بھائی وسیم خان! تم کس ہوا میں تھے؟
تم بھول گئے تھے کہ یہ ملک، ملکِ پاکستان ہے! یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں۔ یہاں قانون کی نہیں، شخصیات کی حکمرانی ہے! یہاں آئین کی کتاب نہیں چلتی۔ یہاں ایک ہی کتاب کارفرما ہے جسے چیک بک کہتے ہیں!
تم کیا سمجھتے تھے کہ جس شہر کی امارت تمہیں سونپی گئی، اُس کی فلاح مقصود تھی؟ نہیں! یہاں مقصود فلاح و بہبود نہیں! یہاں امیرِ شہر کا کام ہے اپنی امارت کی حفاظت! اور حفاظت تب ممکن ہے جب اثر و رسوخ والے عمائدین سے بنا کر رکھی جائے! ہاں اگر پائوں کسی کی دم پر نہ آئے تو شہریوں کی فلاح و بہبود ہوتی رہے! مگر بھائی وسیم خان، یہ ممکن نہیں کہ کسی کی دُم پر پیر آئے اور چیخ و پکار نہ ہو اور بچائو بچائو کی چیخیں بلند نہ ہوں۔
ناجائز تجاوزات ہٹانے اور گرانے کی یہ مہم جو تم نے پاکستان کے ایک قصبے میں شروع کی اور پھر دیانت داری اور حسنِ نیت سے چلائی، اگر کسی مغربی ملک کے قصبے میں چلاتے، اگر آسٹریلیا، جاپان یا سنگاپور میں چلاتے تو حکومت تمہاری پشت پر ہوتی۔ حکمران تمہیں شاباش دیتے، جب تک تم یہ مہم کامیابی سے ختم نہ کر لیتے، تمہیں اس ملک کا وزیر اعظم، اُس ملک کا صدر بھی نہ ہٹا سکتا! مگر وسیم خان، یہ جاپان ہے نہ آسٹریلیا! سنگاپور ہے نہ فرانس نہ جرمنی! یہ تو ترکی اور ملائیشیا بھی نہیں! یہ تو یو اے ای تک نہیں۔ یہ پاکستان ہے! یہاں وہی ہونا تھا جو ہوا! ٹیلی فون کھڑکے، ’’ملاقاتیں‘‘ ہوئیں، اور ’’مسائل‘‘ ’’پیدا‘‘ کرنے والے والیٔ شہر کو یوں ہٹا دیا گیا جیسے مکھن سے بال!
تجاوزات! تم نے تجاوزات ختم کرنے کی کوشش کی؟ یہاں اگر تم جیسے حکام کو کام کرنے دیا جاتا تو یہ ملک تجاوزات کی لعنت سے کب کا پاک نہ ہو چکا ہوتا؟ پورا ملک تجاوزات کی لعنت میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ جس شہر جس قصبے جس بازار جس شاہراہ کو دیکھیں، تجاوزات سے اٹی ہوئی ہے۔ فٹ پاتھوں پر قبضہ ہے، سرکاری سڑکیں، جو عوام کی ملکیت ہیں، کھوکھوں، ریڑھیوں، سٹالوں سے بھری پڑی ہیں۔ چلنے کا راستہ ہے نہ گاڑی چلانے کا۔ غلاظتوں کے سمندر ہیں اور کثافتوں کے انبار! ریڑھی والا دکاندار کو رشوت دے کر اس کی دکان کے سامنے کاروبار کر رہا ہے۔ دکاندار، متعلقہ محکمے کو رشوت دیئے جا رہا ہے۔ ورکشاپیں سڑکوں پر کام کر رہی ہیں، فروخت کی جانے والی اشیا فٹ پاتھوں پر سجی ہیں، مکانات گلیوں کو کھا رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں قبضہ گروپ سرگرم کار ہیں۔ سرکاری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ ریلوے کی ہزاروں ایکڑ زمین طاقت ور جبڑوں کی نذر ہو گئی! اگر اس ملک کی پانچ غلیظ ترین لعنتوں کی فہرست بنائی جائے تو تجاوزات کی لعنت ان پانچ لعنتوں میں ضرور شمار ہو گی۔
کیریئر شروع کرتے وقت تم نے جو خواب بُنے تھے، انہیں اُدھیڑ دو! یہ ملک خوابوں کی نہیں، سرابوں کی جنت ہے۔ اس ملک کا کیا کہنا، یہاں سابق وزیر اعظم پیشانی پر ندامت کا ایک قطرہ لائے بغیر کہہ سکتا ہے کہ اپنے دورِ اقتدار میں نئے صوبے بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر کچھ دوست آڑے آ گئے۔ لیکن ’’نئے صوبوں کا حامی ہوں‘‘! جس ملک کو ایسے حکمران ملیں جو ملک کے بجائے دوستوں سے وفاداریاں نبھائیں اور اہم فیصلوں کو اس لیے کھائی میں پھینک دیں کہ دوست آڑے آ رہے ہیں، اُس ملک کی سیاہ بختی ثابت کرنے کے لیے کسی ریسرچ کی ضرورت ہے؟ یہ فخریہ اعتراف کسی ایسے ملک میں کیا جاتا جہاں جمہوریت اور پارلیمنٹ کا حقیقی راج ہے، تو ایسا اعتراف کرنے والے پر مجرمانہ کردار کا مقدمہ چلتا اور عبرت ناک سزا ملتی!
اس ملک کا کیا ہی کہنا! جس میں ’’مڈل کلاس‘‘ پارٹی کے رہنما پوری دنیا میں اللے تللے کرتے پھرتے ہیں۔ مڈل کلاس پارٹی؟ مائی فٹ! پارٹی کے رہنما قربانی کی کھالیں اوڑھے امریکہ میں ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں اور دبئی میں ہیں۔ ایک نہیں دو نہیں! چھ چھ آٹھ آٹھ رہنما، بیرون ملک مڈل کلاس مڈل کلاس کرتے پھر رہے ہیں اور چندے اور بھتے دینے والی غریب قوم کے غم میں ساحلوں، سیرگاہوں، شاپنگ مالوں اور گراں ترین اپارٹمنٹوں میں بیٹھ کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔
اس ملک میں یہی نہیں طے ہو رہا کہ بیرون ملک سفارت خانوں میں ملکی تجارت کی نمائندگی کون کرے گا! ’’کامرس اینڈ ٹریڈ‘‘ کی سروس بنائی گئی۔ اس کا کام کامرس اینڈ ٹریڈ کی دیکھ بھال تھا۔ مگر یہاں تو پچھلے ساٹھ سال سے بیرون ملک تعیناتیاں چاچوں، ماموئوں، بھانجوںاور بھتیجوں کی ہو رہی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اگر ایئر پورٹ پر حکمران اعلیٰ کا استقبال کر رہا ہے تو بیرون ملک کمرشل کونسلر بھی وہی بنے گا! کامرس اینڈ ٹریڈ میں بیس بیس سال ملازمت کرنے والے افسر، جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے صرف اسی شعبے کے لیے مختص کیے جاتے ہیں، باہر نہیں بھیجے جاتے۔ اِس ’’میرٹ نوازی‘‘ کا نتیجہ ملکی تجارت کا زوال ہے۔ دو برس سے چاول برآمد کرنے والوں کی ایسوسی ایشن ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ سعودی عرب جا کر چاول کی برآمد میں اضافے کی کوشش کرے۔ سعودی عرب کی وسیع و عریض منڈی میں پاکستانی چاول کا حصہ صرف دس فی صد ہے۔ ہمسایہ ملک پاکستانی چاول خرید کر، اپنا ٹھپہ لگا کر اپنے نام سے برآمد کر رہا ہے اس لیے کہ جس اعلیٰ کوالٹی کا چاول پاکستان میں پیدا ہو رہا ہے، اُس کا ہمسایہ ملک میں تصور بھی ناممکن ہے۔ مگر ایسوسی ایشن کو سعودی عرب کا ویزا ہی نہیں مل رہا۔ برآمدکنندگان کی ایسوسی ایشن اب کہتی ہے کہ جب تک کمرشل اتاشی کو تبدیل نہیں کیا جاتا یہ لوگ سعودی عرب کا دورہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کریں گے۔ یہ ایک طرح کا بائیکاٹ ہوا۔ یہ نہیں معلوم کہ ویزا نہ ملنے میں کمرشل اتاشی کا کتنا قصور ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اتنی کوشش نہ کی ہو جتنی کرنی چاہیے تھی۔ یہی حال آسٹریلیا میں
ہے۔ ایسوسی ایشن کو شکوہ ہے کہ ہمارا ہائی کمیشن تعاون نہیں کر رہا۔ چاول برآمد کرنے والوں کی ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ سوئی کمرے میں گم ہوئی ہے تو برآمدے میں نہ ڈھونڈے! مطالبہ حکومت سے یہ کرے کہ کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ کے افسر جو تجارت کے کام کے ماہر ہیں اور اسی میدان کے لیے بھرتی کیے گئے، تربیت دی گئی، انہیں کمرشل اتاشی مقرر کیا جائے۔ ضلعی انتظامیہ کے افسر لائق ہوں گے مگر لگان اور مالیہ کا کام کریں۔ وہ زمانے گئے جب یہ امرت دھارا ہر بیماری میں استعمال ہوتا تھا۔
بات وسیم خان کی ہو رہی تھی۔ اس افسر نے تلہ گنگ کو خوبصورت کرنے کا عہد کیا تھا۔ تجاوزات کو گرانے کی مہم چلائی۔ مگر بڑے آدمیوں کے رشتہ دار متاثر ہوئے۔ کسی کا ہوٹل گرا، کسی کا سٹور راستے میں پڑا۔ نوجوان عزمِ صمیم رکھتا تھا۔ مگر یہاں عزم کی ضرورت ہے نہ قانون کا راستہ صاف کرنے والوں کی، جس ملک میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اُن نام نہاد مذہبی رہنمائوں کے سامنے ڈھیر ہو جائیں جنہیں عوام کی اکثریت نے کبھی ووٹ ہی نہیں دیا اور ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر عوامی نمائندوں کے پاس کیے ہوئے حقوق نسواں کے بل پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں وہاں ناجائز تجاوزات گرانے والے افسر کا دفاع کون کرے گا! اس قبیل کے نوجوانوں کے لیے دوہی راستے ہیں۔ ملک چھوڑ جائیں یا نمک کی کان میں نمک ہو کر رہیں۔ ورنہ بارش کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں کہ بقول ظفرؔ اقبال ؎
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“