ہندوؤں میں سارا کھانا کچی یا پکی پر تقسیم ہوتا ہے۔ تیل اور گھی کے بغیر پکا ہوا کھانا کچا اور روغنی یعنی گھی تیل کے ساتھ پکایا ہوا کھانا پکا کہلاتا ہے۔ بعض ذاتیں دوسری ذاتوں سے کچی اور بعض سے پکی کھالیتے ہیں۔ اس طرح بعض لوگ کچی صرف اپنے گوتر کی اور پکی تمام دوسری ذاتوں کی کھالیتے ہیں۔ دال و چاول جو کہ گھی کے ساتھ پکائی جاتی ہے کچی کہلاتی ہے۔ لیکن گوشت ترکاری گھی یا تیل کے بغیر بھی پکائی جائے پکی کہلاتی ہے۔ چنانچہ گوجراتی برہمن گور برہمن سے پکی روٹی لے کر کھالیتے ہیں لیکن کچی روٹی نہیں۔ اعلیٰ ذات کے لوگ پست ذاتوں کے علاوہ جس کے ساتھ پکی روٹی کھالیتے ہیں اس کے دھات کے اچھی طرح مانجے ہوئے برتنوں میں کھا پی لیتے ہیں اور اس کے حقہ کی پیتل کی نلی کے گرد مٹھی میں کش لگاتے ہیں۔ ہندوؤں میں کوئی بھی اعلیٰ ذات کا فرد پست ذات کے کسی فرد سے کوئی چیز نہ کھائے گا اور نہ پیے گا۔ کیوں کہ پست ذاتوں کے چھونے سے کھانا ناپاک ہوجاتا ہے۔ جٹ، روڑ، گوجر، رہباری اور اہیر ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ وہ سنار کی پکی روٹی بھی کھالیتے ہیں لیکن اس کے گھر کی پکی نہیں ہو۔ پنجاب اور کشمیر میں گوجر اور اروڑا قومیں ایک ساتھ کھانا کھاتی پیتی ہیں اور ایک دوسری کا حقہ پیتی ہیں۔ جگن ناتھ کے مندر میں تمام ذاتیں ایک دوسری ذات کا چھوا ہو کھانا بلا کسی جھجک کے کھاتی ہیں۔ وہاں کوئی کسی سے پرہیز نہیں کرتا ہے۔ جاٹ اور گوجر کہتے ہیں
ہکا سکا ہرکنی گوجر اور جاٹ ان میں اٹک گیا جگ ناتھ کا بھات
یعنی گوجر اور جاٹ ایک ذات سے ہیں اور جگن ناتھ کا بھات جس کو ہر ذات کے لوگ کھاتے ہیں۔ جگن ناتھ کے علاوہ ہر ذات کے قیدی قیدخانوں میں، قومی رہنما بنگلوں اور کلبوں میں، ریلوے اور ہوٹلوں میں، طلبا بیرون ملک رہنے والے، ہسپتالوں میں، سپاہی لڑائی کے میدانوں میں ہر ذات کا چھوا ہوا کھاتے ہیں۔
کوئی بھی مسلمان کسی ہندو سے بلاتذب کوئی چیز کھا پی لے گا لیکن ہندو کسی مسلمان کی کچی یا پکی روٹی چھوٹا بھی نہیں ہے۔ اگر کسی مسلمان کا سایہ بھی کھانے پر پڑ جائے تو اکثر بیشتر اسے پھینک دیتا ہے۔ ہندو اور جین مت کے اگر وال ایک دوسرے سے شادی کرلیتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے گھر کا پکا کھانا نہیں کھاتے ہیں۔ ان کی لڑکیاں جب بیاہ کرکے جاتی ہیں تو وہاں انہیں باقیدہ اپنی برادری میں شامل کیا جاتا پھر ان کے ساتھ کھانا کھایا جاتا ہے۔ یہ لڑکی جب اپنے میکہ آتی ہے تو گھر والوں کا پکایا ہوا کھانا نہیں بلکہ اپنا کھانا خود پکا کر کھاتی ہے۔
پست ذاتیں حلوائی کا پکا کھا لیتے ہیں۔ لیکن یہ کچی صرف اپنی گوتر کی کھاتے ہیں۔ کنوجیہ برہمن کی پکائی ہوئی وہ چیزیں سب کھاتے ہیں جن میں دودھ یا کھویا کی مقدار زیادہ ہو۔ اس لیے مثل مشہور ہے‘تین کنوجیہ تیرہ چولھا‘ یعنی کنوجیہ برہمن اپنے قریب کے رشتہ داروں کا پکا ہوا نہیں کھاتے ہیں۔ کایستھ، چھتری اور ویش برہمنوں کی کچی کھاتی لیکن ہر برہمن کی پکی نہیں کھاتیں ہیں۔
ہر خطہ میں لوگوں نے کھانے لیے گوتریں مقرر کی ہیں۔ الہ آباد کے علاقہ کے لوگ کنوجیہ برہمن کا، روہیل کھنڈ کے لوگ سناڈہ برہمن کا پکا ہوا کھانا کھالیتے ہیں۔ اکثر اچھوت قومیں چمار، پاسی، دوسادہ وغیر برہمنوں کا پکایا ہوا کھانا نہیں کھاتیں ہیں۔ بھنگیوں میں بہت سی گوتریں جو بالمیکی، دھانک، ہری، ہیلا اور راوت وغیرہ مشہور ہیں اور ہر گوتر کا بھنگی یہودیوں، پارسیوں، عیسائیوں، مسلمانوں اور دوسرے ہندوؤں کا جھوٹا کھانا کھالیتا ہے، لیکن ایک گوتر کا بھنگی دوسری گوتر کے بھنگی کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتا ہے اور فخر سے بتاتا ہے فلاں گوتر کا بھنگی مجھ سے ذات میں کمتر ہے اور میں اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا کھاسکتا ہوں۔ اس طرح ہر ذات کے لوگ غیر گوتر کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے ہیں۔ کایستھ غیر گوتر کا کچی نہیں کھاتے ہیں البتہ پکی کھالیتے ہیں اور ایک ساتھ حقہ بھی نہیں پیتے ہیں۔
