میں زکریا یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ صبح ناشتے کے بعد ذرا سیر کے لیے نکلا۔ میں بائیں جانب چلتا ہوا، آموں کے باغ کی طرف گیا۔ آگے چلا تو ایک چھوٹی مسجدنظر آئی۔شکستہ، ویران ، ترک کی ہوئی۔ اس سارے منظر میں سب سے منفرد ،سب سےز یادہ افسردہ کردینے والی بھی!
میں ا س کی جانب کھنچتاچلا گیا۔ جیسے اس کے شکستہ گنبد سے ایک منحنی سی ندا، سیدھی میرے دل کے کونے میں پہنچی ہو ۔ اس لمحے میرے جو بھی ارادے تھے، وہ سب ایک پل کے ہزارویں حصے میں فسخ ہوگئےاور میں اس خستہ و تنہا خانہ خدا کی جانب کھنچا چلا گیا۔بائیں جانب آموں کا باغ تھا۔ ادھر ادھر کیکر، شیشم ،سرس کے درخت تھے ۔ اس کی تنہائی بانٹنے کو کیکر کی کچھ خشک نوکیلی شاخیں تھیں ، کچھ آک کے پودے تھے،برسات میں اگ آنےو الی جڑی بوٹیاں تھیں اور اگست کی تیز ہوتی دھوپ تھی۔
اس کے گنبد اور مینار پختہ تھے۔ بارش، آندھی، دھوپ ، وقت اور غفلت نے دو مینار گرادیے تھے۔ ایک گنبد اپنی خستہ حالی وزوال کی کہانی، خود اپنی زبانی سنانے کے لیے بائیں جانب کی دیوار کے ساتھ پڑا تھا۔ ’میں بھی کبھو یہیں اک’’ مینار پرغرور‘‘ تھا‘(میر صاحب سے معذرت کے ساتھ) ۔ دایاں دیوار میں لکڑی کی چھوٹی سی کھڑکی اندر سے شاید مقفل تھی ۔بائیں جانب کی کھڑکی کی خستہ حالی کا بھرم رکھنے کی ذمہ داری گویا آک کے گھنے پودے،برسات میں اگی گھاس اور خود رو بوٹیوں نے لے رکھی تھی۔ صحن کی چار دیواری کے بس نشانات باقی تھے۔ کچی، محض صدا سے گر پڑنے والی ذرا سی دیوار ، کوئی ایک آدھ شکستہ ،ٹھنٹھ سی پختہ اینٹ۔
بارشوں کے پانی نے بڑی حد تک صحن کی صفائی کردی تھی۔پھر بھی کہیں کہیں سبزہ اگ رہا تھا ۔کہیں حشرات رینگ رہے تھے ۔پرندوں کی بیٹیں موجود تھیں۔ مسجد سے جس تقدیس کا تصور وابستہ ہے، اور جو ہمیں ان کی جانب بار بار کھینچتا ہے، اس کا خیال دھوپ ، پانی، سبزے ، جھاڑیوں،پرندوں ،آندھی ،موسموں ،حشرات کو بالکل نہیں تھا۔
مسجد کا چوبی دروازہ بند تھا۔بند کیا تھا، مٹی میں دھنسا تھا۔ جی چاہا،اس کی کنڈی کھولوں ۔ اس لمحے میں نے دوسرا بلاواباقاعدہ سنا ۔ وہ اس خستہ وخراب حال،سرمئی ہوتے چوبی دروازے کے دونوں پٹوں کے بیچ سے آرہا تھا۔ اس بند مسجد کے اندر جانے کا بلاوا۔ اس کی تاریک ،سیلن زدہ فضا کو محسوس کرنے کا بلاوا۔ وہاں راتوں کو ضرور دیا روشن ہوتا ہوگا ۔ دائیں بائیں وہ طاقچہ موجود ہوگا ، جہاں دیے رکھے جاتے ہوں گے، ہوسکتا ہے کہ سرسوں کے جلے تیل کی کچھ مہک اب بھی باقی ہو،اور طاقچے کی ننھی سی چھت پردھویں کی سیاہی بھی موجود ہو۔ کوئی صف بھی موجود ہو یا محض تنکے ہوں،یا سب مٹی ہوچکا ہو۔ اور یادیں تو بے شمار۔
میں ان یادوں سے ڈرا۔ ان لوگوں کی یادوں سے ،جو اس خانہ ء خدا میں آئے یا باقاعدہ آتے رہے۔ حضوری کی کیفیت محسوس کی یا محض عادتاً عبادت کرتے رہے،اور پھر دنیا میں گم ہوگئے، دنیا سے غائب ہوگئے یا اسے بھول گئے۔ میں اتنے انجان لوگوں ،ان کے نامعلوم انجام اور ان کی انجان نیتوں کے خیال ہی سے ڈر گیا۔ میں دروازہ نہیں کھول سکا۔ وہ بلاوا اب بھی میرے دل میں کہیں محفوظ ہے۔ مجھے اخترالایمان کی نظم ’’مسجد‘‘ بھی یاد آئی۔ خاص طور پر یہ دو لائنیں: ’’کالعدم ہوگیا تسبیح کے دانوں کا نظام ‘‘ اور ’’ اب مصلیٰ ہے نہ منبر نہ مئوذن نہ امام ‘‘۔مسجد پوری کی پوری ، فطرت، وقت ، تقدیر یعنی خدا کے سپر د تھی!
