ایسے ہی چلتے چلتے ذوق نظر کچھ چہروں ،آنکھوں یا لفظوں کو ٹھہر کردیکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر نگاہوں میں ستاٸش ابھر آتی ہے یہی ستاٸش بھری نگاہیں پسندیدگی میں بدل جاتی ہیں اور حاصل و لا حاصل کی اندورنی کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہےجو دراصل انسانی شعور کو معراج عطا کرنے کا ایک زاویہ ہوتا ہے،اس ڈھلوان نما مقام سے اگر سفر رک جاۓ تو ذہنی اذیت دوگنی ہو جاتی ہے اور اگر آگے کی طرف جانے کا حوصلہ کر لیا جاۓ تو عفریتوں کے ہیولے دھندلا جاتے ہیں مگر یہ فیصلہ کبھی پوری زندگیاں نگل جاتا ہے فیصلہ کر کے کسی راستے کو اپنانا بھی سب کا مقدر کہاں ہوتا ہے حضرت موسٰی کو کب پتہ تھا کہ آگ لینے جاٸیں گے تو غیبی آواز کے سحر میں کھو جاٸیں گے۔
سفر نصیب ہو تو خوشی سے قبول کرنا چاہیے کیونکہ شوکیس میں پڑے قیمتی برتن سجاوٹ کے لیۓ پڑے پڑے ختم ہو جاتے ہیں،راستہ پر تھکن زدہ قدم بھی نشان منزل ہوا کرتے ہیں اور کھوج کا ذوق رکھنے والے حقیقت منتظر کو بے حجاب دیکھنے کے شوق میں خود کو گنوا دیتے ہیں ،نبوت کے مقام پر فاٸز حضرت موسٰی جب رب تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل کرتے تب بھی دیدار کا اصرار کرتے رہے ، بہت کوشش کے باوجود اس بے چینی کی تشریح سے قاصر ہوں جو ہمیں انجانے راستوں پر چلنے پر مجبور کر دیتی ہے شاٸد راستوں میں قدرت نے کوٸ کشش چھپا رکھی ہے کہ فیض جیسے شاہکار انسان اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر خیال بنتے رہے اور ہشت رنگ منزل کے خواب آنکھوں میں بساۓ رخصت ہو گۓ،دراصل ذوق سفر ہی اصل منزل ہے دیدار تو محض ایک ہیولہ سا ہے جو مسافر کو مشغول سفر رکھنے کے لیۓ قدرت کا بہترین انظام ہے۔