پورے دو ماہ بعد آخر "ٹھِیکریاں" گاؤں کی مسجد کو امام مل ھی گیا. اس کا سہرا نمبردار نور محمد کے سر آیا کہ بڑی تگ و دو کے بعد وہ کوئی امام ڈھونڈ لائے تھے. گاؤں کے لوگ مسجد میں جمع تھے اور نمبردار تعارف کروا رھا تھا کہ یہ ھیں ھمارے نئے امام قاری سجاد شفیع.. قاری سجاد کی عمر کوئی لگ بھگ تیس سال تھی، بڑی بڑی کٹورا آنکھیں، پلکوں پہ جیسے نمی سی ٹھہری ھو، چھوٹی داڑھی اور ھونٹوں پہ ھمہ دم مسکراہٹ.. جب قاری سجاد شفیع نے تلاوت شروع کی تو سب کی حیرت کہیں گم ھو گئی کہ ایسی تلاوت تو کبھی ریڈیو ٹی وی پہ نہ سنی تھی. اتنی بندھی لَے اور خوبصورت آواز پہ صاف شفاف نیلے امبر جیسا گلا…
قاری صاحب کچھ ھی دنوں میں گاؤں پہ یوں چھا گئے جیسے پیاسی زمیں پہ گھنگھور گھٹائیں جو رم جھم برستی ھیں ،دل میں اترتی نگاہ کے جیسے… مسجد کا نظم و نسق سنبھال لیا، صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد بچوں کا ناظرہ و حافظہ، کسی کے گھر ختم ھو تو قاری سجاد، کوئی بیمار ھے تو دَم کے لئے قاری سجاد، کسی کی تیمارداری میں سب سے آگے قاری سجاد، شادی بیاہ پہ سب سے پہلے قاری سجاد..
ٹھِیکریاں میں قاری صاحب یوں عام ھو گئے، بلکہ سیل پہ لگ گئے گویا کہ جیسے حکومت نے فری آٹا سٹال لگایا ھو کہ جو آئے، آٹا لے جائے، گوندھے اور کھائے..
سب اچھا چل رھا تھا جیسے چلنا چاہیے تھا مگر ایک دن قاری سجاد شفیع پہ قیامت سی اتر آئی.. دل کے کسی کونے میں کسک آ ٹھہری اور درد جاگ اٹھا ..
بس ایسا ھوا کہ اس دن قاری صاحب کو نمبردار نورمحمد نے گھر بلایا کہ اس کا پوتا بیمار ھے دَم کر جائیں.. قاری صاحب عصر کی نماز پڑھانے کے بعد مسجد سے خیریت سے نکلے، نمبردار کے گھر خیریت سے پہنچے، وھاں بھی خیریت ہی رھی، بچے کو دَم کیا، چائے سے انکار کیا کہ روزہ سے ھیں.. خیریت سے نمبردار کے گھر سے نکلے، اک گلی سے گزر رھے تھے کہ خیریت مَر گئی اور درد نے پہلی سانس لی.. گلی میں کوئی ہنسی تھی اور قاری سجاد شفیع نے وہ ہنسی سنی تھی.. کچی مٹی کی ٹھِیکری جیسی کھنکتی ہنسی.. ہنسی کی یہ ٹھِیکری قاری سجاد کے دل پہ گری اور ٹوٹ گئی.. سارے ٹوٹے دل میں رہ گئے، اب کون حکیم علاج کرے کہ بھلا دل میں گئی چیز پھر نکلی ھے بھلا؟ قاری سجاد شفیع نے ایک نظر وہ چہرہ دیکھا اور پھر سارا راستہ دو دو من کے قدم اٹھاتے طے ھوا.. گھر تک آئے اور چارپائی پہ لیٹ رھے.. کان تھے کہ ہنسی پہ ٹھہر گئے تھے اور آنکھیں تھیں کہ چہرے کا وِرد کیے جاتی تھیں.. وہ کیوں ہنسی، میں نے کیوں دیکھا، میں کیوں گیا اس گلی، کون ہنسی، میں نے کیوں دیکھا، یہی تکرار تھی خود سے اور مغرب کا وقت ھو چلا.. اٹھے وضو کیا اور پانی سے روزہ کھولا، وضو کے پانی میں آنسو مل مل گئے، درد آنکھوں میں اتر آیا..
مغرب کی نماز میں قرات کی تو پیچھے کھڑے نمازی بھی نم دیدہ ھو گئے.. گاؤں والے بیچارے کہاں آیات کا ترجمہ جانیں مگر آج کی تلاوت میں کچھ ایسا درد ایسا کرب تھا کہ آنکھیں بہہ نکلیں.. یوں ھی عشا کی نماز پڑھائی اور عشا کے بعد گھر جانے کی بجائے قاری صاحب مسجد ھی بیٹھ رھے.. تسبیح ھاتھ میں لی تو کان ہنسی بن گئے، آنکھیں بند کیں تو ہنسی کا چہرہ اتر آئے.. بس ساری رات پھر یوں گزری کہ مسجد کا ٹھنڈا ٹھار فرش، ھاتھ میں تسبیح، کانوں میں ہنسی، دل میں درد، آنکھوں میں چہرہ اور اس چہرے کو دھوتے آنسو.. رات یوں گزر گئی اور سحر یونہی آ گئی..
کِتھوں اینہے درد لیاویں، دَرداں والیا یارا
قاری سجاد شفیع کے دو دن اور تین راتیں یونہی گزریں.. رنگ اڑا، آنکھیں تھکی اندر کو دھنسی ھوئی، گاؤں والے بھی پریشان کہ ھوا کیا… بخار و سَر درد کا بہانہ بنایا لیا کہ یہی کارآمد تھا.. مگر آگے کیا؟ اور کچھ نہ بن پایا تو تین دن چھٹی مانگ لی.. قاری صاحب تو جلے پاؤں چلتے رھے.. خدا کرنی کہ تین دن کی امامت کا مسئلہ بھی حل ھو گیا کہ نذیر لوہار کا بیٹا کسی دارالعلوم میں پڑھتا تھا، وہ حافظ تھا اور تین چار دن کی چھٹی پہ گھر آیا تھا، گاؤں والوں کا مسئلہ سلجھ گیا مگر قاری صاحب کا مسئلہ کون سنوارے؟
چھٹی سے ایک رات پہلے ساری رات مسجد میں روتے کاٹ دی، خود سے باتیں کرتے کرتے خدا سے باتیں ھونے لگیں..
"اللّہ جی، میری محبت بچپن سے آپ کے قرآن کی تلاوت ھے، کوئی اور شوق رھا ھی نہیں، بس اک تیرا شوق کہ تیری کتاب یوں پڑھوں کہ تو بھی نیچے اتر آئے، میرے پہلو میں بیٹھے اور سنے.. مگر اللّہ جی یہ کیا ھو گیا ھے؟ یہ درد مجھ میں کہاں سے آ گیا، جو میرے اندر بَس گیا ھے.. میں ٹوٹ رھا ھوں اللّہ جی! وہ ہنسی مجھے مار دے گی.. وہ ہنسی میرے اندر یوں گونجتی ھے جیسے میری تلاوت مسجد کے گنبد میں گونجے.. وہ چہرہ یوں آن ٹھہرا ھے پلکوں تلے کہ جیسے ھر شے میں تُو نظر آتا ھے، میں کیا کروں اللّہ جی! "…
مسجد کے در و دیوار بھی قاری سجاد سے ایسے مانوس کہ جیسے وہ بھی اس کے ساتھ ہچکیوں میں رو رھے ھوں…
پھَس گئی جان شکنجے اندر، جوں ویلن وچ گنّاں
رَو نوں کہہ ھُن رَو محمد، ھُن رَوے تے مَنّاں
درد جانے کہاں کہاں لئے پھرتا رھا قاری سجاد شفیع کو مگر تین دن کا وعدہ تھا، سو لوٹ آئے.. گاؤں کی کچی سڑک پہ تانگے سے اترے اور سیدھے مسجد کو چل دیئے.. راستے میں ناجو نائی نے حال احوال پوچھنے کے بعد بتایا کہ عزیز کشمیری کی بیٹی فوت ھو گئی ھے، نمونیا ھو گیا تھا.. ظہر کے فورا بعد جنازہ ھے.. قاری صاحب نے جلدی جلدی وضو کیا، اور قبرستان کی اَور لپکے.. جنازہ گاہ میں جنازہ پڑھانے ساتھ کے گاؤں سے سید انوار الحق شاہ آئے تھے.. قاری سجاد پچھلی صفوں میں کھڑے ھو گئے، جنازہ پڑھا، اور پڑھایا گیا.. قاری صاحب جا کے شاہ صاحب سے ملے پھر عزیز کشمیری سے ملے، تعزیت کی، حوصلہ دیا، بھلا درد میں حوصلہ کیسا.. قبرستان کے داخلی راستے پہ عورتوں کے رونے کی آوازیں آ رھی تھیں، قاری سجاد شفیع نے ایک اچٹتی سے نظر میت کی طرف ڈالی تو آنکھیں پھٹ گئیں، چہرہ زرد پڑ گیا.. یہ تو وھی چہرہ ھے، وھی ہنسی والا.. وہ کچی مٹی کی ٹھیکری کی ہنسی والا چہرہ.. وہ چہرہ مَر گیا!!
قاری سجاد نے جھک کے میت کے چہرے پہ کپڑا کر دیا مگر دو آنسو اس ہنسی کے چہرے کو وضو کرا گئے.. اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا، اور میت اٹھانے لگے.. میت دفنا دی گئی، اس کچی مٹی کی ٹھیکری پہ مَنّوں مٹی ڈال دی گئی.. قاری سجاد نے قبر کے سرہانے تلاوت کی، خود بھی روئے اور سب کو رلا دیا.. بس وہ آخری پل تھے قاری سجادکے، پھر وہ درد اٹھا کہ کچھ نہ بس میں رھا.. روتے روتے قاری سجاد ٹھِیکریاں گاؤں کی مغرب کی سمت چل دیئے، اُس ہنسی کے گاؤں سے دُور..
تُو بیلی تے سب جگ بیلی، اَن بیلی وی بیلی
سجناں باجھ محمد بخشا، سُونجھی پئی اے حویلی
اس کے بعد گاؤں والوں نے قاری سجاد کو کبھی نہیں دیکھا..
کسی کو کیا خبر کہ اُسی گاؤں سے کوئی آٹھ کلومیٹر دُور، ایک گمنام دربار کے دروازے پہ بیٹھا ھڈیوں کا ڈھانچہ وہ ملنگ وہ سیاہ چادر میں لپٹا بابا وھی ھے جس جیسا جوان پورے گاؤں میں کوئی نہ تھا.. وہ کٹورا آنکھیں مَر چکی تھیں.. وہ مسکراہٹ جل جل کے بجھ چکی تھی.. وہ ملنگ ھر سال میں ایک دفعہ اس قبرستان میں آتا ھے، قبرستان کی اندھی چُپ میں تلاوت گونجتی ھے اک قبر کے سرہانے.. اُس ہنسی کی قبر کے سرہانے تلاوت کرتا ھے، قبر کی مٹی میں نمی گھولتا ھے اور چپ چاپ واپسی چل پڑتا ھے.. کسے خبر کہ درد کہاں سے آتا ھے اور کہاں کو لے جاتا ھے.. ھم بـے دَرد کیا جانیں!!!
(2003)