یہی نا کہ عمران خان مخلص اور زاتی حیثیت میں دیانتدار شخص ہے۔ ۔ ۔ اور یہ کہ بشری بی بی شرعی پردے کی پابند ہیں۔ ۔ ۔ اور آخری بات یہ کہ اگر عمران خان یا کوئی بھی شخص مدینہ جیسی ریاست کی بات کرتا ہے تو ہمیں اس سے تعاون کرنا چاہیے۔
اور تعاون بھی کیسا؟ ووٹ دینے والا؟ ۔ ۔ ۔ نہیں وہ تو پانچ سال کے لیے منتخب ہو چکا۔ ۔ ۔ بس صرف یہ کہا کہ مدینہ کی ریاست بنانے میں تعاون کرو۔ ۔ ۔ جھوٹ مت بولو، فراڈ نہ کرو، ملاوٹ نہ کرو، رشوت نہ لو۔
مولانا کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے۔ ایک مذہبی شارح بھی وہ نہیں ہیں، مبلغ ہیں اور کچھ ایسی باتوں سے مقبول ہیں جو ہمارے عوام شوق سے سننا پسند کرتے ہیں۔ ان کا نواز شریف جیسے کرپٹ حکمران کے در پر جانا عوام میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا تھا۔ مگر وہ اپنی کرتے ہیں، اور جب وہ ماضی میں طوائفوں سے ملنے چلے جایا کرتے تھے، تو "شریفوں" سے ملنے میں بھی قباحت نہیں ہونا چاہیے تھی۔ مگر خلق خدا نے برا مانا۔
جتنے لوگ پریشان ہیں، حوصلہ رکھیں، انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہے اسکا فائدہ ہرگز عمران خان کی حکومت کو نہیں ہونے والا۔ ۔ ۔ دیکھیں جو قوم انقلاب لانے کے لیے دعائیں مانگتی ہے، اور خود کچھ نہیں کرنا چاہتی، اس میں کسی تبدیلی کی امید مولانا طارق جمیل کے اس پیغام سے آنا تو مشکل ہے۔
ہمارا انقلاب اس لڑکے کے بیان سے شروع ہوتا ہے جس نے کہا تھا، "پولیس ہمیں ڈنڈے مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے" ۔ ۔ ۔ اور حالیہ اوورسیز پاکستانیوں کی حال دہائیوں پر ختم ہو جاتا ہے، جنہوں نے ٹکٹیں خرچ کر ووٹ ڈالے مگر دوسرے موبائل پر ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
اقبال نے کہا تھا زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ ۔ ۔ طارق جمیل صاحب نے مٹی کے نم ہونے کی خواہش ہی ظاہر کی ہے، مگر ۔ ۔ ۔ ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا۔ اقبال کی ساری باتیں ماننا ضروری بھی نہیں اور نہ ہی مولانا طارق جمیل کا پیغام۔
عمران خان کو اکیلے انقلاب لانے دیں، ۔ ۔ ۔ آپ حضرات اپنے اپنے مسلک کے مطابق لوٹ مار، ملاوٹ، دھوکہ دہی اور عمرے شمرے کرتے رہیں۔