹی نہ ہٹنے دینا)۔
ایک پنجابی مکالمہ سن کر آج بھی دل دہل جاتا ہے۔ یہ مکالمہ شاید اور بھئی کئی فلموں میں ہو۔ میں نے تو دو ایک پنجابی فلمیں ہی دیکھ رکھی ہیں۔ ( ویسے ایک دو فلمیں ہی طبیعت صاف کرنے کو بہت ہیں )۔ صورتحال کچھ یوں تھی کہ گاؤں کے مشہور ، ڈیٹنگ پوائنٹ، ( دو دلوں کے ملنے کی جگہ ) یعنی پنگھٹ پر ہیرو اور ہیروئن میں کسی بات پر کھٹ پٹ ہوجاتی ہے اور ہیروئن کمر پر گھڑا رکھے گاؤں واپسی کے لئے مڑتی ہے۔ ہیرو اضطراری طور پر ہیروئن کا بازو پکڑ کر التجا کرتا ہے “ رک جا پینو”۔ دوسرے ہی لمحے ہیروئن تڑپ کر کہتی ہے “ جیہڑی بانہہ پھڑ لی اے تے فیر چھڈی ناں” ( جب ہاتھ پکڑ ہی لیا ہے تو چھوڑنا نہیں )۔ یقین جانئیے اس مکالمے کی ہیبت کچھ ایسی طاری ہوئی کہ آج تک کسی دوشیزہ کا ہاتھ تھامنے کی ہمت نہ ہوئی۔
کچھ مکالمے بظاہر سادہ سے ہوتے تھے لیکن فلم میں بڑے عجیب سے لگتے۔ مثلاً ایک مشہور مکالمہ جو اکثر فلموں میں نظر آتا وہ “ ماں میں پاس ہوگیا” تھا۔ عجیب یوں لگتا تھا کہ پینتیس چالیس سالہ ہیرو کو دیکھ کر، جس کی پیشانی سے بال غائب ہوچکے ہیں اور پیٹ باہر نکلا ہوا ہے، یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ اس نے کونسی جماعت کا امتحان پاس کیا ہوگا ۔(میں نے میٹرک پندرہ سولہ سال کی عمر میں کیا تھا)۔
ایک مقبول مکالمہ جو برصغیر کی ہر چوتھی پانچویں فلم کی کامیابی کی ضمانت بنا رہا وہ تھا جب ہیروئن کی جبری شادی سے پریشان تماشائیوں کے کانوں میں یہ آواز گھنٹیاں سی بجا دیتی ہے “ رک جائیے قاضی صاحب۔ یہ شادی نہیں ہوسکتی”۔
ساتھ ہی ہیرو اپنے ساتھ پولیس کو لئے ہوئے شادی کے منڈپ میں داخل ہوتا ہے۔ وہیں کھڑے کھڑے ولن کی فرد جرم سنادی جاتی ہے اور پولیس ولن کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔ ہیروئن کا باپ ہیرو کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اپنی بیٹی کا ہاتھ اس نیک طینت نوجوان کے ہاتھ میں دیتا ہے اور وہ باراتی جو ولن کے ساتھ آئے تھے اب ہیرو کے نکاح میں شامل ہوجاتے ہیں۔
محمد علی صاحب ہمارے مقبول ترین ہیرو تھے۔ آخری عمر تک تعلیم حاصل کرتے رہے اور ہمیں “ میں پاس ہوگیا” کی خوش خبری سناتے رہے۔ لیکن رزم حق و باطل ہو تو فولاد بن کر گھن گرج کے ساتھ برستے۔ عدالت عالیہ کے جج صاحبان ان کا خاص نشانہ تھے۔ جب وہ “ جج صاحب “ کہہ کر گرجتے تو جج سمیت نہ صرف پوری عدالت بلکہ سینیما ہال میں بیٹھے تماشائی بھی دہل جاتے۔ ان کا اگلا مطالبہ ہوتا “ مجھے میرے بیس سال واپس لوٹا دیجئے جج صاحب”۔یہ البتہ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ بیس سال قید کس جرم میں ہوتی ہے۔ جہاں تک وکیلوں وغیرہ سے سنا ہے عمر قید غالبا چودہ سال کی ہوتی ہے جس میں دن اور رات دونوں شامل ہوتے ہیں یعنی عملا وہ سات سال کی ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم۔
