کافکا کی بے خواب آنکھوں کے خواب
‘۔۔ پھر سے یہ میرے خوابوں کی طاقت تھی، میرے نیند میں ڈوبنے سے پہلے جاگتی کیفیت میں جگمگاتی ہوئی، جس نے مجھے کبھی سونے نہ دیا۔’
میں نہیں جانتا شاید یہ ہماری شرمندگی کی وجہ سے ہے یا شاید ہمیں علم نہیں کہ اس کو بیان کیسے کریں، لیکن وہ احساس کہ آپ بس ابھی کے ابھی سونے والے ہیں کوئی ‘بہہ جانے’ کی کیفیت نہیں بلکہ سوچ کا غیر محسوس طریقے سےجاری عمل ہے۔
بستر پر لیٹے ہوئے، ایک دم سے آپ کو عجیب و غریب ادراک ہوتا ہے جیسے آپ نیند سے پہلے خواب دیکھ رہے ہوں۔
ہم جیسے زیادہ تر لوگوں کے لیے یہ بہت سکون دینے والا احساس ہوتا ہے، ایک یقین والی کیفیت کہ نیند ہمیں اپنی آغوش میں لینے والی ہے۔ لیکن فرانز کافکا کے لیے یہ لکھنے کی آمد کی کیفیت ہوتی تھی۔
اطالوی ڈاکٹر انٹونیو پرچاکانتے کافکا کی بے خوابی اور اس کی تصانیف پر اس مرض کے اثرات کا مطالعہ کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی تحقیق کو ریسرچ گیٹ میں شائع کیا ہے۔
کافکا نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا،
‘۔۔ پھر سے یہ میرے خوابوں کی طاقت تھی، میرے نیند میں ڈوبنے سے پہلے جاگتی کیفیت میں جگمگاتی ہوئی، جس نے مجھے کبھی سونے نہ دیا۔’
ڈاکٹر پرچاکانتے کے مطابق کافکا کی یہ تحریر نیند آور کیفیت میں فریب خیالی کی واضح مثال ہے۔ نیند آنے سے پہلے آنکھوں کے سامنے ہذیانی سی کیفیت میں کوئی منظر پوری وضاحت سے دیکھنے کے عمل سے گزرنا۔
کافکا کی سب سے مشہور کہانی ”میٹامورفوسس” کا بنیادی موضوع بھی نیند ہے جس کی کمی اس کے مرکزی کردار گریگر کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کہانی میں کافی حد تک ذاتی عنصر بھی شامل ہے۔
پرچاکانتے اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں، ”کافکا خود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ نیند سے محرومی کی کیفیت میں لکھنا سوچ کے ناقابل رسائی گوشوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔”
اس تجربے کے بارے میں کافکا کا کہنا ہے، ” کتنی آسانی سے سب کچھ کہا جاسکتا ہے ایسے جیسے ایک عظیم آگ ان سب چیزوں کے لیے تیار کی گئی ہو جس میں انتہائی عجیب خیالات جنم لیں اور دوبارہ غائب ہوجائیں۔” ایسے میں کافکا اپنے کردار کے بارے میں بتاتے ہیں، ”میں اپنے اختیار میں کچھ خاص طاقتیں پاتا ہوں، ایک ایسی گہرائی میں جو عام حالات میں پہنچ سے باہر ہے، اور یہ خود کو ادب کی شکل میں ڈھال لیتی ہیں۔”
بہت سارے لوگ صبح کی نسبت آدھی رات کو اپنے آپ کو تخلیقی طور پر زیادہ متحرک پاتے ہوں گے تاہم بے خوابی تخلیقی مواقع فراہم کرنے کے ساتھ دماغ سے اس کا خراج بھی لیتی ہے۔ کافکا نے ایک بار نیند کے بارے میں کچھ یوں کہا تھا، ” سب سے معصوم ترین مخلوق اور بے خواب آدمی سب سے بڑا گناہ گار۔”
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