فلمی دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نہ صرف فلمی دنیا کی تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیا ہے، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی نئی راہیں ہموار کر گئے ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں نے بہت کم کام کیا مگر کام کے معیار کو ہمیشہ مدِنظر رکھا… اور یہی وجہ ہے کہ برسوں بعد بھی ہم انہیں نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ ان کا نام بھی عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔
ایسے لوگوں میں ایک نام مشہور فلمساز وہدایتکار کمال امروہی کا ہے، جنہوں نے اپنی تمام عمر میں صرف چار فلمیں بنائیں اور لگ بھگ آدھی صدی تک ہندوستانی سینما پر چھائے رہے۔
اسی طرح دوسرا نام کے۔ آصف کا ہے، جنہوں نے اپنی تمام زندگی میں صرف تین فلمیں بنائیں، مگر جب جب ہندوستانی سینما کی تاریخ لکھی جائے گی، کے۔ آصف کے ذکر کے بغیر فلمی مورخ کا قلم آگے نہ بڑھ سکے گا۔
کے۔ آصف کا پورا نام عبدالکریم آصف تھا اور وہ کم عمری میں ہی لاہور سے بمبئی آکر اپنے ماموں فلمساز نذیر کے پاس رہنے لگے تھے۔ نذیر خود فلموں میں اداکاری کرنے آئے تھے مگر کامیابی نہ ملنے پر وہ خود فلمساز بن گئے تھے۔ ان کی پہلی فلم ’’سندیسہ‘‘ تھی۔ نذیر نے دوسری فلم ’’سوسائٹی‘‘ کے نام سے بنائی اور اپنے بھانجے کے۔ آصف کو لاہور سے بمبئی بلا کر نہ صرف اپنے ساتھ رکھا بلکہ فلم سے متعلق تمام کام بھی سکھانے لگے۔ خود کے۔آصف بالکل بھی پڑھے لکھے نہ تھے مگر کام سیکھنے کا جوش اور جذبہ اُن میں زبردست تھا۔
فلمساز نذیر اُن دنوں رنجیت فلم اسٹوڈیوز کے بالکل سامنے والے احاطے میں بنے ایک پورے فلیٹ میں رہتے تھے اور اسی میں ان کی قائم کی ہوئی ہند پکچرس کا دفتر بھی تھا، جس میں کے۔ آصف کا قیام تھا۔ ان ہی دنوں نذیر کا معاشقہ اداکارہ رقاصہ ستارہ دیوی کے ساتھ بہت مشہور ہو چکا تھا۔ ایک بار دونوں میں کسی بات کو لے کر اَن بَن ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ ستارہ دیوی نے کے۔ آصف کے ساتھ دہلی میں تبدیلی مذہب کے بعد شادی کر لی ہے اور ان کا نیا نام کے۔ آصف نے نکاح کے وقت اللہ رکھی رکھا ہے۔
یہ کے۔ آصف کی پہلی شادی تھی۔ دہلی کے قیام کے دوران ہی انہوں نے جگت سینما اینڈ ڈسٹری بیوٹرز کے مالک لالہ جگت نارائن جی سے ملاقات کی اور ان کو ایک فلم فائننس کرنے کے لئے رضامند کر لیا۔ اس طرح بمبئی واپس آتے ہی انہوں نے فلم ’’پھول‘‘ بنانے کا اعلان کر دیا۔ ایک دن کے۔ آصف اردو کے مشہور ادیب سعادت حسن منٹو کے گھر پہنچے اور ان سے ایک فلمی کہانی پر مشورہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ سعادت حسن منٹو نے مذاق میں کہہ دیا کہ میں کہانی سننے کی فیس لیا کرتا ہوں۔ کے۔آصف واپس چلے گئے اور اپنے کسی خاص آدمی کے ذریعہ انہوں نے پانچ سو روپے اور ایک پرچی سعادت حسن منٹو کے پاس بھجوا دی۔ پرچی پر لکھا تھا… ’’فیس حاضر ہے، اب میں کل آئوںگا۔‘‘
