کوا۔۔۔چوڑی چھاتی اور مضبوط شانوں والے گھبرو جوان جیسے درخت کی چھولدار شاخ پہ اپنے مخملی گداز پروں میں گردن چھپائے کبوتر کے پاس آن بیٹھا۔ ارے۔۔۔ہیلو۔۔۔ہیلو۔ کبوتر اپنے مراقبے میں محو اور مست! اچھا، الباکستانی طریقہ اپناتے ہیں۔ کوے نے خود کلامی کے ساتھ ہی آواز لگائی۔
”جناب! چاند جیسے چٹے چکور آسمانی شہزادے!“ کبوتر نے آہستگی سے آنکھیں میچے میچے اپنے نیم پھنے پروں کو ہلکورے دیئے اور متوجہ ہوگیا۔ ”اکیلے ہو؟ تمہاری کبوتری کدھر ہے؟ میں اور میری کالو تو دن بھر اڑان بھرتے ملتے رہتے ہیں اور پھر شام کو اپنے ٹھکانے پہ۔“ کبوتر بولا۔
”مری گوری بچوں کے پاس ہے۔“
کوا بولا۔ ”بھئی کبوتر میاں۔ کوے کے بچے تو کوے ہی ہوتے ہیں۔ سخت جان اور بے تکان۔ تم تو اپنے بچوں کے لاڈ اٹھا کے انہیں بزدل بنادیتے ہو۔“ کوے نے فضا میں بھرپور کائیں کائیں کی یلغار نچھاور کی اور خ بدل کر بیٹھتے ہی مخاطب ہوا، ”اب شہر کا چکر لگانے کا حوصلہ نہیں رہا۔ چلو مرے ساتھ اڑو تو اسٹیشن تک چلتے ہیں۔ ہماری پسندیدہ جگہ تھی۔ اک دن ہماری ٹولیاں داتا نگری سے جنوب کی جانب 56 کوس دور جنگل کی طرف جارہی تھیں۔ وہاں بچوں کی لاشیں اور سارے شہر کی چینخ و پکار کی گونج سن کر واپسی کی راہ لی۔ راستے میں بابا بلھے شاہ کے دربار پر کچھ دیر سستائے اور پھر کوٹ لکھپت کے بیابانوں تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
کبوتر ذرا توقف سے بولا۔ ”انسان کا ماضی حال مستقبل ایک جیسا ہے۔ انسان کے روپ بدل رہے ہیں۔“ روہانسی آوا زمیں بولا۔ ”مردار کھاتا ہے۔ گدھوں کتوں کے ٹکڑے کرکے گوشت کی بوریاں بھر بھر کے لے جاتا ہے۔ ڈھانچے بھی۔۔۔انتڑیوں کو نیلے پیلے ہرے ہرے تھیلوں میں نچوڑ نچوڑ کر بھرلیتا ہے۔ میں نے رہڑھیوں پہ رکھی کڑاہیوں کے گرد دیکھ کر پہچان لیا۔ بس یہ جو گندہ نالہ سارے شہر سے گھوم گھوم کر گذرتا ہے، قربانی کے دنوں میں اس کے اطراف اوجڑیاں اور انتڑیاں دھل دھل کر پڑی دیکھی ہیں۔۔۔مجال ہے کسی جانور کو بوٹی بھی نصیب ہو، سوائے ان مکھیوں کے جنہوں نے ٹپری واس کی رسیوں میں پروئی گوشت کی بوٹیوں کو جھونپڑیوں میں چارپائیوں کے گرد تنے منہ ماری کی ہو۔ آوارہ کتے بھی بند گیٹ سے خون کی مہک کا پیچھا کرتے بھونک بھونک کر ہلکان ہوگئے۔ یہ ٹپری واس بھی خوب ہیں۔ ایک چارپائی پہ سرسوں کے تیل اور مٹی کی گچک لگے بالوں میں ایک دوسرے کی رانوں میں گھسی عورتیں جوئیں ہی نکالتی رہتی ہیں۔“
کبوتر نے لقمہ دیا، ”پتہ پتہ ہے۔ ان کا صحن، غسل خانہ اور چولہا پرات ایک ہی جگہ ہوتا ہے۔ میں ان کے گیت بھی سنتا ہوں۔ میں اور مری گوری کبھی کبھار دربار پہ بھی جاتے ہیں۔ ”حق ہو“، ”حق ہو“ کی حاضری لگا کر واپس آجاتے ہیں۔ دانہ دنکا تو وافر ہے پر مری گوری وہاں غیر محفوظ سی ہوجاتی ہے۔“ دونوں نے مخالف سمت اڑان بھری اور آسمان کی طرف پرواز کرگئے۔
