تعارف و تبصرہ ……..ڈاکٹر کوثر جمال، سڈنی، آسٹریلیا
آج چودہ فروری ویلنٹائن ڈے ہے، محبت کا یہ عالمی دن، اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا، اردو کے ایک قدآور شاعر جناب محمد اظہارالحق کی کلیات ’’کئی موسم گزر گئے مجھ پر‘‘ کی تقریبِ رونمائی کی صورت منا رہی ہے۔ اس میں اردو ادب اور شاعری سے عمومی محبت کا جذبہ بھی یقینا'' شامل ہے ۔۔۔۔ محبت کا ذکر چلا تو میں نے یہ جاننا چاہا کہ جناب اظہارالحق کی شاعری میں کس طرح کی محبت جلوہ افروز ہے، کیونکہ جس محبت کو ہم اور آپ شاعری کا جزوِ اول سمجھتے ہیں وہ تو ان کے ہاں مجھے خال خال ہی نظر آئی۔ ںام بھی آپ کا کسی شاعر کی بجائے کسی جنرل یا بیوروکریٹ کا لگتا ہے، خیر بیوروکریٹ تو آپ تھے ہی۔۔۔ لیکن۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ شاعری، کسی کے مزاج میں کسی پیشے کی وجہ سے تو آتی نہیں۔ بس یہ تخلیقی جوہر ہے جو فنونِ لطیفہ کی صورت میں اپنا اظہار پاتا ہے اور اس تخلیقی جوہر سے متصف لوگ، مختلف طرح کے فنی اظہار کے لیے چنے جاتے ہیں ۔۔۔۔ بات پھر لفظ اظہار تک پہنچی جو اتفاق سے نام ہے ہماری آج کی تقریب کے دولہا میاں کا۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ آج کا دن آپ کا یومِ پیدائش بھی ہے۔ تو آپ کی خدمت میں کتاب کے ساتھ ساتھ سالگرہ کی بھی دلی مبارکباد حاظر ہے۔
’’کئی موسم گزر گئے مجھ پر‘‘، یہ کلیات آپ کے چار شعری مجموعوں ’’دیوارِ آب‘‘ ، ’’غدر‘‘، ’’پری زاد‘‘ اور ’’پانی پر بچھا تخت‘‘ پر مشتمل ہے۔ ہر شعری مجموعے سے پہلے کسی نہ کسی صاحبِ نقد و نظر کا دیباچہ بھی شامل ہے جو شاعر کی شعری کائینات دکھانے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور کرتا ہے۔ مجھے اس سلسلے میں پروفیسر ممتاز حسین صاحب کا مضمون ’’گفتگو‘‘ بہت پسند آیا ۔ ممتاز حسین صاحب نے ایک صاحبِ نظر نقاد کے طور پر اظہار صاحب کی شعری صلاحیتوں کو اول دور ہی میں پہچان لیا تھا کیونکہ ان کی بعد ازاں کی شاعری اس کا بین ثبوت ہے۔ فرماتے ہیں: ’’۔۔۔۔ اللہ اللہ کیا تبدیلی چند برسوں میں اردو شاعری میں آئی ہے، پرانے سکے ٹیکسال سے باہر ہوئے جاتے ہیں اور نئے سے نئے سکے ڈھل رہے ہیں، ان میں سے کم ایسے ہوں گے جن کے سکے معتبر ہوں گے لیکن ماشااللہ آپ کا سکہ استقامت پذیر ہو گا۔۔۔۔‘‘
جیسا کہ میں نے آغاز میں کہا، اظہار صاحب کی شاعری روائتی محبت کی شاعری نہیں ہے۔ نہ ہی ان کے کلام کی ہیتی اشکال کسی صورت بھی روائتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں اگر روایت موجود بھی ہے تو اس کا شعری اظہار غیر روائتی ہے۔ ان کی شاعری کی دنیا داستانوی ماحول میں ڈوبی ہوئی بہت الگ تھلگ سی دنیا ہے۔ اس دنیا کے موسم، مناظر، رنگ و آہنگ سب جدا ہیں۔ ان کی لفظیات، استعارے، تشبیہات، علامات، صوتی آہنگ، شعری اسلوب سب ان کا اپنا ہے، منفرد اور جاندار۔ اس بات کا ادراک خود انھیں بھی ہے، اسی لیے تو کہتے ہیں:
؎
یہی نہیں کہ زمینیں مری اچھوتی ہیں
میں آسمان بھی اپنے نئے بناتا ہوں۔
اظہار الحق صاحب کی کم و بیش تمام شاعری میں تہذیبی، تاریخی اور عصری شعور لسانی اور موضوعاتی دونوں سطحوں پر موجود ہے۔ امتِ مسلمہ کا تابناک ماضی اور تاریک حال انھیں کہیں کہیں ناسٹیجیا میں لے جاتا ہے۔ اس کیفیت میں کھوئے ہوؤں کا سراغ ڈھونڈنے کی جستجو بیدار ہوتی ہے۔ شاعر قرطبہ کے گنبدوں میں قید صداؤں کو سننے لگتا ہے۔ اس کی شاعری میں نئی منزلوں کی جانب رواں قافلے، دھول میں اڑتی ہوئی اوڑھنیاں ، خیمے، صحراؤں کا سکوت، مقاماتِ گزشتہ، اشیا و کردار، جیسے بخارا، سمرقند، غرناطہ، الحمرا، بصرہ، کوزے، زنبیلیں، عمامے، چوغے، چراغ، سپاہ، لشکری، کنیزیں وغیرہ کی مدد سے ان کے فکر و احساس اور موضوعات کی نوعیت کا اندازہ باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ سب کچھ بے بسی کی کیفیت اور احساسِ زیاں میں ڈوبا ہوا ہے:
؎
حکائتیں ایک پوٹلی میں بندھی ہیں
اور ایک زنبیل سسکیوں سے بھری ہوئی ہے
کیا رات تھی بدلے گئے جب نام ہمارے
پھر صبح کو خیمے تھے نہ خدام ہمارے
اظہارالحق صاحب کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ آپ واحد متکلم یعنی ’’میں‘‘ کا صیغہ بہت استعمال کرتے ہیں۔ دراصل وہ اس ’’میں‘‘ کو صرف اپنے لیے استعمال نہیں کرتے۔ اس ’’میں‘‘ کی معنویت کا دائرہ اچھا خاصا وسیع ہے۔ آپ کو اس تناظر میں فکروخیال اور جذبہ و احساس کے انوکھے منطقے نظر آئیں گے۔ اب یہی دیکھیے:
؎
میں زندگی اور بخت پانی سے ڈھالتا ہوں
کبھی سفینے کبھی جواہر اچھالتا ہوں
اس ایک ہی شعر میں سائنسی حقیقتوں سے لے کر مسئلۂ جبر و قدر، تخلیق و اختیار اور حوادث و امکانات کی کئی جہتیں اور پرتیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔
ان کی بہت سی غزلوں میں معنوی وحدت نظر آتی ہے۔ یہ بات بھی ان کے بعد ازاں نظم کی طرف جھکاؤ کا اشارہ کرتی ہے۔ ان کے ہاں ماضی اور تاریخ کے جو حوالے ہیں وہ ناسٹیلجیا کے علاوہ بھی بہت کچھ عیاں کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اپنی مٹی سے محبت کا اظہار کچھ یوں ہے:
؎
اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے
یہی غرناطہ، یہی سسلی ہے، جیسی بھی ہے
اپنی ایک اور نظم میں اس مسلمہ حقیقت کو پیش کیا ہے کہ سماجی ناہمواریاں اور حد سے بڑھی ہوئی محرومیاں انقلابات کو جنم دیتی ہیں، لکھتے ہیں:
؎
میں تمھارے بچوں کو گھروں سے بھاگتے ہوئے
اور تمھارے غلاموں کو بغاوت کرتے
دیکھ رہا ہوں
تمھارے بھرے ہوئے گودام خالی ہو جائیں گے
اور تمھارے مرمر و زربفت بک جائیں گے
اور تمھارے قطار اندر قطار محلات
عجائب گھروں میں بدل جائیں گے
اور یہ سچ ہے کہ ایسے انقلابات آتے رہے ہیں، آ رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ ۔۔۔
بڑے شاعروں کے ہاں ’’آتے ہیں غیب سے مضامیں خیال میں‘‘ والا معاملہ بھی ہوتا ہے اور آنیوالے دور کی دھندلی یا واضح سی اک تصویر بھی ۔ یہ شعر ملاحظہ ہو:
؎
یہاں سے پہلے تو کچھ بے نوا ہجرت کریں گے
پھر اک دن سب پرندے دیکھنا ہجرت کریں گے
اب ہم اور آپ تو اپنی آنکھوں سے ہجرتوں کا یہ سفر دیکھ ہی رہے ہیں۔
اظہارالحق صاحب کی شاعری میں خلوص اور سچائی کا خاص رچاؤ ہے۔ کہتے ہیں:
؎
نے عقل کی گھاٹی سے نہ تقدیر سے پہنچا
اس ’اوج‘ پہ میں اسم کی تاثیر سے پہنچا
آگے چل کر آپ نے اپنی شاعری کے جاودانی ہونے کا دعویٰ بھی منفرد انداز سے کیا ہے:
؎
سرِ آبِ رواں میرا لکھا باقی رہے گا
میں فانی ہوں، میرا نقشِ فنا باقی رہے گا
اظہار الحق صاحب کی شاعری کی قدرو قیمت کے بارے میں ان کے ہم عصر اور سینیئر شعرا، ناقدین نے بہت کچھ کہا ہے، میں یہاں جناب ظفر اقبال کا حوالہ دوں گی۔ جن کا کہنا ہے: ’’محمد اظہارالحق صحیح معنوں میں جدید تر غزل گو شعرأ کا سردار ہے اور اس کی صرف تعریف کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ جدید تر غزل محمد اظہارالحق سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔‘‘
اظہار صاحب اپنے شعروں میں خیالات کو بہت انوکھے طریقوں سے باندھتے ہیں۔ اپنی بات کو اس شعر پر سمیٹ کر اجازت چاہوں گی:
؎
سنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا
دریچہ کھل رہا تھا خواب میں، دیوار کر ڈالا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)نوٹ: یہ مضمون چودہ فروری ۲۰۱۴ کو سڈنی آسٹریلیا میں اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے زیرِ اہتمام جناب اظہارالحق صاحب کی کلیات ’’کئی موسم گزر گئے مجھ پر‘‘ کی تقریبِ رونمائی پر پڑھا گیا۔(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