اگلے دن کے۔ آصف فلم ’’پھول‘‘ کی کہانی لے کر سعادت حسن منٹو کے گھر پہنچے اور کہانی پر مشورہ کیا، مگر سعادت حسن منٹو کو کہانی پسند نہیں آئی۔
کے۔ آصف اپنی دھن کے پکے انسان تھے، لہٰذا انہوں نے ’’پھول‘‘ نام سے فلم بنائی جو ناکام ہو گئی۔
کے۔ آصف کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ تعلیم نہ ہونے کے باوجود وہ بہت ذہین تھے اور نہ صرف جسمانی طور پر ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے بلکہ ان کے ارادے بھی بہت مضبوط ہوتے تھے۔ جب وہ فلم کی کہانی سناتے تھے تو ہر سین بڑے ڈرامائی انداز میں، پورے کمرے میں گھوم گھوم کر کہانی سناتے تھے۔ سین کے مطابق اتار چڑھائو کے ساتھ وہ خود بھی اترتے چڑھتے رہتے تھے۔ کبھی صوفے کے اوپر، کبھی فرش پر، کبھی کرسی پر اُکڑوں بیٹھ کر وہ اِس انداز میں کہانی سناتے تھے کہ سننے والا پوری طرح متاثر ہو جاتا تھا۔
ستارہ دیوی سے ان کی شادی زیادہ دن قائم نہ رہ سکی اور پھر لاہور کے ہی ایک خاندان میں ان کی دوسری شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ باجے گاجے کے ساتھ خوب دعوتیں ہوئیں اور دلہن بمبئی آگئی۔ پالی ہل پر کے۔ آصف کے ماموں نذیر کی ایک کوٹھی بھی تھی جس کا آدھا حصّہ انہوں نے کے۔ آصف کو دے دیا تھا۔ یہیں رہ کر انہوں نے ہندوستان کی عظیم فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کی کہانی سیّد امیر حیدر کمال امروہی سے لکھوائی۔ کمال امروہی اُن دنوں اپنی لکھی کہانی ’’جیلر‘‘ اور ’’پکار‘‘ کی کامیابی سے کافی مشہور ہو چکے تھے۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کے۔ آصف نے اپنی مشہور زمانہ فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کی کہانی سب سے پہلے کمال امروہی سے ہی لکھوائی تھی، اور یہ وہی کہانی تھی جس پر ’’انارکلی‘‘ کے نام سے کمال امروہی خود ایک فلم بنانا چاہتے تھے۔ انارکلی کے کردار کے لیے انہوں نے میناکماری کو پسند کیا تھا۔ مگر چند وجوہات کی بنا پر کمال امروہی یہ فلم ’’انارکلی‘‘ نہیں بنا سکے۔ حالانکہ اس فلم کے مناظر کو سنوارنے اور مکالموں کو بھاری بھرکم بنانے میں کمال امروہی نے سب سے زیادہ محنت کی تھی۔
فلم ’’پکار‘‘ میں لکھے گئے کمال امروہی کے مکالمے بے حد مقبول ہوئے تھے اور ساتھ ہی مغل سلاطین کے جاہ وجلال کا جو نقشہ کمال امروہی نے پیش کیا تھا، اس سے پہلے کسی بھی تاریخی فلم میں ایسا جاہ وجلال نہ تھا۔ لہٰذا کمال امروہی کی دھاک پوری فلم انڈسٹری پر قائم ہو چکی تھی۔ مگر کے۔ آصف ’’مغل اعظم‘‘ کی کہانی سے مطمئن نہیں تھے۔ ان پر ایک اعظیم الشان فلم بنانے کی دھن سوار ہو چکی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اس وقت کے کئی بہترین کہانی نویسوں کو اکھٹا کیا اور خود بھی رات دن کی محنت سے فلم کی کہانی کی تمام تر باریکیوں پر غور وخوص کیا۔ اس کے لئے انہوں نے کمال امروہی کے علاوہ مرزا امان، وجاہت مرزا چنگیزی اور احسن رضوی کی خدمات حاصل کیں اور ایک زبردست ڈرامائی کہانی فلم ’’مغل اعظم‘‘ تیار کی گئی۔
انہی دنوں کے۔ آصف کی لاہور والی شادی بھی ناکام ہو گئی اور دلہن واپس لاہور چلی گئی۔ اب کے۔ آصف صبح وشام صرف ’’مغل اعظم‘‘ کے بارے میں ہی سوچتے رہتے تھے۔ بہت سے رد و بدل کے بعد فلم کے مرکزی کردار اکبر اعظم کے لئے انہوں نے پرتھوی راج کپور کا انتخاب کیا گیا۔ شہزادہ سلیم کے کردار کو دلیپ کمار کے سپرد کیا اور انارکلی کے انتہائی جذباتی کردار کے لئے مدھوبالا کو چُنا۔ اس فلم کی موسیقی موسیقار اعظم نوشادؔ کو سونپی گئی۔ نغمہ نگاری کے لئے شکیل بدایونی کا انتخاب کیا گیا۔ کے۔ آصف کے دل میں اس فلم کو بنانے کی آرزو ۱۹۴۵ء سے ہی پنپ رہی تھی مگر بے پناہ تیاریوں کے بعد ۱۹۵۲ء میں اس فلم کو بنانے کا کام شروع کیا گیا۔ سوا کروڈ روپے کی لاگت اور پندرہ برس کی سخت محنت کے بعد ۱۹۶۰ء میں اس فلم کو ریلیز کیا گیا۔ اس فلم کے ساتھ ہندوستانی سینما کی کئی تاریخی یادگاریں وابستہ ہو گئیں۔ اس تاریخی فلم کے ایک سو پچاس پرنٹ پورے ہندستان میں ایک ساتھ ریلیز کئے گئے۔ عام طور پر فلم کی شوٹنگ ایک یا دو کیمروں سے کی جاتی ہے۔ مگر اس فلم کے جنگی مناظر کی شوٹنگ میں چودہ کیمرے ایک ساتھ استعمال ہوئے۔ ہندوستانی فوج کے دو ہزار اونٹوں، چار ہزار گھوڑوں اور آٹھ ہزار فوجی جوانوں نے اس فلم کی شوٹنگ میں پہلی بار حصّہ لیا۔
ایک سو پچاس فٹ لمبا، اسّی فٹ چوڑا اور ۳۵؍ فٹ اونچا ایک شیش محل تیار کیا گیا، جو اس فلم کا خاص حصّہ تھا اور جس کی شوٹنگ ٹیکنی کلر فلم پر کی گئی تھی۔ اس سیٹ پر اس زمانے میں پندرہ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ جبکہ پوری فلم اُس وقت اِس سے کہیں کم خرچ میں بن جایا کرتی تھی۔ اتر پردیش کے فیروزآباد سے بلائے گئے درجنوں کاریگروں نے لگ بھگ ایک برس میں یہ سیٹ مکمل کیا تھا۔
فلم ’’مغل اعظم‘‘ کی نمائش کے تین سال بعد تک کے۔ آصف اسٹوڈیو میں شیش محل کے سیٹ کی نمائش لگی رہی اور ہندوستان کے علاوہ غیر ممالک سے بھی لوگ اسے دیکھنے آتے رہے۔ جن میں ہالی وڈ کے مشہور فلمساز وہدایتکار ڈیوڈ لین بھی ایک تھے۔ شیش محل میں جو گانا مدھوبالا پر فلمایا گیا تھا، جس کے بول تھے… ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘، اس گانے کو شکیل بدایونی نے ایک سو پانچ بار لگاتار محنت کرکے لکھا تھا، تب موسیقار نوشاد مطمئن ہوئے تھے۔ بعد میں یہی گانا دُنیا بھر میں ریڈیو سے سب سے زیادہ بار نشر ہونے والا نغمہ بنا اور سب سے زیادہ مقبول بھی ہوا۔
مدھوبالا کے قیدخانے والے تمام مناظر میں اُن کو لوہے کی اصلی اور بھاری بھرکم زنجیریں پہنائی گئی تھیں، جن کے بوجھ سے وہ بے حد نڈھال ہو جایا کرتی تھیں اور بعد میں مستقل بیمار رہنے لگی تھیں۔