کوے نے روٹی کا ٹکڑا دیکھا اور کائیں کائیں کی پکار سے ساری برادری کو مدعو کرلیا۔ ناکافی خوراک سے چھینا جھپٹی سے شور و غل بلند ہوا۔ کسی کو تبرک ملا، کسی کو نہ ملا۔ محفل برپا ہوگئی۔
دھوپ ڈھلی تو اسی گھبرو جوان جیسے درخت کی شاخ پر کبوتر کو دیکھ کر قریب جا بیٹھا۔ کبوتر بولا، ”تم سامے خراشی کے باعث انسان کے ناپسندیدہ ہو۔ اپنی بصیرت کی لذت بھی کائیں کائیں سے غارت کردیتے ہو۔ میں چپ سادھ لیتا ہوں۔ دکھ ہو یا سکھ، میں غوروفکر کرتا ہوں۔ آسمان پہ اڑتے سمے نیچے گھروندوں میں انسان قیدی دکھائی دیتے ہیں۔ پارک میں سفید پوڈر کے مرغولے دکھی کردیتے ہیں۔ میں آنکھ بند کرلیتا ہوں۔ اپنے پروں کی گھپاؤں میں چونچ دبا کر سوچتا ہی رہتا ہوں۔۔۔اور تم تو آسمان سر پہ اٹھائے رکھتے ہو۔۔۔۔ذرا سورج کے سامنے گردوغبار کا ہیولہ آیا نہیں، تم آندھی بارش طوفان کی آمد کا نقارہ بجانے لگتے ہو۔“
کوا۔۔۔”کبوتر میاں، آؤ نا کسی دن میرے ساتھ راوی کنارے۔۔۔منہ اندھیرے کچھوے انڈے دیتے ہیں۔ دائرے کے جیسے گول اور سفید ڈھیریوں کی صورت۔ انسان ٹولی کی صورت آکر انہیں سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ پہرے دار بھی چراہ لاتے ہیں، تگڑے مونچھوں والے۔۔۔!“
شام ابھررہی تھی، روشنی سمٹ رہی تھی۔ ہلکا اندھیرا درختوں کے پتوں کو تھپتھپارہا تھا۔ ہوا کی خنکی سے سورج دھیرے دھیرے اپنی تپش واپس لے رہا تھا۔ کوا غمزدہ، نڈھال، کبوتر کے قریب ہورہا ہے۔ ”میں بہت دنوں سے مشرق مغرب جنوب شمال سے دائرے ابھرتے دیکھ رہا ہوں۔ گول دائرے۔ کبوتر میاں! یہ دنیا ایک دائرہ ہی تو ہے۔ میں بھی اور تم بھی۔ انسان پہاڑ، سب کے سب، اپنی اوقات، اپنی طاقت کے ساتھ ایک دائرے میں لرزاں ہیں۔ تمہاری گوری، تمہاری کبوتری کا بھی ایک دائرہ ہے۔ تم پھیریاں ڈال ڈال کر اپنی کبوتری کی چونچ سے چونچ ملا کر واپس اپنے دائرے میں آجاتے ہو۔ دن رات سیاہ اور سفید دائرے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا دائرہ اور بڑے سے بڑا دائرہ۔۔۔بڑا دائرہ چھاجاتا ہے اپنے سے چھوٹے پر اور وہ اپنے سے چھوٹے پر اور۔۔۔زمین کے دائرے جب اپنی قید سے نکل کر پھیل جاتے ہیں تو پھر فطرت کے دائرے پر ضرب لگتی ہے۔ کرونا بھی ایک دائرہ ہے۔ مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال۔ یہ دائرہ لپٹ رہا ہے اور محیط ہوتا ہی چلا جارہا ہے۔ آنکھیں اور سانسیں بند کرتا چلا ہی جارہا ہے۔ سمندر بھی ایک دائرہ ہے تو قطروں کی ہلچل اٹل ہے۔ محیط دائرے ٹکرارہے ہیں۔ چھوٹے دائروں کی ساخت ٹوٹ رہی ہے۔ انسان دور دور سے انسان کو کہہ رہا ہے۔۔۔”اپنے اپنے دائرے میں رہو۔“
کبوتر نے جھر جھری لی اور کوے کے کاندھے پہ اپنی گردن ٹکا کر بولا۔ ”انسان کا پسندیدہ دائرہ ’سکہ‘ ہے۔ ’سکہ‘ جو سارے دائروں کا دائرہ ہے۔“
کوا بے قرار بے چین ہوکر کبوتر کو اکیلا چھوڑ کر کائیں کائیں کرتا اڑگیا۔۔۔اور کبوتر اپنی بند آنکھوں کو نرمی سے بھینچ کر اپنی چھاتی میں منہ چھپا کر مراقبے میں محو ہوگیا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...