ایک اور مقبول اداکار آغا طالش تھے جو اکثر نواب صاحب وغیرہ کے کردار میں نظر آتے، جب نواب خاندان کی کوئی دوشیزہ کسی نوجوان کے عشق میں مبتلا ہوجاتی تو آغا صاحب کا مطالبہ ہوتا “ ہم گھوڑا خریدیں یا کتا، اس کی ذات دیکھتے ہیں، نسل دیکھتے ہیں خاندان دیکھتے ہیں”۔
ہیروئن عام طور امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہے لیکن پچھلے دنوں ایک ہیروئن جو غلطی سے کسی غریب گھرانے میں پیدا ہوگئی تھی اس کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا۔ “ جب پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟”۔
مکالمے فلم بینوں کے خون میں گردش پیدا کرتے ہیں۔ ہندوستان کی مشہور ترین فلم “ مغل اعظم” کے لئے سنا ہے کہ چار مکالمہ نگاروں کی خدمات لی گئی تھیں۔ مغل اعظم کا تو ہر مکالمہ ہی زبان زد عام ہوگیا تھا۔
“ سلیم تجھے مرنے نہیں دے گا اور ہم انارکلی تجھے جینے نہیں دینگے”
“ ہم باپ ہی نہیں، شہنشاہ بھی ہیں اور شہنشاہ رویا نہیں کرتے۔ ہم روئے تو ہندوستان آنسوؤں میں ڈوب جائے گا”
“ سلیم کا دل آپ کا ہندوستان نہیں ، جس پر آپ کی حکومت ہو”
“ ہمارا ہندوستان کوئی تمہارا دل نہیں کہ لونڈی جس کی ملکہ بنے۔”
“ محبت جو ڈرتی ہے وہ محبت نہیں عیاشی ہے، گناہ ہے”
“ پھول تو مرجھا جاتے ہیں لیکن کانٹے دامن تھام لیتے ہیں”
“ زہے نصیب، کانٹوں کو مرجھانے کا خوف نہیں ہوتا”۔
مغل اعظم کے بعد شاید “ شعلے “ کے مکالمے مشہور ہوئے لیکن زبان و بیان کی وہ چاشنی کہاں۔ کلام الملک، ملک الکلام ( بادشاہوں کا کلام، کلام کا بادشاہ ہوتا ہے) ۔ مغل اعظم کی زبان شاہی محلات کی تھی جب کہ شعلے کے مکالمے ایک جرم پیشہ کے مکالمے تھے لیکن مجھے یاد ہے ایک زمانے میں ہر کسی کی زبان پر “ تیرا کیا ہوگا کالیا؟” ، “ ہوں تو کتنے آدمی تھے”۔ “ سردار میں نے آپ کا نمک کھایا ہے “ ، “ یہ ہاتھ ہم کو دیدے ٹھاکر”۔ “ یوں کی ہمارا نام بسنتی ہے” اور اس طرح کے بے شمار مکالمے ہوا کرتے تھے۔
مغل اعظم میں شہزادہ سلیم یعنی دلیپ کمار سے زیادہ مغل اعظم یعنی پرتھوی راج کپور کے مکالمے مشہور ہوئے لیکن دلیپ کمار کے فلم “دیوداس “ کے مکالمے بھی کلاسیک کا درجہ اختیار کرگئے۔ ان کا مزہ صرف دلیپ صاحب کی اداکاری دیکھ کر ہی آسکتا ہے۔
“ کون کم بخت ہے جو برداشت کرنے کے لئے پیتا ہے۔ میں تو پیتا ہوں کہ بس سانس لے سکوں”
“ تم کیا رکیں، ہمارا دل رک گیا”
مکالموں کی ادائیگی میں دو اور اداکار بہت مشہور ہوئے۔ایک تو تھے اجیت جن کے مکالموں سے زیادہ ان کا انداز گفتگو زیادہ مشہور ہوا۔ مونا ڈارلنگ، رابرٹ، مائیکل وغیرہ کے الفاظ ان کے اردو آمیز لہجے میں ایک الگ لطف دیتے تھے“ ہمیں صرف دو چیزوں کا شوق ہے، سونا اور مونا، اور مونا کے ساتھ سونا” “ مائیکل سے کہو سائیکل لائے”
راج کمار دوسرے اداکار تھے جن کی اداکاری سے زیادہ ان کے مکالمے مشہور ہوئے۔ راج کمار بھی زیادہ تر نوابزادے کا کردار ادا کرتے اور اپنے آپ کو صیغہ جمع متکلم سے مخاطب کرتے۔ انہوں نے شاید ہی کبھی خود کو “ میں “ کہا ہو۔ “ لکھنؤ میں وہ کون سی فردوس ہے جسے ،ہم، نہیں جانتے؟”۔
