"بھئی ماشاءاللہ ! آپ کی بچی تو واقعی بہت پیاری ہے ۔ ہمیں تو بس اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے اسی کا ہاتھ چاہیے ۔"
اور فریاد بے ساختہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔ اکلوتا بیٹا ہونا بھی بعض دفعہ روگ بن جاتا ہے ۔ وہ دل ہی دل میں شکر کا کلمہ پڑھنے لگا ۔ بلآخر امی جان کو اپنے شہزادے کے لیے ایک چندے آفتاب چندے ماہتاب لڑکی پسند آ گئی تھی۔
کم و بیش پانچ برس کی تلاش آج بلآخر کامیابی سے ہم کنار ہوئی تھی۔
اس کی ماں جلد از جلد اپنے اکلوتے بیٹے کے سر پر سہرا سجانا چاہتی تھی۔
پر لڑکی پسند آتی تو بات بھی آگے بڑھتی ۔
اپنی ماں کا اشتیاق اور بہو کی شخصیت کے حوالے سے ان کے خیالات دیکھے تو بہو لانے کی ذمہ داری کسی سعادت مند بیٹے کی طرح ماں کے سپرد کر دی ۔ جانتا تھا میری پسند ماں کی پسند کبھی نہیں بن پائے گی۔ بیسیوں رشتے مسترد کرنے کے بعد آج انہیں مطلوبہ لڑکی میسر آ گئی تھی جو ہر لحاظ سے ان کے بیٹے کے لیے موزوں ترین تھی ۔
اس کی نظریں بے ساختہ کومل کے کومل چہرے پر جا پڑی تھیں 'جہاں شرم و حیا کی قوس قزح اپنا الگ رنگ دکھا رہی تھی ۔
وہ واقعی اسم بہ مسمی تھی ۔
دراز قد
لمبی لمبی سیاہ زلفیں
موٹی موٹی سیاہ چمکدار آنکھیں
متناسب جسم
دھیمے دھیمے نقوش
گورا کتابی چہرہ
موتیوں جیسے سفید ہموار دانت
رس بھرے' بھرے بھرے ہونٹ
اور
مختصر سا دھانہ
اس کی شخصیت کا جادو واقعی زہد شکن تھا ۔
اسے وہ لڑکی پہلی ہی نظر میں گھائل کر گئی تھی۔
دل ہی دل میں والدہ کو اس انتخاب بلکہ حسن انتخاب کی داد دینے لگا ۔
" ہاں تو بھئی اب کومل ہماری ہوئی۔
ہم دیری کے عادی ہرگز نہیں ۔
چٹ منگنی پٹ بیاہ کریں گے اور اپنی امانت اپنے ساتھ لے جائیں گے " ۔
کومل کے والدین کے چہرے بھی اندرونی کیفیات چھپا نہیں پا رہے تھے ۔ صاف لگتا تھا کہ انہیں بھی یہ رشتہ بہت پسند آیا ہے ۔ ان کی بیٹی لاکھوں میں ایک تھی تو فرہاد بھی شہزادوں سے کم نہ تھا ۔
کومل شرما کر واپس مڑی تو اپنی ہونے والی ساس کی آواز نے اسے چونکا دیا ۔ وہ ٹھٹھک کر رک گئی اور بے ساختہ اس کی سماعتیں آواز کی جانب متوجہ ہوئیں ۔
" بات وہی اچھی جو واضح ہو اور مناسب وقت پر کہی جائے ۔ ہماری بس ایک ہی شرط ہے کہ ہماری بہو نوکری نہیں کرے گی ۔ نہ سرکاری جاب نہ پرائیویٹ پریکٹس ۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔ کومل کا سارا وقت میرے فریاد کے لیے ہو گا اور بس "
لفظ کیا تھے گویا ٹائم بم ۔ کوئی بارودی سرنگ جیسے کہیں قریب ہی پھٹی ہو ۔ کمرے کے
در و دیوار بھک سے اڑ گئے ۔ اس کا پورا وجود لرز کر رہ گیا ۔ قدم لڑکھڑائے تو بے ساختہ اس کے دونوں ہاتھوں نے دیوار سی لگی میز تھام لی۔
ایسا نہ کرتی تو اس شدت سے زمین پر گرتی کہ سب دہشت سے اچھل پڑتے ۔
اس نے کپکپاتا وجود سنبھالتے ہوئے مڑ کر ساس کی جانب دیکھنے کی کوشش تو بے ساختہ چونک پڑی ۔
منظر بدل گیا تھا ۔ اس کے سامنے ڈاکٹر فیاض کھڑے تھے ۔
سفید بالوں جھکی کمر اور سفید گاؤن پہنے وہ اس کی جانب متوجہ تھے ۔
نگاہیں گویا کومل کے چہرے پر گڑی تھیں ۔
ابلی ہوئی مکروہ آنکھوں سے شیطانیت گویا ابلی پڑتی تھی۔
" جانے سے پہلے میری ایک بات سنتی جاؤ ۔ اگر میں نے اس پریکٹیکل میں تمھیں فیل کر دیا تو تمھارا ایک قیمتی سال ضائع ہو جائے گا ۔اگلی بار بھی تو نمبر میں نے ہی لگانے ہیں ۔ تم نے کسی اور کالج سے امتحان پاس کر بھی لیا تو اس داغ کو کیسے مٹا پاؤ گی جو فیل ہونے کے بعد تمھارے کیریئر پر لگا ہو گا ۔
ایک روشن مستقبل اور سنہری کیریئر تمھارا منتظر ہے۔ اب خود سوچ لو تمھیں اپنا مستقبل عزیز ہے یا انا اور خوامخواہ کی ضد ".
وہ بوکھلا کر رہ گئی ۔ سر شدت درد سے پھٹنے کو تھا ۔
کیرئیر یا کردار ؟
کردار یا کیرئیر ؟
اسے لگا جیسے کسی نے بڑے سے گول پہیے میں اسے ڈال کر پوری قوت سے گھما دیا ہو ۔ اس نے دیوار کا سہارہ لیا ۔ خدا معلوم کتنی صدیاں بیت گئیں ۔
پھر سر فیاض کی مکروہ آواز اسے حقیقت کی دنیا میں کھینچ لائی ۔ بے ساختہ اس کا سر جھکا اور اس کے قدم اکھڑ گئے ۔
" بیٹا کیا ہوا " ؟
" طبیعت تو ٹھیک ہے تمھاری " ۔
" میز کو کیوں تھام رکھا ہے " ۔
" کیا سر چکرا رہا ہے تمھارا "
بیک وقت کئی سوالات اس کے ارد گرد گونج اٹھے تھے۔ سوالات کا ایک ہجوم گویا اس کے تعاقب میں تھا ۔
وہ سب اس گرد جمع تھے اور فکر مند بھی ۔
" مم ۔۔میں ٹھٹھ۔۔ ٹھیک ہوں ۔ بس پپا۔۔۔ پاؤں الجھا تو میرا توازن بگڑ گیا " وہ ہکلائی تھی ۔
بیٹا تم نے اپنی ساس کی بات سن ہی لی ہو گی ۔ بتاؤ کیا کہتی ہو ۔ تمھارا کیا فیصلہ ہے "
لگتا تھا اس کے گھر والوں کو اس کے سسرال سے زیادہ جلدی تھی ۔ اس نے ایک بار پھر خود کو دوراہے پر کھڑا پایا ۔ وہ بت بنی کھڑی تھی ۔جیسے ہوش وحواس گم کر بیٹھی ہو ۔ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں۔
ساس کی آواز اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی ۔ تو اس نے دیکھا سب کی نظریں اس پر جمی تھیں اور کان اس کا جواب سننے کو بے تاب ۔
اس نے جھکا سر اوپر اٹھایا اور اس کے قدم ایک بار پھر اکھڑ گئے ۔
ساس نے آگے بڑھ کر بڑی اپنایت سے گلے لگایا اور دونوں رخساروں کے بوسے لیے ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ یہ سب ہو کیا رہا ہے ۔ ایک سادا سا سوال اس کے وجود کی دیواروں سے ٹکراتا اور چکراتا پھر رہا تھا ۔
کیرئیر یا کردار
کردار یا کیرئیر
اس کا کون سا فیصلہ زیادہ غلط تھا ۔ اس کی کون سی غلطی زیادہ سنگین تھی ۔
وہ جو اس نے سر فیاض کے روبرو کی تھی
یا
آج اپنے گھر میں سب کے سامنے ۔۔۔۔۔
کل اس نے کئیریر چنا تھا اور آج۔۔۔
آج عائلی زندگی اس کا انتخاب بنی تھی ۔
اس نے دونوں ہاتھوں اپنا چکراتا سر تھام لیا ۔
کوئی فیصلہ نہ کر پائی تھی
اور پھر یکایک ایک خیال نے اسکے پورے وجود کس پوری شدت سے ہلا کر رکھ دیا ۔
اس کے فیصلوں سے اس کا کردار بھی داغ دار ہو گیا تھا
اور اس کا کیرئیر بھی ۔
پھر اس کا سر جھکتا چلا گیا اور اس نے سختی سے اپنے ہونٹ بھیج کر بے ساختہ ابھرتی چیخ کا گلہ گھونٹ دیا ۔۔ِ۔ ۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...