کے ٹو اور قیدی
میانوالی سینڑل جیل میں بارکوں کے علاوہ دو کمرے تھے ، ایک’بھٹو کمرہ ‘ اور دوسرا ’محض کمرہ‘ ۔۔ بھٹو کمرہ جیل کی ڈیوڑھی کے نزدیک تھا اور اُس کا فرش پختہ تھا ۔ جنرل ایوب خان کے آخری برسوں میں ذوالفقار علی بھٹو اُس کمرے میں رہے تھے، بعد میں اُسی کمرہ میں شیخ مجیب الرحمن بھی رہے۔ محض کمرے میں ہم سے پہلے نواب اکبر بگٹی اور مختار رانا رہ چکے تھے اور جیل کے عملہ کے مطابق جو پودا مختار رانا نے وہاں لگایا تھا، ہم نے اُسے پانی دے کر اور بڑا کر دیا اور وہ تھوڑی بہتچھاٗوں بھی دینے لگا تھا۔ وہ 1970 کا موسم سرما تھا۔ محض کمرہ میں جنرل یحیی خان کی فوجی عدالتوں کی طرف سے سزا پانے والے ہم پانچ سیاسی قیدی تھے۔ کیمپ جیل لاہور میں قیدیوں اور حوالاتیوں کی اُس وقت تک سب لمبی بھوک ہڑتال کرانے کے بعد امان اللہ خان اور مجھے خطرناک قیدی ڈیکلئر کیا جا چکا تھا اور ہمیں سوائے گھر والوں کے کوئی اور نہیں مل سکتا تھا۔ ہم جیل میں دوسرے قیدیوں سے بھی میل جول نہیں رکھ سکتے تھے۔ ہمارے علاوہ محض کمرہ میں پیپلز پارٹی سرگودھا کے دو نو عمر کارکن تھے جن میں سے نصیرمعذور تھا اوروہ لاٹھی کے سہارے چلتا تھا اورایک پنجاب یونیورسٹی کا اسلامی جمعیت طلبہ کا کارکن تھا۔ محض کمرہ کے پانچ قیدیوں میں، میں اور امان اللہ خان ہی سگریٹ پیتے تھے ۔ ملاقاتوں پر پابندی کے نتیجے میں جب سگریٹوں کا کوٹہ کم ہو گیا تو ہم نے فیصلہ کیا جب طلب بہت بڑھ جائے تو کے ٹو کا ایک سگریٹ نکال کر اُس کے درمیان پنسل سے نشان لگا لیا جائے اور آدھا آدھا پی لیا جائے۔ ایک بار جب سگریٹ پینے کی میری باری پہلے تھی تو میں نے نشان کے قریب ایک لمبا کَش لگا لیا اور امان اللہ خان کا ذرا سا حصہ بھی پی گیا۔ اُس زیادتی پر امان اللہ خان نے اتنا لمبا احتجاج کیا کہ سگریٹ جل کر قریب قریب ختم ہو گیا اور اُس کے حصے میں ایک آدھ کَش ہی آیا۔ اس المناک واقعہ کے دو دن بعد ہی میرے گجرات کے بچپن کے دوست سرل وکٹر عرف اُستاد شیلا نے پانچ سو روپے رشوت دے کر جیل میں مجھ سے غیر قانونی ملاقات کی اور بہت سے سامان کے ساتھ گولڈ لیف کے کئی ڈبے بھی لایا۔ اُس کے بعد ہمارا سٹیس بدل گیا اور محض کمرے میں پھر کبھی کسی کو سگریٹ کے کَش پرلڑتے نہ دیکھا گیا!
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10211696389344566&id=1212492776
“