“ جن کے اپنے گھر شیشے کے ہوں وہ دوسرے کے گھروں پر پتھر نہیں مارا کرتے”
“ یہ بچوں کے کھیلنے کی چیز نہیں۔ ہاتھ کٹ جائے تو خون نکل آتا ہے”
لیکن راج کمار کا شاید سب سے مشہور مکالمہ فلم پاکیزہ میں تھا “ آپ کے پاؤں دیکھے، بہت خوبصورت ہیں ، انہیں زمین پر مت اتارئیے گا، میلے ہوجائیں گے”۔
امیتابھ بچن بھی اپنی پاٹ دار آواز اور مکالموں کے لئے مشہور ہیں،۔ “ میرے پاس پیسہ ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے، تمہارے پاس کیا ہے “
“ رشتے میں ہم تمہارے باپ لگتے ہیں، نام ہے شہنشاہ”
“ میں آج بھی پھینکے ہوئے سکے نہیں اٹھاتا”
“ ہم جہاں کھڑے ہوجائیں لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے”
“ یہ پولیس اسٹیشن ہے تمہارے باپ کا گھر نہیں “
اور اس کے مقابلے میں آنجہانی پران کے یاد گار مکالمے “ شیر خان کالا دھندہ کرتا ہے مگر ایمانداری کے ساتھ” ۔
ولنوں میں امریش پوری کا مکالمہ “ موگامبو خوش ہوا “ بھی ضرب المثل کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔
موجودہ دور میں شاہ رخ خان کے بھی چند مکالمے مشہور ہوئے۔ “ بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں” یا پھر “ ڈان کو ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔”۔
ایسے کئی مکالمے ہیں جو اب ضرب المثل اور عام بول چال کا حصہ بن گئے ہیں۔ لوگ باگ شاید ان فلموں کو بھول جائیں لیکن یہ جملے، یہ مکالمے زندہ جاوید ہوگئے ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھ رہے ہوں کہ میں نے اتنی ساری فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ یقین کیجئے میں نے ان میں سے شاید دوچار فلمیں ہی دیکھی ہوں ( شاہ رخ خان کی میں نے کوئی فلم نہیں دیکھی، اور آخری فلم سینیما ہال میں آج سے کوئی تیس سال پہلے دیکھی ہوگی)۔ لیکن یہ ان مکالموں کا اعجاز ہے کہ لوگوں کی زبان سے سن کر مجھے اور آپ کو بھی یاد ہوگئے ہیں۔
اب میں فلمیں نہیں دیکھتا۔ ٹی وی پر اب اور طرح کے مکالمے سنائی دیتے ہیں۔ ایک عجیب وغریب مکالمہ جو کچھ دن پہلے بہت سننے میں آتا تھا “ میں نے جان اللہ کو دینی ہے” ۔۔ یہ شاید کسی خصوصی انتظام کے تحت اللہ کو جان دینے کے بارے میں ہو، ورنہ میں نے آپ نے بھی جان اللہ ہی کو دینی ہے۔
دوسرا مشہور مکالمہ جو اب زبان و بیان کا حصہ بن گیا ہے ہمارے محترم وزیراعظم کا حوصلہ افزا جملہ “ آپ نے گھبرانا نہیں ہے “ ۔ کل اسی سلسلے میں ایک خوشخبری سنی کہ ہمارے پیارے وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ سرکاری تقریبات میں صرف اردو بولی جائے گی۔ اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوسکتی ہے۔
لیکن میرا دل اللہ جانے کیوں گھبرائے جارہا ہے۔ ،جونسی ، اردو اب بولی جائے گی بس یہی فکر ہے کہ ہمارا کیا ہوگا کالیا؟
6 جون 2021