مسجدکو خدا کا گھر کہا جاتا ہے۔خدا کا حال کون جانتا ہے ؟ کس کو آسمانوں پر ہونے والی گفتگوؤں کی خبر ہے؟کون بتاسکتا ہے کہ خدا کے خستہ ، ویران اور ترک کیے ہوئے گھر پر آسمانوں میں کیا تبصرے ہوتے ہیں؟ہوتے بھی ہیں کہ نہیں؟ آدمی کو اپنے خستہ حال گھر کی یاد سے عجب کسک ہوتی ہے،اور وہ عجب بےبسی محسوس کرتا ہے ۔ خدا کے دل کا حال ،خدا ہی جانتا ہے!
میں تو جب بھی کوئی ویران ،اور خاص طور پر کچی ویران مسجد دیکھتا ہوں تو میرا دل عجب افسردگی سے بھر جاتا ہے۔ میں نے گھر کا تجربہ پہلی بار ماں کی کوکھ میں کیا، جس کی یادداشت میرے پورے بدن پر جابجا رقم ہے۔ دوسرا تجربہ ابا جی کے بنائے ہوئے گھر میں کیا۔ تیسرا تجربہ ، اس کچی مسجد میں کیا تھا، جسے ابا جی نے تعمیر کروایا تھا۔یہ بھی گھر کا تجربہ تھا،مگر ایک اور طرح کے گھر کا۔ میں نے اس میں کبھی خدا کو نہیں دیکھا تھا،مگر یہ احساس ایک لمحے کے لیے بھی رخصت نہیں ہوتا تھا کہ یہاں کا ایک ایک ذرہ مقدس ہے،اور اس لیے مقدس ہے کہ یہ اللہ کا گھر ہے۔اللہ کے بہت گھر ہیں۔ بچپن میں کبھی کبھی یہ خیال ضرور آتا تھا کہ اللہ اتنے زیادہ گھروں کا کیا کرتا ہے اور وہ اپنے گھر لوگوں سے کیوں بنواتا ہے؟ مگر اپنے بڑوں سے یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
اپنے گھر میں ہر طرح کی آزادی ، مسجد میں آکر ختم ہوجاتی ۔ بچپن میں یہ اچھا لگتا۔ یہاں آنا،ایک اور طرح کی دنیا میں آنا ہوتا۔ یہ ’اور طرح کی دنیا ‘ اپنی طرف کھینچتی تھی،ان دنوں۔ یہ سکول جانے سے پہلے کے دن تھے۔یہ ’ اور طرح کی دنیا‘ اس لیے اچھی لگتی تھی کہ اس میں کھیل کو د کی بے نظمی کے بجائے، ایک نظم وضبط تھا۔ یہ زندگی کے بکھراؤ کو یکجا کرنے کا عمل تھا۔یہ بھٹکتے ذہن کو ڈسپلن میں لانے کا پہلا تجربہ تھا۔
بغیر وضوکے داخل نہیں ہونا، اونچا نہیں بولنا، سر جھکائے داخل ہونا ہے۔الٹے پاؤں واپس جانا ہے۔ قرآن کو پشت نہیں کرنی۔مسجد میں موجود ہر کاغذ کو چوم کے ، ماتھے پہ لگا کے واپس رکھنا ہے۔ قرآنی قاعدے اور قرآن کو رحل پر رکھنا ہے۔مسجد میں جھاڑود دینا ہے۔ صحن کی مٹی اور تنکوں کو صحن ہی کے ایک کونے میں رکھنا ہے ۔پانی سے چھڑکاؤ کرنا ہے۔صفوں کو جھاڑنا ہے اور شور نہیں کرنا ہے۔ روز شام کو طاقچے میں سرسوں کے تیل کا دیا جلانا ہے۔ کل کے بچے ہوئے تیل کو مقدس سمجھ کر چہرے پر لگانا ہے۔ رات کو مسجد میں جلتے دیے سےزیادہ پراسرار ، زیادہ طلسمی شے ،اپنے بچپن میں نہیں تھی! خیال آتا کہ اس دیے کی روشنی میں کچھ ماورائی ہستیاں ضرور مسجد میں آتی ہیں۔ اسی لیے فجر اتنی سحر انگیز ہوا کرتی تھی !
مجھے سب کچی مسجدیں اس لیے کھینچتی ہیں کہ وہ مجھے خدا کے گھر میں جانے کے اوّلین تجربے کو نئے سرے سے جینے کا موقع دیتی ہیں۔
(نوٹ : اگر کبھی اپنی آپ بیتی لکھی تو اسی رنگ میں لکھوں گا۔)
ناصر عباس نیّر
۲۷ اگست ۲۰۲۳ء
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...