پیارے بچو تم نے اکثر بزرگوں سے سنا ہو گا کہ ضد اور شرارتیں کرنا اچھی بات نہیں۔ لیکن اکثر بچے بزرگوں کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ ماں باپ کی حکم عدولی ، ضد اور شرارتیں کرتے ہیں۔ آج میں تمہیں اپنے بچپن کا ایک واقعہ سنانے جا رہا ہوں ہو سکتا ہے یہ شرارتی بچوں کے لئے اصلاح کا سبب بن جائے
میں بچپن میں نہایت ضدی اور شریر تھا۔ سبھی اس وجہ سے پریشان رہتے تھے۔ گھر میں تو میں دھماچوکڑی مچاتا ہی تھا اسکول میں اپنے ساتھیوں کو بھی پریشان کرنا تھا۔ جانور تک میری شرارتوں سے محفوط نہ تھے محلے کے کتے مجھے دیکھتے ہی بھاگ کھڑے ہوتے کیونکہ اکثر میں ان کی دم سے پٹاخے باندھ کر چلا دیا کرتا تھا۔ گھر میں پلا ہوا طوطا مجھے دیکھتے ہی واویلا مچانا شروع کر دیتا ۔ مرغیاں کڑکڑاتی ہوئی راہ فرار اختیار کرتیں۔ آنگن میں جو جامن کا پیڑ تھا اس پر کبھی کبھی بندر اتے تھے۔ میں غلیل سے ان پر نشانہ لگایا کرتا۔ ایک دن میں نے ایک بندر پر تاک کر غلہ چلایا، وہ تو چھلانگ لگا کر بچ نکلا مگر ننھا سا بچہ غلہ کی زد میں آ کر بے ہوش ہو گیا۔ بندروں نے جلدی سے اپنے بچے کو اٹھایا اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجھے امی نے اس بات پر بہت ملامت کی مگر میں نے ان کی بات پر کوئی کان نہیں دھرا اور حسب سابق اپنی شرارتوں میں مشغول رہا۔
اس واقعے کو کئی دن گذر گئے تھے۔ جاڑوں کا موسم تھا۔ میں آنگن میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔ پاس ہی امی دھلے کپڑے الگنی پر پھیلا رہی تھیں۔ ہڈیوں میں اُترتی سردی کے دنوں میں دھوپ جو مزہ دیتی ہے اس سے سبھی واقف ہیں۔ عجیب سا سرور محسوس ہورہا تھا۔ اچانک ایک جانب سے بندر وارد ہونے شروع ہوئے۔ کچھ دیوار پر بیٹھ گئے۔ کچھ چھت پر چڑھ گئے۔ چند جامن کے درخت پر جا بیٹھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے فوجیوں نے مورچے سنبھال لئے ہوں۔ آج خلاف معمول وہ شور نہیں مچارہے تھے بلکہ ایک گمبھیر سی خاموشی ان پر طاری تھی۔ وہ عجیب سی نظروں سے مجھے گھور رہے تھے۔ میں کمرے سے غلیل لانے کے لئے اٹھا ہی تھا کہ ایک بڑے سے بندر نے چھلانگ لگا کر مجھے دبوچ لیا اور دیوار پر جا بیٹھا۔ میں چینخنے لگا۔ امی نے جو یہ دیکھا تو وہ بھی گھبرا کر ابو کو پکارنے لگیں۔ ابو لپک کر کمرے سے باہر نکلے مگر تبھی وہ بندر مجھے لیکر چھت پر چڑھ گیا اور مختلف چھتوں پر چھلانگیں لگاتا ہوا ایک سمت بڑھنے لگا۔ دوسرے بندر بھی ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔ میں رو رہا تھا۔۔۔ چلا رہا تھا مجھے خوف محسوس ہو رہاتھا کہ کہیں میں پھسل کر نیچے نہ گر پڑوں ۔ میں بندر کے پیٹ کے ساتھ مضبوطی سے چمٹ گیا۔
شہر کے بعد کھیتوں کا سلسہ شروع ہو گیا پھر کچھ ہی دیر بعد ہم گھنے جنگل میں پہنج گئے تھے۔ بندر اس درخت سے اس درخت پر چھلانگیں لگا رہا تھا اور میں خوف کے مارے مرا جا رہا تھا۔ ایک اونچے سے گھنے پیڑ پر پہنچ کر بندر رک گیا اور مجھے ایک ڈال پر بٹھا دیا۔تمام بندر میرے اطراف گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔ میں نے نیچے کی جانب جو نظر دوڑائی تو خوف کے مارے میری گھگھی بندھ گئی۔ یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں نیچے گر ہی پڑوں گا۔ میری یہ حالت دیکھ کر تمام بندر ایسی آوازیں نکالنے لگے گویا مجھ پر ہنس رہے ہوں۔تبھی ایک جانب سے ایک بوڑھا بندر نمودار ہوا اور آ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔ تمام بندر مؤدب ہو گئے تھے۔ بوڑھا بندر مجھے کچھ دیر غور سے دیکھتا رہا پھر میری جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اسکے ہاتھ میں کوئی جنگلی پھل تھا جس کی خوشبو بڑی مسحور کن تھی ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا وہ مجھے پھل کھانے کو کہہ رہا ہو۔
میں نے بے اختیار اسکے ہاتھ سے وہ پھل لیکر اسے کھانے لگا۔ جتنی اچھی اسکی خوشبو تھی اس سے کہیں بڑھکر اسکا ذائقہ تھا ایسا پھل میں نے آج تک کھایا نہ تھا ۔ تمام بندر خاموشی سے مجھے گھورے جا رہے تھے ۔ اچانک میرے تمام بدن میں چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میرے تمام بدن پر بال نمودار ہونے لگے۔ میں گھبرا گیا ۔ کوئی شے پتلون میں رینگتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہاتھ لگا کر جو دیکھا تو ایک عدد دم نمودار ہو چکی تھی۔ میں نے پھر چینخنا چلانا شروع کر دیا۔پتہ نہیں کتنی دیر میں چلاتا رہا ۔ اب جو غور کیا تو میرے منہ سے آواز بھی بندروں جیسی نکل رہی تھی ۔ میں بندر بن چکا تھا ۔۔۔ !
