جب پوتا بھی صاحبِ اولاد ہو گیا تو اس کے بچوں نے اپنے دادا کے باپ کو بڑے دادا ابو کہنا شروع کیا۔ وہ سب مل جل کر ایسے بابرکت گھر میں رہتے تھے جہاں اب تین کی بجائے چار پیڑھیاں موجود تھیں۔
اس گھر کے بچے کئی روز سے اُس جوش و خروش میں مبتلا تھے جو بچوں اور نوجوانوں کو نئے سال کی آمد پر ہوتا ہے۔ نیا سال کیسا ہوتا ہے؟ یہ انھیں نہیں معلوم تھا لیکن اتنا وہ جانتے تھے کہ یہ کوئی ایسا تہوار ہے جس پر سب بڑوں اور بچوں کو چھٹی ہوتی ہے۔ سب ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں۔ نئے سال کا نام ہندسوں میں ہوتا ہے۔ ہر نئے سال پر اس کے نام کا ایک ہندسہ بدل جاتا ہے۔ بڑے بچے یہ بھی جانتے تھے کہ ہر سال کے تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں لیکن چار سال میں ایک سال ایسا آتا ہے جسے لیپ کا سال کہا جاتا ہے اور اس برس کے تین سو چھیاسٹھ دن ہوتے ہیں۔ پرانا سال ہمیشہ کے لیے کسی نامعلوم دنیا میں کھو جاتا ہے۔ کچھ لوگ پرانے برس کی رخصتی پر اداس بھی ہوتے ہیں جیسے دادی ماں کو پرانے سال کا جانا اتنا اداس کرتا ہے جیسے کوئی اپنا عزیز گزر گیا ہو۔
بڑے دادا ابو یعنی نیاز احمد کے زمانے میں نئے کیلنڈر اور ڈائریاں تحائف کے طور پر ایک دوسرے کو دی جاتی تھیں۔ خوبصورت تصویروں والے نئے کیلنڈر دیواروں پر سجا کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ سب ختم ہونا شروع ہو گیا۔ کیلنڈر اور وقت موبائل فون میں آ گئے۔ خود نیاز احمد نے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد کیلینڈر اور بدلتی تاریخوں کو طاق پر رکھ کر اپنی نگاہ سورج اور آسمان کی طرف کر لی۔ سال بھر کے چاروں موسم باری باری آ کر اپنا جلوہ دکھاتے تھے، کبھی تکلیف دیتے تھے کبھی راحت۔ اور اب تو یہ عالم تھا کہ صحت کی کمزوری نے موسموں کا جبر اور بھی عیاں کر دیا تھا۔ اس بار بھی جاڑا غضب کا تھا۔ ہیٹر اور لحاف کے ہوتے ہوئے بھی سردی ہڈیوں میں گھستی چلی آتی تھی۔ کئی روز سے سورج نہیں نکلا تھا۔ کل کی طرح آج بھی آسمان پر بادلوں کی جڑت بارش کا پتہ دے رہی تھی۔ اس غضب کے جاڑے میں باہر گلی میں سے نابینا بھکاری کی مدھم مگر مانوس صدا آ رہی تھی۔ وہ گا کر بھیک مانگتا تھا۔ اسے اطمینان تھا کہ اس کی بہو اس نابینا گداگر کو کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی تھی۔ رات کا بچا کھچا کھانا یا پھر کوئی پھل اس کے پیالے میں ڈال دیا جاتا تھا۔
نیاز احمد نے اپنی آرام کرسی پر لیٹے لیٹے بے بسی سے کھڑکی سے جھانکتے ابر آلود آسمان کو دیکھا۔ اس کے دل میں سردیوں کی نرم دھوپ کی خواہش جاگ اٹھی۔ عین اسی وقت اس کے کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا۔ تینوں بچے بڑے دادا ابو کو نئے سال کی مبارکباد دینے آئے تھے۔
"بڑے دادا ابو، نیا سال آ گیا۔" سب سے چھوٹا بچہ اس کے کان کے قریب آ کر چیخا۔ باقی سب افرادِ خانہ کی طرح وہ بھی جانتا تھا کہ بڑے دادا کی سماعت کمزور ہے اور انھیں کوئی بھی بات ان کے کان میں بتائی جاتی ہے۔
نیاز احمد جو جاڑے کی مہربان دھوپ کے تصور میں کھویا ہوا تھا آوازوں کی اس ناگہانی یلغار پر چونک کر بولا:
"کہاں ہے نیا سال؟"
بچوں کے لیے یہ سوال بہت عجیب تھا کیونکہ سب جانتے تھے کہ نیا سال آ گیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسا ہے اور کہاں ہے۔ کسی بڑے کے منہ سے ایسا سوال تو اور بھی دلچسپ بات تھی۔ بچے کھلکھلاتے ہوئے باقی بڑوں کو بڑے دادا کا دلچسپ سوال بتانے کو بھاگ گئے۔ نیاز احمد کے کمرے میں تازہ آوازوں کی گونج باقی رہی۔ وہ کچھ سمجھ کر اور کچھ یاد کرکے مسکرایا۔ عشروں پہلے جب وہ ابھی سکول نہیں جاتا تھا اور ایسی ہی کسی سرد صبح اپنےلحاف میں گھسا صبح کی میٹھی نیند کا مزا لے رہا تھا تو اس نے پہلی بار نئے سال کی آمد کی خبر سنی تھی۔ اس کا بڑا بھائی جو سکول میں پڑھتا تھا اسے جگاتے ہوئے کہہ رہا تھا:
"پپو اٹھو، دیکھو، نیا سال آ گیا"
اور اس نے ہڑبڑا کر جاگتے ہوئے پوچھا تھا:
"کہاں ہے نیا سال؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...