سردی الوداعی اٹھکیلیاں کر رہی تھی کچھ گھانبڑ اور طبیعتاَ سست ملازمان کے علاوہ باقی وردی پہن کر ڈیوٹی کرنے والے افسران و جوانوں نے دن کے اوقات کار ڈیوٹی میں سرکاری جرسیاں پہننا ترک کردیا تھا ۔ بارشیں بھی ایک تسلسل سے جاری تھیں ۔ پیڑ پودوں پہ نکلتی نئی نوخیز کونپلوں نے لال سوہانرہ نیشل پارک کی خوبصوررتی کو چار چاند لگا دیے تھے ۔پارک میں اگے انواع واقسام کے پھولدار پودوں نے نئی بیاہی دوشیزہ کے بھڑکیلے شوخ اور فینسی جوڑوں کے جیسی مختلف رنگوں کے پھولوں اور تازہ مہکتی چٹکتی کلیوں کی شالا اوڑھ لی تھی ۔ سورج کی تپش میں سرد ہواﺅں کی آمیزش نے صرف پرندوں تتلیوں بھنوروں کو ہی نہیں بلکہ انسانی جسموں کو بھی پوست کے نشے کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ۔لال سہانرا پارک میں بنائی گئی مصنوعی جھیل کے پانی پہ گھنے درختوں کی ٹہنیوں اور شاخوں سے چھن چھن کر پڑتی سورج کی کرنیں یوں محسوس ہورہی تھیں جیسے پانی کی سطح پہ کسی نے سلمے ستارے کے کام والی چادر بچھا دی ہو ۔ انور جام شیریں کی بوتل جیسا سرخ کبڈی کے کھلاڑی جیسا توانا نوعمر اور مضبوط اعصاب کا مالک جوان تھا اس کا گورا چٹا رنگ سیاہ یونیفارم میں دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا جو بھی نظر انور کے درخشندہ چہرے پہ اتفاقاََ پڑتی دوبارہ پلٹ کے دیکھنا اس کی مجبوری بن جاتا ۔ گہرے سیاہ رنگ کی ٹی شرٹ میں ملبوس ایلیٹ فورس کی گاڑی میں بیٹھا انور لال سوہانرہ پارک میں سیر کی غرض سے آئے لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ انور کی ٹیم کے باقی جوان کندھوں پہ رائفلیں لٹکائے پارک میں ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے جیسے جنگلی کبوتروں کا غول مکئی کی فصل اٹھا لیے جانے کے بعد خالی کھیت میں بکھرے مکئی کے دانے چگ رہا ہو ۔ اپنی طرف مائل نظروں اور دنیا کے تما م غم وپریشانیوں سے بے فکر انور ایلیٹ کی گاڑی میں اپنی اگلی سیٹ کے ساتھ گھٹنے لگا کر موبائل کی سکرین ُپہ نظریں ٹکائے ہوئے کینڈی کرش گیم کھیلنے میں مصروف تھا کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا ۔
سنیے ! سر میر ا نام بلقیس ہے اور میں یہاں سے کئی میل دور گاﺅں کے ایک پرائمری سکول کی ٹیچر ہوں ۔ آپ میری مدد کردیں گے ۔ پلیز ۔
انور نے کینڈی کرش کے سرخ بال کو اچھالتے ہوئے لڑکی کی طرف دیکھا ۔ انجانی منزلوں کی طرف جاتے پیلے زرد شام کے غروب ہوتے اور سدا کے مسافر آفتاب کی طرح دھوپ چھاﺅں کی کیفیت میں مبتلاء سہمی سی لڑکی انور سے مخاطب تھی انور نے سر سے پاﺅں تک بغور دیکھنے کے بعد اس لڑکی سے کہا جی جی بولیں میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ؟ جی سر میں ارباز کے ساتھ آئی تھی وہ مجھے (ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے ) وہاں بٹھا کر سموسے اور بوتل لینے گیا تھا تقریباََ چار گھنٹے ہونے کو ہیں وہ واپس نہیں آیا ۔ انور نے کہا تو میڈم آپ اس کا نمبر دیں میں فون کردیتا ہوں اسے واپس آنا چاہیے تھا ۔ لڑکی نے کہا جی اس کا نمبر بند جا رہا ہے ۔ میں بہت پریشان ہوں سر یہاں میر ا کوئی بھی جاننے والا نہیں اب میں کیا کروں کل میں گھر سے سکول پڑھانے کے لیے آئی تھی اور پھر گھر واپس نہیں گئی پتہ نہیں میرے گھر والوں کا کیا حال ہوگا ۔ موسمی تغیرات معلوم کرنے کے لیے لگائے گئے بیرو میٹر کی طرح بلقیس کی شخصیت اور لہجے پر بھی اتار چڑھاﺅ کی کیفیت طاری تھی ۔ ارباز نے کہا تھا وہ مجھے سکول ٹائم کے ختم ہونے تک گھر پہنچا دے گا لیکن جب میں کل اسے ملنے آئی تو اس نے صبح ہوتے ہی گھر پہنچانے کا وعدہ کرکے مجھے روک لیا تھا ۔ میرا فون بھی رات اسی کے پاس تھا ۔ سر اللہ خیر کرے پتہ نہیں کیا مجبوری تھی اس کی جو مجھے اس طرح اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ارباز ایسا تو نہیں تھا سر ۔ اگر ارباز نہیں آیا تو میں گھر کیسے جاﺅں گی ۔ اب میں کیا کروں ۔ سر میں کل صبح سکول پڑھانے کے لیے گھر سے نکلی تھی اور اب دوسرا دن بھی گزر گیا وہ ایسے معصوم سے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جس کا کوئی ایسا قیمتی کھلونا کسی نے چھین لیا ہو جس کا دوبارہ ملنا کسی طور بھی ممکن نہ ہو شائد وہ بہت کچھ بتا دیتا چاہتی تھی مگر لڑکی تھی اس کے تھر تھراتے ہونٹ اور آنکھوں سے بہتا سیلاب کئی دل گداز داستانیں کہہ رہا تھا ۔ اس کے اشک بنا پوچھے گزری رات کی ہر کہانی سنا رہے تھے ۔ انور نے گاڑی سے نیچے چھلانگ لگائی اور اس لڑکی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا اچھا کوئی بات نہیں آپ فکر نہ کریں ہم آپ کو آپ کے گھر پہنچا دیں گے ۔ آپ ارباز کو کب سے جانتی ہیں وہ کون ہے اس کا کوئی گھر ٹھکانہ کوئی اڈریس تو ہوگا آپ کے پاس ۔ وہ آپ کا کوئی رشتہ دار تھا ۔ کون تھا وہ آپ کا ۔ انور نے انتہائی شفیق لہجے سے کئی سوال کر دیے جہاں انور کے لہجے میں بلقیس کے لیے شفقت تھی وہیں ارباز کے لیے نفرت کا آتش فشاں بھی پھوٹنے لگا تھا ۔ انور نے بلقیس سے پوچھا آپ کے ابو کیا کام کرتے ہیں۔ گاﺅں کا نام پتہ پوچھا بلقیس غریب والدین کی بیٹی تھی بلقیس کا ایک چھوٹا بھائی تھا جو پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ بلقیس کے ابا کا گاﺅں کے چوک میں گوشت کا پھٹہ تھا ۔ لڑکی متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اب بھی اسے یقین ہو کہ ارباز واپس آجائے گا یا شائد لال سہانررا پاک میں اگے اونچے اونچے اور آسمان کی طرف گردنیں اٹھائے کھڑے سفیدے کے درختوں سے گلہ کر رہی ہو کہ گزشتہ شب جو مجھ پہ گزر گئی اب تک آسمانوں کی بلندیوں پہ بیٹھے پورے جہان کے پروردگار کو کیوں خبر نہ ہوئی ایک انسان پہ اعتبار کرنا مجھے اس قدر مہنگا پڑا آخر کیوں ۔ اپنی مسلسل ہچکیوں کو روکتے ہوئے اس نے بتایا سر جی ارباز میرا کوئی نہیں بس ایک سال پہلے ہم فیس بک پر فرینڈ بنے تھے ۔ وہ مجھے اپنے امی ابو سے ملوانا چاہتا تھا ۔ بلقیس کے دل میں برپا ایک بیکراں ہنگامہ اس کی جھکتی اٹھتی پلکوں سے صاف دیکھا جا سکتا تھا ۔ اچھا تو پھر وہ آپ کو گھر تو لازمی لے کر گیا ہوگا چلیں آپ ہمارے ساتھ ہم آپ کو اس کے گھر پہنچا دیتے ہیں ۔ نہیں سر ابھی اس نے مجھے گھر ہی لے کر جانا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کچھ دیر پارک میں بیٹھتے ہیں پھر گھر چلیں گے ۔ رات تو اس نے مجھے ایک ہوٹل میں رکھا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا یہ ہوٹل بھی اس کے دوست کا ہے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ جب انور اور اس کی ٹیم اس لڑکی کو لے کر اس ہوٹل پہنچے تو پتہ چلا کہ ارباز نے تو ہوٹل میں کمرہ بھی بلقیس کے شناختی کارڈ پہ بک کروایا تھا ۔ اب انور اور اس کی ٹیم کی سمجھ میں ساری بات آچکی تھی ۔ جب انور اور اس کے ساتھی بلقیس کو لے گر گاﺅں پہنچے تو پتہ چلا کہ جوان اور بھٹکی ہوئی بلقیس کے ابا کی زندگی کا سورج طلوع فجر کے وقت غروب ہو چکا تھا پورا دن اور پھر پوری ایک رات جب ایک منتظر غریب باپ کا حیاء واپس اپنی کانوں کی کٹیا میں لوٹ کر نہ آیا اس کی نازوں سے پلی بیٹی فیسبک کی نذر ہوگئی تو پھر اس باپ کو اپنا منہ چھپانے کے لیے صرف اور صرف کفن کی اوٹ ملی ۔ جس چھرے سے بلقیس کے ابا جانور زبح کیا کرتے تھے وہ ہی چھرا بلقیس کے ابا نے اپنے گلے پہ چلا دیا تھا ۔بلقیس کے ابا کو خودکشی کئے ہوئے پورے بارہ گھنٹے گزر چکے تھے اور اب بھی بلقیس کے ابا کی کٹی گردن سے زرد پانی رس رہا تھا گاﺅں کے ہومیوپیتھک ڈاکٹر نے پٹی کرنے سے انکار کردیا تھا اس نے کہا یہ پولیس کا معاملہ ہے آپ اسے شہر کے ہسپتال لے جائیں بیچاری بلقیس کی اماں اپنا پھٹا پرانا دوپٹہ بلقیس کے ابا کے گلے پہ رکھ کے زارو قطار رو رہی تھی گاﺅں کے سادہ لوح لوگوں پہ ایک سکتہ طاری تھا بلقیس اپنا بیش قیمتی خزانہ بہاولپور کے کسی ہوٹل میں لٹا آئی تھی اس خزانے کے لٹ جانے کی سزا اب ایک پورے خاندان کو بھگتنی تھی ۔ پہلی بار انور اتنا بے بس تھا کہ شاید رو بھی نہ سکا تھا ۔ مہینوں تک انور اس درندے ارباز کے بارے سوچتا رہا ۔ ایک غریب مگر ہنستا بستا خاندان جس کی حوس کی نذر ہوگیا۔
“