1993 کی بات ہے کہ ایک لڑکی روسی کلائی گھڑیاں لیے ان کی مارکیٹنگ کی غرض سے میرے دفتر پہنچی۔ روسی زبان مجھے آتی نہیں تھی چنانچہ اس سے گفتگو مینیجر مظہر گورمانی نے کی تھی۔ گھڑیاں کونسی لینی یا بیچنی تھیں بس اس کا دل رکھنے کو۔
یہ بیس سالہ دراز قد، سنجیدہ اور خوش شکل طالبہ اتنی اچھی لگی کہ میں نے مینیجر کی ڈائری سے اس کا فون نمبر چرایا اور یوں ہماری فون پر دوستی شروع ہوئی۔
اس کے پاس وقت کبھی ہوا ہی نہیں ۔ ملاقات کیا خاک ہوتی۔ پھر اس نے تعلیم مکمل کر لی۔ کانفرنسوں میں بیرونی ممالک جانے لگی۔ ایک بار یہ انگلستان جا رہی تھی اور اسی روز اس کی سالگرہ تھی۔ طیارہ فضا میں تھا کہ اس کا نام پکارا گیا اور آ کر لفافہ وصول کرنے کو کہا گیا۔ لفافے میں برتھ ڈے وش کارڈ اور میری تصویر تھی۔
نہیں ملی تو نہیں ملی۔ 1999 میں ہوئے ایک حادثے میں مجھے لقوہ ہو گیا۔ اس دوران میں نے اس کا ایڈریس اس کے فون نمبر کے توسط سے ٹریس کیا اور ہاتھ میں گلدستہ پکڑے اس کے گھر کی بیل بجا دی۔ وہ مجھ ٹیڑھے منہ والے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور میرے منہ سے پہلا فقرہ کیا نکلا کہ" میں تمہیں بہت حسین خیال کرتا تھا مگر تم اسقدر حسین نہیں ہو" اس نے اس کا برا نہ منایا۔ چائے پلائی باتیں کرکے رخصت کیا۔
پھر دو سال بعد اس کے والد کا آپریشن ہوا۔ میں عیادت کے لیے گیا جہاں وہ والدہ کے ہمراہ پہنچی ہوئی تھی۔ بالآخر 2005 میں جب میں روس میں پاکستانی برادری کا پہلا منتخب صدر ہوا تو اس نے حلف برداری کی تقریب میں مہمان خصوصی بننے کی حامی بھر لی۔ وہ پہنچی تو میں نے اس کے گال پر بے اختیار کئی بوسے دیے۔ لوگوں نے کہا بھئی صدر ٹھرکی ہے۔
پھر اس نے 39 برس کی عمر میں ایک ریڈیو انجنیئر سے شادی کر لی اور میں نے اسے فون کرنا چھوڑ دیے۔ چند خواتین نے مجھ سے بچہ پیدا کرنے کی خواہش کی جن میں سے دو کی پوری بھی ہوئی لیکن اس سے میں ذہین اور حسین بچہ پیدا کرنے کا خواہاں تھا مگر پہلی ملاقات میں کہا پہلا فقرہ شاید کام بگاڑ گیا۔
ہم اب بھی دوست ہیں مگر فیس بک کی حد تک۔
یولیا زوبوک سوشیالوجی کی معروف پروفیسر ہیں جن کی لکھہ کتابیں روس اور برطانیہ میں شائع ہو چکی ہیں۔ جیتی رہو یار۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...