شہزادہ سلیم کی آمد پر جب کنیز مہارانی جودھا بائی کو خبر دیتی ہے تو مہارانی کی طرف سے موتی لٹائے جانے کے منظر میں آصف صاحب نے اصلی موتی استعمال کیے تھے جو موتیوں کے کئی ویاپاریوں سے اکٹھا کرکے کرایے پر لائے گئے تھے۔
سلیم کی پیدائش کی دُعا کرانے کے لیے جب اکبر اعظم آگرہ سے فتح پور سیکری پیدل ننگے پائوں جاتا ہے تو اصل میں گرم ریت پر ننگے پائوں شوٹنگ میں حصہ لینے سے پرتھوی راج کپور کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔
ممبئی کے مراٹھا مندر سنیما پر ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’’مغل اعظم‘‘ ہی تھی اور پورے سنیما کی بلڈنگ کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ انڈسٹری کی تمام نامور ہستیاں فلم دیکھنے کے لیے بڑے اشتیاق اور گرم جوشی سے مراٹھا مندر پہنچے تھے اور فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے تمام پرنٹ ایک ایک سجے ہوئے ہاتھی پر رکھ کر لیباریٹری سے مراٹھا مندر تک بینڈ باجے کے ساتھ لائے گئے تھے۔
دہلی کے گولچہ سنیما میں بھی سب سے پہلے فلم ’’مغل اعظم‘‘ کی نمائش ہوئی تھی اور ٹکٹ کے لیے لوگ ایک دن پہلے ہی قطاروں میں لگ گئے تھے۔ یہاں تک کہ کئی لوگ لائن میں رات گزارنے کے لیے گھر سے بستر تک لائے تھے۔
اُستاد بڑے غلام علی خاں نے پہلی بار میں اس فلم میں ایک راگ گانے کے لیے بڑی حقارت سے انکار کر دیا تھا۔ مگر جب نوشاد علی خود آصف صاحب کے ساتھ چیک بک لے کر پہنچے تو انہوں نے اتنی زیادہ رقم بتا دی کہ آصف شاید ادا نہیں کر پائیں گے۔ مگر آصف صاحب بھی بڑے ضدی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے بڑے غلام علی خاں صاحب کی ڈیمانڈ پر بتائے ہوئے پچیس ہزار روپے کا چیک بنایا اور بولے… ’’خان صاحب… میری فلم میں راگ تو آپ ہی گائیں گے۔‘‘
اس عظیم فلم کے اداکاروں، پرتھوی راج کپور اور دلیپ کمار کی وِگیں لندن سے تیار ہوکر آئی تھیں۔
فلم کی ریلیز کے بعد پاکستانی شائقین کو صرف فلم ’’مغل اعظم‘‘ دیکھنے کے لئے ایک دن کا اسپیشل ویژا دئے گئے تھے، جو ایک تاریخی حقیقت ہے۔
فلم ’’مغل اعظم‘‘ کا ایک منظر، جو آصف صاحب نے فلم میں شامل نہیں کیا، کمال امروہی کو بہت پسند تھا اور فلم میں اس منظر کو شامل نہ کئے جانے کا دُکھ بھی تھا۔ اُنہیں کے الفاظ میں …
فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کا ایک جملہ، جو میں نے لکھا تھا اور مجھے بہت پسند تھا، مگر بدقسمتی سے وہ فلم میں نہیں آیا۔ نہ معلوم کیوں آصف صاحب نے اس کا استعمال نہیں کیا۔ وہ سین کچھ اس طرح تھا…
سلیم ایک شہزادہ تھا اور انارکلی ایک کنیز تھی۔ ایک رات سلیم کو نیند نہیں آتی اور اُسی بیقراری کے عالم میں وہ اپنے بستر سے اُٹھ جاتا ہے اور دُرجن سنگھ سے کہتا ہے کہ میں ابھی انارکلی سے ملنے اس کے حجرے میں جا رہا ہوں، جہاں وہ اس وقت موجود ہے۔ دُرجن سنگھ بہت منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنے بڑے ہندوستان کا شہزادہ کنیزوں اور غلاموں کے گھر جائے گا، یہ مناسب نہیں ہے۔ کل جب یہ بات اکبر اعظم کو معلوم ہوگی تو کتنا افسوس ہوگا۔ سلیم کیوںکہ بڑا ہی ضدّی اور ہٹھیلا تھا، اس لئے نہیں مانتا اور دُرجن سنگھ کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
سلیم کمند ڈال کر اُوپر اٹاری میں پہنچ جاتا ہے۔ نیچے دُرجن سنگھ پہرہ دے رہا ہے۔ سلیم نے دیکھا کہ شمع کی روشنی میں انارکلی سو رہی ہے اور شاید خواب میں سہم رہی ہے اور اس لئے سہم رہی ہے کہ شاید وہ خواب میں شہزادے کو ہی دیکھ رہی ہے اور ساتھ ہی کچھ سمٹ بھی رہی ہے۔ نہ جانے خواب میں کیا ہوا کہ گھبراکر اس کی آنکھ کھُل گئی اور اس نے دیکھا کہ شہزادہ خود اُس پر جھکا ہوا اُسے غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس کو یقین نہیں آیا اور وہ سمجھتی رہی کہ یہ شاید خواب ہی ہے اور میں جاگ نہیں رہی ہوں۔
تب اچانک سلیم اس سے کہتا ہے کہ تُم جاگ اُٹھی ہو اور یہ خواب نہیں ہے۔ میں حقیقت میں تمہارے قریب موجود ہوں۔ تب وہ گھبرا کر اُٹھ جاتی ہے اور سوال کرتی ہے۔’’آپ یہاں کیسے آگئے؟ اس وقت اگر آپ کو یہاں دیکھ لیا گیا تو مجھ پر بڑی مصیبت نازل ہوگی۔‘‘
سلیم کہتاہے۔ ’’یہ تو رات کا وقت ہے اور اس اندھیرے میں مجھے یا تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ انارکلی کہتی ہے۔ ’’عالم پناہ کی نگاہیں پتّھر کی دیواروں میں دراڑیں ڈال کر دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
یہ سُن کر شہزادہ غصہ میں آجاتا ہے اور انارکلی کو بستر سے اُٹھا لیتا ہے، کہتا ہے۔ ’’کیا تو ہر وقت اکبر آعظم سے سہمتی رہے گی؟ ابھی تک تجھے یہ معلوم نہیں کہ کون تجھ سے محبت کرتا ہے… آ… آج میں تجھے اپنا تعارف کرائوں… وہ صرف اکبر اعظم ہیں اور میں اکبر اعظم کے ماتھے پر پڑا ہوا وہ نشان ہوں جو شیخ سلیم چشتی کی درگاہ کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑتے رگڑتے پیدا ہوا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انارکلی کو بستر پر پٹخ دیتا ہے اور اس کے حجرے سے باہر نکل آتا ہے۔‘‘
فلم ’’مغل اعظم‘‘ جب بن کر اور ایڈٹ ہوکر تیارہوئی تو آصف صاحب نے ایک ٹرائل شو کا انتظام کیا اور اُس میں فلم سے متعلق تمام لوگوں کے علاوہ چند دوستوں اور صحافیوں کو بھی بُلایا گیا۔ تمام لوگوں نے بڑی توجہ کے ساتھ فلم دیکھی اور شو ختم ہونے پر بڑی گرم جوشی سے آصف صاحب کو مبارکباد دی اور تعریفوں کے خوب پُل باندھے…… مگر کمال امروہی خاموش تھے۔ آصف صاحب نے کمال امروہی سے پوچھا کہ آپ کو یہ فلم کیسی لگی؟
کمال امروہی بولے کہ آپ کی یہ فلم فلاپ ہو جائے گی۔
آصف صاحب کو بڑا تعجب ہوا اور افسوس کے ساتھ غصہ بھی آیا۔ مگر بڑے تحمل سے پوچھا۔ ’’کیوں…؟‘‘
کمال امروہی بولے۔ ’’میرے معاوضے کے علاوہ پچیس ہزار روپے لے کر گھر تشریف لائیے۔ تب بتائوں گا کہ کیوں فلاپ ہو جائے گی اور کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔‘‘