سنیاسی اپنے ہاتھ سے پکا ہوا نہیں کھاتے ہیں۔ یہ لوگ جہاں تک ممکن ہو برہمن یا چھتری کا پکا ہوا کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن جب انہیں برہمن یا چھتری کھانا نہیں ملے تو پھر کسی کے ہاتھ پکا ہوا کھانا کھالیتے ہیں۔ پرم ہنس (ایک فرقہ جس کے لوگ بچوں کی طرح روئیہ رکھتے ہیں) ہر کسی کاا کھانا کھالیتے ہیں۔
برہمن زمین کے اندر پیدا ہونے والی سبزیاں مثلاً مولی، پیاز، لسن وغیرہ نہیں کھاتے ہیں۔ جینی یا سراوگی گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ ہندوؤں میں بعض گوشت کھاتے ہیں اور بعض نہیں کھاتے ہیں۔ گوشت نہیں کھانے والے بھگت کہلاتے ہیں۔ عموما اودھ آگرہ کے ہندو گائے کا گوشت قطعی نہیں کھاتے ہیں۔ بعض ذاتیں مثلا کروا موہر بسپہوڑ، دہکار ڈوم بھنگی وغیرہ کھاتے ہیں۔ بنگال، بہار اور اوڑیسہ کی بہت سی ذاتیں وسط ہند اور برار کی چالیس فیصدی ہندو آبادی، افغانستان اور بلوچستان کی کل ہندو ذاتیں گائے کے گوشت کو علانیہ کھاتی تھیں۔ آگرہ و اودھ کے علاقہ میں ہر ذات کے لوگ میں مختلف جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ مگر جس جانور کا گوشت ایک ذات کے لوگ کھالیتے ہیں اسی جانور کا گوشت دوسری گوتر یا ذات کے لوگ نہیں کھاتے ہیں۔ سری واستب کایستھ مرغ کا گوشت اور انڈا نہیں کھاتے مگر سکسینہ انڈٓ اور گوشت کھاتے ہیں۔ عام طور پر کایستھ سور کا گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن راجپوت، گوجر، ابھیوز، بھیل اور گونڈ وغیرہ سور کا گوشت کھاتے ہیں۔ بلیا غازی پور کے ٹھاکر، بھوئیں، بار سہی اور چوہے کا گوشت کھاتے ہیں، اگہوڑی مرے ہوئے انسانوں اور تمام مردار جانوروں کا گوشت نجس اور ناپاک چیزیں کھاتے ہیں۔ کچا اناج، تازی و کچی سبزیاں، پھیل، تیل، گھی اور دودھ جس میں پانی نہیں ملا ہو تو بلا کراہیت کمتر زاتوں سے خرید کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔
آج کل بھارت میں عام طور پر بازار سے خرید کر کھانے کا رواج ہوگیا ہے۔ لیکن کھانے پروسنے کے لیے درختوں کے پتے اور کاغذی پلیٹیں یا دھاتی پلیٹوں پر کاغذ، پلاسٹک شیٹ یا کیلے کا پتہ بچھا ہوتا ہے۔ اکثر دعوتوں اور ہوتلوں میں بھی کھانا اسی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ پلیٹوں میں کھانا زیادہ تر مسلم علاقوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ مندوں وغیرہ میں صرف کانسے کی برتنوں پر ہی کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں میں پانی بوتلوں میں اور چھوٹے ہوٹلوں یا اسٹالوں پر پانی جگ میں پیش ہوتا ہے مگر گلاس نہیں ہوتا ہے۔ لوگ پانی پینے کے لیے جگ کو منہ سے زرہ اوپر کرکے منہ میں انڈیلتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ دیکھی ہے اپنے وطن میں چھوت چھاٹ کا بہت خیال رکھتے ہیں وہ بیرونی ملک سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر واپس آنے کے بعد اسی طرح چھوٹ چھات کرنے لگتے ہیں۔ اس پر انگریزوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ان کے سپاہی پردیس میں سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں مگر وطن واپس آکر دوباہ چھوت چھات کرنے لگتے ہیں۔
تہذیب و تحریر
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...