اب میں بندروں کی بات بھی بخوبی سمجھ سکتا تھا۔ وہ سب میری حالت پر ہنس رہے تھے ساتھ ہی میری بری عادتوں پر مجھے لعنت ملامت بھی کر رہے تھے۔ بوڑھا بندر بولا "کیوں میاں ! کیسی رہی ؟ مل گئی نا اپنے کیے کی سزا؟"
میں اس کے آگے گڑگڑانے لگا کہ مجھے دوبارہ انسان بنا دو مگر وہ اچھلتا کودتا ایک جانب جنگل میں غائب ہو گیا۔میں اداس سا اپنی جگہ بیٹھا روتا رہا۔ تمام بندر کھیل کود اور کھانے پینے میں مگن تھے۔مجھے بھی زوروں کی بھوک لگ رہی تھی مجبورا میں بھی درختوں کے پتے اور پھل کھانے لگا۔ پیٹ بھر گیا تو پھر ایک شاخ پر گھٹنوں میں سر رکھ کر بیٹھ گیا۔ ایک بندر کا بچہ میرے پاس آ بیٹھا اور بولا " تم نے مجھے پہچانا؟" میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ وہ بولا " میں وہی ہوں جسےتم نے غلیل کا نشانہ بنا کر بے ہوش کر دیا تھا"
میں کیا جواب دیتا؟ بندروں کی طرح سر کھجا کر رہ گیا ۔۔۔ وہ ہنس کر بولا " بات نہیں کروگے؟ اب تو تمہیں یہیں رہنا ہے ۔ تمہارے لیے یہ سزا اسی دن تجویز کی گئی تھی جس دن تم نے مجھے مارا تھا۔" اتنا کہ کر پھر کودنے پھاندتے میں مصروف ہو گیا۔ میں بدستور وہیں بیٹھا رہا۔ کافی وقت گذر گیا۔ شام ہو چکی تھی۔ مجھے امی کی یاد ستانے لگی جنگل کے ماحول سے خوف محسوس ہونے لگا۔ نزدیک ہی کسی شیر نے دہاڑ لگائی۔ میں مارے خوف کے رونے لگا ۔ بوڑھا بندر ڈانٹ کر بولا "خاموش ہو جاؤ اور کسی شاخ پر دبک کر سو رہو ! ۔۔۔ اگر زیادہ شور مچایا تو شیر کے حوالے کر دونگا"
میں ڈر کر خاموش ہو گیا۔ رات بھر نیند تو کیا آتی خوف کے مارے ہولتا رہا اور چپکے چپکے روتا رہا ۔ صبح ہوئی تو پھر وہی جنگلی پھلوں اور پتوں کا ناشتہ کرنا پڑا۔ میں دن بھر سبھی بندروں کے آگے گڑگڑاتا رہا کہ مجھے اپنے گھر پہنچا دو مگر وہ میری حالت پر رحم کھانے کی بجائے ہنستے رہے۔
پھر کافی دن بیت گئے میں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا تھا جنگل کے ماحول اور آب وہوا کا بھی میں عادی ہو چلا تھا۔بندروں سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی لیکن پھر بھی گھر کی یاد آتی تو میں بے قرار ہو جاتا اور کسی شاخ پر بیٹھ کر رونے لگتا ایسے ہی ایک موقع پر میں ایک پیڑ پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا کہ بوڑھا بندر میرے پاس آ بیٹھا " کیا گھر کی یاد آرہی ہے؟" اس نے پوچھا میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ وہ بولا" سبھی کو اپنا گھر پیارا ہو تا ہے۔ یہ جنگل ہمارا گھر ہے اور ہمیں اس سے پیار ہے مگر انسان جنگلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔۔۔ ہمیں بے گھر کر رہے ہیں۔ جب سوکھا پڑتا ہے اور جنگل میں کھانے کو کچھ نہیں رہتا تو مجبوراً ہمیں شھروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ وہاں تم جیسے نٹ کھٹ بچے ہمیں تنگ کرتے ہیں"
"مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اور میں بہت شرمندہ ہوں" میں آنسو پونچھتا ہوا بولا
" سچ کہہ رہے ہو؟" بندر میری انکھوں میں جھانکتا ہوا بولا
"بالکل سچ ۔۔ " میں نادم لہجے میں بولا۔
" اگر یہ بات ہے تو تمہیں سزا دینے سے ہمارا مقصد حاصل ہو گیا۔ کیا تم گھر جانا چاہو گے؟" اس نے پوچھا
" سچ ؟؟!!" میں خوشی کے مارے اچھل پڑا ۔ مگر دوسرے ہی لمحے میری خوشی پر اوس پڑ گئی "اب تو میں بندر بن چکا ہوں ۔۔۔ میرے ماں باپ مجھے کس طرح پہچانیں گے؟" میں اداس لہجے میں بولا
"جس طرح ایک پھل کھا کر تم بندر بن گئے تھے اسی طرح ایک دوسرا پھل کھا کر تم انسان بن سکتے ہو" اس نے کہا اور خوشی سے میرے آنسو نکل پڑے۔ میں اس سے لپٹ گیا اور بولا "جلدی سے مجھے وہ پھل کھلا دو"
"ذرا صبر کرو" وہ ہنستا ہوا بولا اور چھلانگیں مارتا ہوا ایک جانب چل پڑا تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک عجیب وغریب بدنما سا پھل تھا ۔ "اسے کھا لو" وہ بولا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے پھل لیکر جیسے ہے اسے دانتوں سے کاٹا میرے حلق تک شدید تلخی پھیل گئی۔ میں نے اسے تھوک دینا چاہا ۔۔
" خبردار ۔۔۔! ۔۔ اسے مت تھوکنا ! پورا پھل کھا لو ۔۔۔ انسان بننے کے لیے تلخیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا ہے" وہ معنی خیز لہجے میں بولا ۔ اور پھر کسی نہ کسی طرح میں پورا پھل کھانے میں کامیاب ہو ہی گیا ۔۔۔ انسان جو بننا تھا !
کجھ دیر بعد میرے جسم پر کے بال غائب ہو چکے تھے دم بھی سکڑنے لگے تھی۔تھوڑی ہی دیر میں وہ بھی غائب ہو گئی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں دوبارہ انسان بن چکا تھا ! حلق میں پھیلی تلخی اب بھی محسوس ہو رہی تھی مگر دوبارہ انسان بننے کی خوشی اس پر غالب آ گئی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں عہد کیا کہ اب میں حقیقی معنوں میں انسان بننے کی کوشش کرونگا اور تمام بری عادتوں کو چھوڑ دونگا۔
پھر سب بندروں کے جلو میں میں اپنے گھر طرف چل پڑا۔
جیسے ہی میں گھر پہنچا امی نے دوڑ کر مجھے لپٹا لیا اور پیار کرنے لگیں۔ انکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، میں بھی زار و قطار رو رہا تھا۔ جب ابو نے مجھے دیکھا تو ان کا حال بھی امی سے مختلف نہ تھا۔
کافی دیر تک ہم تینوں آنسو بہاتے رہے۔ بندر جامن کے پیڑ پر بیٹھے یہ سب دیکھتے رہے ۔ انکی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ ابو جان نے جو بندروں کو دیکھا تو ڈنڈا لیکر انہیں مارنے بڑھے مگر میں نے انھیں روک لیا اور تمام واقعہ کہہ سنایا۔
اس واقعے کے بعد سے میں نے جانوروں کو ستانا چھوڑ دیا۔ بندر اکثر میرے گھر آتے تھے۔ ساتھ مزیدار جنگلی پھلوں کے تحفے بھی لاتے۔ میں بھی انکی خوب خاطر مدارت کرتا۔ وقت گذرتا رہا۔ اب بڑا ہوکر میں جانوروں کا ڈاکٹر بن گیا ہوں ۔ بندر اب بھی میرےگھر آتے ہیں ۔۔۔۔ کبھی اپنا علاج کروانے اور کبھی میرے ننھے منے بچوں شفاء زینب اور عبدالرحمن کے لئے ج جنگلی پھلوں کا تحفہ لے کر ۔۔۔!
ختم شد
“