کاغذ پر سجے تخلیقی منظر ۔ ۔ ۔
تعارف و تبصرہ۔ منیر احمد فردوس
کہانی جب کسی انسان کی انگلی تھام لیتی ہے تو پھر وہ اسے عمومیت کی راہگزرسے دور لے جا کر خصوصیت کے منصب پر بٹھا دیتی ہے اور اسے تخلیق کار کے خطاب سے نوازتےہی کہانی اسے اپنا تابع کر کے اس سے اس کی مرضی چھین لیتی ہے۔ زمینی سفر کے لئے کہانی تخلیق کار کو آسمانوں کی وسعتوں میں لےچلتی ہے جہاں سے وہ زندگی کے بکھرے ہوئے بےشمار منظر نامے دیکھنے لگتا ہے اورہر منظر میں اسے کتنی ہی کہانیاں سانس لیتی نظرآنے لگتی ہیں۔ پھر وہ لفظوں کے پیراہن تیارکر کے کہانیوں کو پہناتا ہے اور کہانیوں کی مدد سے وہ بکھرے منظر ہر اس آنکھ پر بناتا ہےجسے زندگی سے محبت ہوتی ہے، جسے کہانی سے انس ہوتا ہے ، جو زیست کے نادیدہ گوشوں کو کھنگالنے کی جرات رکھتی ہے۔ کہانی یہی کچھ ایک کہانی کار سے چاہتی ہے۔ کہانی یہی کچھ حمزہ حسن کو سجھاتی ہے اور حمزہ حسن یہی کچھ قاری کو بتاتا ہے۔ وہ کہانی کو مایوس نہیں کرتا بلکہ وہ اس کی انگلی پکڑے چپ چاپ اس کے ساتھ زندگی کے سفر پر چل نکلتا ہے جو حقیقت میں کہانیوں کا سفر بن جاتا ہے اور جب وہ کہانیاں سمیٹ لاتا ہے تو انہیں کاغذ پر پھیلا دیتا ہے اور پھر یہی کاغذ وہ قاری کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے ۔
کاغذ کے منفرد نام سے حمزہ حسن کا پہلا افسانوی مجموعہ منظرِ عام پر آکرسنجیدہ ادبی حلقوں میں اپنی خاص توجہ حاصل کر چکا ہے۔ کاغذ پر بکھری کہانیاں متحرک ہیں جو قاری کے ساتھ بولتی ہیں ، باتیں کرتی ہیں ، اس کے دکھ سکھ بانٹتی ہیں ، اس کے آنسو پونچھتی ہیں ، اس کے دل پر ہاتھ رکھتی ہیں۔ بلکہ وہ اپنے اندر دل رکھتی ہیں اور کاغذ کے سینے میں پوری شدت کے ساتھ دھڑک رہی ہیں اور یہ دھڑکنیں قاری کو سنائی دیتی ہیں۔ حمزہ حسن زندگی کے معمولات پر اتنی گہری نظریں جمائے بیٹھا ہے کہ کسی منظر کی معمولی سی کروٹ بھی اس سے اوجھل نہیں رہتی۔ وہ وقت کے اڑتے لمحوں کو نظروں میں رکھتاہے، جہاں حادثوں کی صف بندی کو وہ بخوبی دیکھنے لگتا ہے اور جب وقت ان حادثوں کے ساتھ زندگی پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہر طرف دکھوں کی آباد کاری ہونے لگتی ہے۔ حمزہ حسن نباض بن کروہاں پہنچ جاتا ہے اور کہانیوں کی صورت بکھری زندگی کو یکجا کر کے اسے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں وہ دکھوں کی تاریخ مرتب کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اس لئے اس کی کہانیوں میں گہرا مشاہدہ ایک قوت بن کر ابھرتا ہے جو اسے کسی اور دنیا کی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے مشاہداتی رویئےکے باعث اسے اپنی زمین، اپنے لوگوں اور اپنے سماج کی بات کرنے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس کا یہی وہ وصف ہے کہ اس کی کہانیوں کی فضا بہت ہی مانوس ، دیکھی بھالی اور اپنی اپنی سی لگتی ہے یوں لگتا ہے جیسے قاری اپنی گلی محلے کی سانس لیتی زندگی کوکاغذ پر بکھراہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس کی کہانیوں کی دنیا میں اترتے ہی صاف نظر آنے لگتا ہے کہ معاشرہ رویوں کی کشتی میں بیٹھ کر کہاں بہتا چلا جا رہا ہے؟ سوچوں کے زاوئیے کس شکل میں ڈھل رہے ہیں؟ اخلاقیات کے دروازے کیسی دنیا میں کھل رہے ہیں؟ زندگی بے شکلی کے طوفان میں کہاں اڑی جا رہی ہے؟ حقیقت میں ان کی کہانیوں کا مطالعہ معاشرے کا مطالعہ ہے۔
اس کی کہانیوں میں متحرک داخلی اور خارجی کیفیات اس کی دوطاقتیں ہیں جنکی مدد سے وہ قاری کے اندر اتر کر اسے پوری شدت کے ساتھ جھنجھوڑ ڈالتا ہے مگر خارجیت اس کا اصل ہتھیار ثابت ہوا ہے، جس سے وہ طنزیہ طمانچے تخلیق کرکے اسے سماج کے چہرے پر پوری قوت سے جڑ دیتا ہے اور یہ طمانچے قاری کی نفسیات پر ایسا گہرا وار کرتے ہیں کہ وہ بلبلا اٹھتا ہے۔ اورپھر وہ بے چینی اوڑھ کرخاک میں چھپا چاند بھی دیکھ لیتا ہے، خواہشوں کی انشورنس کی تہہ تک بھی پہنچ جاتا ہے، کاغذ کی بنی دنیا میں انسانی جبلت کو تیرتا ہوا بھی دیکھ لیتا ہے اورپھر یہ سلسلہ رکتا نہیں بلکہ قاری کاغذ کی بالائی سطح پر تیرتے سماج کے کتنے ہی گھناؤنے چہرے دیکھنے لگتا ہے اورحمزہ حسن قاری کو چپکے سے اس نہج پر پہنچا دیتا ہے کہ وہ سماج کے چہرے پربے اختیار تھوکنے لگتا ہے۔ آخری افسانہ بُندے اس کی واضح مثال ہے۔
حمزہ حسن نے اپنی کہانیوں کی تیکنیک میں نہ کوئی تجربے کئے ہیں اور نہ ہی اسلوب کی سطح پر دانشور بننے کی کوشش کی ہے۔ وہ پہلے افسانے ہی سے کہانی کار رہا ہے اور آخر تک اپنی اس شناخت کو زندہ رکھاہے۔ اس نے سادہ انداز اپنا کر بڑی بات کہنے کی بہت خوبصورت اور کامیاب کوشش کی ہے۔اس لئے اس کی کہانیوں میں نہ کوئی الجھاؤ ہے اور نہ ہی ان کی فضا گھٹی گھٹی سی ہے بلکہ اس کی کہانیاں ایک صاف ستھری فضاکی روشن گواہیاں ہیں۔ اس نے کہانیوں کی تلاش میں معاشرے کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ وہ سماج میں دوڑتے بھاگتے کرداروں کو آپس میں ملاتا ہے تو ان کے درمیان کہانی جنم لے لیتی ہے۔ کرداروں کی باطنی کشمکش ہی اس کی کہانیوں کو عروج عطا کرتی ہے اور یہی عروج دراصل قاری کی نفسیات کی معراج ثابت ہوتی ہے۔ کرداروں کےمکالماتی بیان اتنے سادہ اور عام فہم ہیں کہ ان میں روزمرہ کی بات چیت کا رنگ ملتا ہے۔ مکالموں کی سطح پر ایک بے ساختہ پن حمزہ حسن کے فن کا امتیازی وصف بن کر ظاہر ہونے لگتا ہے اور قاری اسے فطری افسانہ نگار تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ بہت دھیمے انداز میں افسانے کے تانے بانے بنتے ہوئے قاری کو کرداروں کے حوالے کر دیتا ہے اور پھر قاری کرداروں کی فطری مکالمہ بازی میں کھو کر افسانے کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ ان کےکردارہر قسم کے الجھاؤ سے پاک ہیں مگر وہ معاشرےکی کتنی ہی الجھنوں کے ساتھ کہانیوں میں واردہوتے ہیں اور فکرکے نئے در وا کر کے قاری کو باطنی طور پر فکر اور شعور کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں ۔
حمزہ حسن نے اظہار کے لئے جو زبان استعمال کی ہے وہ بہت ادبی اور تخلیقی سطح کی ہے۔ قابلیت دکھانے کے چکروں میں پڑ کر اس نے اپنی نثر کو گنجلک ہونے سے بچایا ہے اور اس کی یہی خوبی قاری کو اس کے افسانے پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی کہانیوں میں بعض جملے اتنے تخلیقی، مرصع اور منفرد نوعیت کے ہیں کہ قاری ان جملوں کے حسن میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ حمزہ حسن پلاٹ سازی بھی جانتا ہے اور اس پر کہانی کی صورت میں لفظوں کی رنگا رنگ عمارت کھڑی کرنے کے ہنر سے بھی بخوبی آشنا ہے۔
بلاشک و شبہ حمزہ حسن کے افسانے معاشرے کے جلتے ہوئے وہ سچ ہیں جن کی تپش سے آنکھوں کی دیکھنےکی تاب پگھل جاتی ہے اور بینائی میں یارا نہیں رہتا مگر حمزہ حسن نے ان سچائیوں کو بڑے ماہرانہ انداز میں ان کی تمام تر کڑواہٹوں کے ساتھ خوبصورت منظروں میں سجا کر کاغذ پر بکھیر دیا ھے اوریہ اس کی ہنروری کا عروج ہے کہ معاشرے کے یہ کڑوے سچ بھی آنکھوں کو بھلے لگنے لگتے ہیں اور اس دوران وہ دلوں کے تاریک جنگل میں فکر کے کتنے ہی چراغ روشن کر کے چپکے سے اپنا کام کر جاتا ہے۔ چھوٹی عمر میں کاغذ جیسے بڑے تخلیقی زاویئے منظرِ عام پر لا کر حمزہ حسن نے جو شاندار کارنامہ
انجام دیا ہے اس پر میں اسے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں