جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
ہم یہ شعر سیاسی حوالوں سے اکثر سوشل میڈیا پر سنتے رہتے ہیں لیکن بطور مجموعی یہ شعر جتنا آجکل کے حالات پر صادق آتا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں رہا
کورونا کے باعث دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے سب کو ہی معلوم ہے۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو ہم اس دنیا میں رہ رہے ہیں جس سے ہم آج تک انجان تھے- یہ وہ دنیا ہی نہیں جو آج سے دو مہینے پہلے تھی ہم اس وقت ایک نئی دنیا میں رہ رہے ہیں- وہ طریقہ کار جو آج سے دو مہینے پہلے نارمل تھے اب ممنوعہ ہوچکے ہیں
وہ کام جو زندگی کی ضرورتیں سمجھے جاتے تھے وہ اب جرائم میں شمار ہوتے ہیں-اور فوری سزائیں دی جاتی ہیں
اور اس بات کا ادراک جتنا جلدی لوگوں کو ہوجائے اتنا ہی سروائیول کا چانس بڑھ جائے گا
ایسا کیوں ہے؟
ایسا اس لئے ہیکہ دنیا ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا کررہی ہے، کل کے Norms آج کے Odds بن چکے ہیں
دنیا صرف یک جہتی سوچ پر گزارا کر رہی ہے کہ کورونا کی ویکسین بنے گی اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا فی الحال صرف لاک ڈاون پر گزارا کیا جائے
یہ ایک امید ہے، ہونی بھی چاہئیے
زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے یہی مناسب بھی ہے لیکن سوچیں کہ اگر آگے آنے والے معاملات ہماری سوچ کے مطابق وقوع پزیر نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟
کورونا جیسے بائیو وائرس وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی ہئیت اور شکل بدلتے رہتے رہتے ہیں
اس بات کی کیا ضمانت ہیکہ جب تک ویکسین تیار ہوگی تب تک کورونا کی ہئیت اور شکل بھی یہی رہے گی اور بدلے گی نہیں
اس سب کے ساتھ ساتھ پوری دنیا اس وقت لاک ڈاون کی حالت میں ہے، صورتحال یہ ہیکہ اکثریت کاروبار زندگی بند کرکے بیٹھی ہے اس طرح سے ہم نے صرف اپنا ایکسپوژر کورونا سے کم کیا ہے، ہمارا موت سے فاصلہ تھوڑا سا بڑھ ضرور گیا ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
ہم ایک تیزی سے اپنی طرف آتی ہوئِ موت کو غچہ دے کر ایک سائیڈ پر ضرور ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف ایک اور موت سست روی سے ہماری طرف بڑھتی ہوئی آرہی ہے- بھوک افلاس کی موت–
دنیا کی ساری ریاستیں اپنی عوام کے زور بازو پر پل رہی ہوتی ہیں دنیا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جو مہینوں اپنی عوام کو بٹھا کر کھلاسکے۔ اگر مہینے دو مہینے یہ لاک ڈاون کا سلسہ چلتا رہا تو آنے والے حالات کورونا سے زیادہ سنگین ہونے جا رہے ہیں۔ جس میں کورونا سے زیادہ اموات ہونے کا خدشہ ہے، انارکی, سول وار بھی قرین از قیاس نہیں
کیا کیا جانا چاہئیے؟؟
یک جہتی سوچ کے بجائے اس وقت ضرورت اس بات کی ہیکہ سوچ کو ایک دائرے سے نکال کر دائرے سے باہر سوچا جائے
ذیل میں کچھ گزارشات ہیں جن پر آج نہیں تو کل دنیا کو ضرور سوچنا پڑے گا اور جتنا جلدی سوچ لیا جائے سروائیول اتنا ہی آسان ہوجائے گا
سب سے پہلے تمام کاموں کی فہرست بنا لیں مثلا
خرید و فروخت
فنی مہارت کے کام
آمد و رفت کے کام
صنعت و حرفت
تعلیم و تدریس
شعبہ انصاف
بینکنگ
خرید و فروخت
بہت سارے کاروبار زندگی ایسے ہیں جن کے لئے دکان یا دفتر کھولنا ضروری نہیں۔ ان کاموں کی فہرست بنائی جائے مثلا درزی، قصائی، مٹھائی فروس، فروٹ، سبزی،، گوشت، دودھ، پرچون، فارمیسی وغیرہ
ان کاموں کیلئے ای کامرس کا سہارا لیا جائے اور گھر سے بیٹھ کر چلایا جائے۔ ہوم ڈیلیوری کی جائے ممکنہ احتیاطی تدابیر کیساتھ–
یاد رکھیں کہ دنیا کے سب سے بڑے سپر اسٹورز eBay، ایمیزون، علی بابا کھربوں کا بزنس کررہے ہیں اور اسکے باوجود انکی کوئی دکان کوئِ آوٹلیٹ نہیں ہے۔ یہ سارے طریقے دنیا کو جلد از سیکھنے پڑینگے
حکومتوں کو چاہئیے کہ چھوٹے پیمانے پر تاجروں کی ٹریننگ کی جائے ای کامرس پر
فنی مہارت کے کام
لوہار، ویلڈر، بڑھئی، مستری، سول ورکر، پینٹر، پلمبر، مکینک، نائی، یہ وہ کام ہیں جو گھر میں رہ کر انجام نہیں دئیے جاسکتے لیکن ان کاموں کیلئے ایک پروٹوکول بنانا پڑے گا جس سے سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل درآمد کیا جاسکے–
آمد و رفت کے کام
یہ وہ شعبہ ہے جس میں لوگوں کا باہر نکلنا ناگزیر ہوگا لیکن کچھ قوانین بنا کر اس میں بھی کورونا کا سدباب کیا جاسکتا ہے مثلا
ٹیکسی میں ایک مقررہ تعداد سے زیادہ سواریاں نہ ہوں
بسوں میں دو سیٹوں کے بیچ میں گیپ ہو
بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشن پر اس طرح سے شیڈیول ترتیب دیا جائے کہ ایک وقت میں صرف ایک بس یا ٹرین موجود ہو- اکثر سفر کے زرائع دن کے وقت چلتے ہیں ان بسوں اور ٹرینوں کے شیڈیول کو چوبیس گھنٹوں پر محیط کردیا جائے
ائِرپورٹ پر ایک وقت میں ایک فلائٹ آپریٹ ہو اور سیٹوں کے بیچ گیپ رکھا جائے
فلائٹس کا شیڈیول اس طرح ترتیب دیا جائے کہ امیگریشن کی لمبی لمبی لائنیں نہ لگانی پڑیں
صنعت و حرفت
صنعت ہر ملک کی معیشت کی سب سے مظبوط کڑی ہوتی ہے- اس شعبے میں ایسے قوانین لاگو کئے جائیں کہ سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل درآمد ہوسکے
-ISO کی باڈی کو نئے ریگولیش لانے پڑینگے اور جو کمپنی اس پر عمل درآمد کرسکے صرف وہی کام کرنے کی مجاز ہو- دن میں آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بجائے کام کا دورانیہ بڑھا کر چوبیس گھنٹے کردیا جائے- تاکہ ایک وقت میں کم لوگ موجود ہوں–
تعلیم و تدریس
عام حالات میں طالب علم ایک ہی کمرے میں کثیر تعداد میں بیٹھتے ہیں، کلاس روم کے بجائے ای لرننگ/ورچوئل لرننگ کی طرف جایا جائے- مزید اس میں ہم “وی آر” ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لے سکتے ہیں جس میں بچہ وی آر لینس لگا کر کلاس روم کے ماحول میں تعلیم حاصل کرسکے
شعبہ انصاف
ویسے تو یہ شعبہ کام ہی نہیں کررہا لیکن اگر اس شعبے کا چلانا بھی ہے تو عدالت میں جو اہم شخصیات ہوتی ہیں ان میں جج، دو وکیل، ملزم، گواہان کے علاوہ باقی کی بارات پر پابندی ہو- اور لمیٹڈ ٹائم میں کیس کے فیصلے کئے جائیں تاکہ کم مدت میں فیصلہ کرکے لوگوں کو ایکسپوژر سے بچایا جاسکے
بینکنگ
بینکنگ وہ شعبہ ہے جس کے بغیر دنیا کی معیشت کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا لیکن اس شعبے میں بھی ای بینکنگ پر مزید جایا جائے تاکہ لوگوں کو بینک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور بینکرز جتنا ممکن ہوسکے گھر بیٹھ کر کام کریں۔
ہمارا دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا جبکہ ہمارے بزنس کے اوقات آٹھ سے دس گھنٹے کے جس میں ساری دنیا ایک ساتھ ہی کام کررہی ہوتی ہے- صبح نو سے سات کے دوران ساری دنیا ایک ساتھ کام کرے اسکے بجائے دن کے کام کے اوقات کو چوبیس گھنٹوں پر پھیلا دیا جائے جس سے ایک وقت میں ورک لوڈ اور عوام کی موجودگی 66% تک کم ہوجائے گی۔
یہ سارے کام شاید ہمیں عجیب لگیں لیکن ایک بات یاد رکھنی پڑے گی کہ ہمارا سروائیول اسی میں ہیکہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کئے جائیں اور اس سب میں سب لوگوں کو مل کر کام کرنا ہوگا کوئِ حکامت اکیلے یہ سب نہیں کرسکتی جب تک عوام اسکے ہم آہنگ نہ ہو–
یہ صرف گزارشات ہیں۔
نظام زندگی کو ایک چھوٹے سے بلاگ میں سمیٹا نہیں جاسکتا، یہ صرف مشورے ہیں اس ناچیز کے لیکن ہمارے پاس اچھی سوچ کے حامل بے شمار لوگ ہیں ایک تھنک ٹینک بنایا جائے جو اس سارے پراسیس کو مزید ریفائن کرسکے–
کورونا ایک طرف تو بہت بڑی آفت بن کر آیا ہے دوسری طرف اسکا مثبت پہلو یہ بھی ہیکہ اس نے بنی نوع انسان کو احساس دلا دیا ہیکہ اسلحہ اور جنگی سازوسامان پر کی جانے والی صدیوں کی سرمایہ کاری کے بجائے اہل زمیں کو صحت تعلیم اور مظبوط نظام زندگی بنانے پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے تھی
اس وقت دنیا میں 12000 ایٹم بم موجود ہیں لیکن ایک جراثیم سے نمٹنے کا ساز و سامان نہیں ہے۔
دنیا کو اپنی ترجیحات بدلنی ہونگی کیونکہ
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے