(Last Updated On: )
کبھی تاریک دیواروں میں تاباں بام و در کیجے
فقیروں کی دعا لیجے، غریبوں پر نظر کیجے
بہت مجبور ہو کر داستانِ دل سنائی ہے
مری گستاخیوں سے صاحبِ من در گذر کیجے
ہوا ہے، موسمِ گل ہے، مہک ہے، آپ ہیں، میں ہوں
ذرا آنچل اُدھر کیجے ذرا نظریں اِدھر کیجے
کہیں تو آپ کو بھی اس سفر میں ٹھہرنا ہوگا
اگر اچھا لگے صاحب تو میرے دل میں گھر کیجے
یہ دروازہ تو پچھلی دھوپ میں بھی کس نے کھولا تھا
گلی کے موڑ پر دیوار ہے اس کو خبر کیجے
تدبر کیفِ ہے اس کا، تحیر سحر انگیزی
فنا ہو جائیے اس عشق کے ہاتھوں مگر کیجے