اگلے دن صبح رقم لے کر آصف صاحب کمال امروہی کے گھر پہنچے اور تپاک سے بولے۔ ’’اب بتائیے۔‘‘
کمال امروہی نے کہا۔ ’’آپ کی فلم کا سبجیکٹ ہے مغل اعظم… یعنی اکبر اعظم… اور پوری فلم اُسی کردار کے اِرد گرد گھومتی ہے۔ سلیم انار کلی کی کہانی تو ضمنی ہے۔ مگر آپ نے پوری فلم میں شروع سے آخر تک اکبر اعظم کو ہی ولین بناکر پیش کیا ہے……‘‘
یاد رہے کہ اُس وقت تک یہ فلم انارکلی کے دیوار میں چنوائے جانے اور سلیم کے اُس دیوار سے سر ٹکرا ٹکراکر بے ہوش ہونے جانے تک ہی تھی۔
کمال امروہی نے کہا۔ ’’ہمارے یہاں ولین کے مرکزی کردار والی فلمیں پسند نہیں کی جاتیں۔‘‘ آصف صاحب بولے کہ اب کیا ہوگا…؟ کمال امروہی نے کہا کہ میں آپ کو ایک سین لکھ کر دوں گا جو فلم کے آخر میں آپ کو لگانا ہے، تاکہ آخر میں فلم بین اچھا تاثر لے کر سنیما ہال سے باہر نکلیں۔ تب یہ فلم ہٹ ہو جائے گی… اور کمال امروہی نے پھر وہ سین لکھ کر دیا جس میں اکبر اعظم خود انارکلی کو سرنگ کے راستے سلطنت سے باہر نکال دیتا ہے اور وہاں ایک تاریخی مکالمہ بھی ادا کرتا ہے کہ … ’’باخدا ہم محبت کے دشمن نہیں، اپنے اصولوں کے غلام ہیں۔‘‘
اس منظر کے ساتھ ہی تمام فلم بینوں کی ہمدردیاں اکبر اعظم کے ساتھ ہو جاتی ہیں اور وہ صرف اِسی منظر کی وجہ سے فلم کا ہیرو بن جاتا ہے۔
سینسر بورڈ میں پوری فلم جس طرح پیش کی گئی تھی، ویسے ہی پاس کردی گئی۔ ایک بھی سین اس فلم کا کاٹا نہیں گیا… اور یہ سب کچھ ممکن ہوا تھا جناب کے۔ آصف کے اعلیٰ دماغ اور بے حد محنت کی وجہ سے۔ پوری دنیا میں کے۔ آصف کی دھاک بیٹھ گئی تھی اور وہ ایک دھانسو ہدایتکار کے طور پر مشہور ہو گئے۔
فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے ساتھ ہی کے۔ آصف کی زندگی میں ایک اور حسین موڑ آیا۔ اپنی ہی فلم میں بہار کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ نگار سلطانہ سے انہوں نے شادی کر لی، جن سے ان کے تین بچے بھی پیدا ہوئے مگر اِس کے ساتھ ہی انہوں نے دلیپ کمار کی بہن اختر سے بھی شادی کر لی۔ اختر اور نگار سلطانہ کافی عرصہ تک ساتھ ساتھ ہی رہیں۔
فلم ’’مغل اعظم‘‘ نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے تھے اور کے۔ آصف نہ صرف ایک کامیاب، بلکہ ذہین ہدایتکار کے طور پر اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ اس فلم کو صدر جمہوریہ کا بہترین فلم کا ایوارڈ ملا۔ فلم فیئر نے تین ایوارڈ، بہترین فلم، بہترین فوٹوگرافی اور بہترین کہانی و مکالمے کے لئے دیے تھے۔ اب کے۔ آصف کے سامنے ایک مشکل یہ آن کھڑی ہوئی کہ اتنی عظیم الشان فلم بنانے کے بعد وہ کوئی چھوٹی موٹی فلم بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
کے۔ آصف نے ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ کی کہانی پر ایک عظیم الشان فلم بنانے کے بارے میں سوچا اور اس کا نام رکھا ’’محبت اور خدا‘‘۔ حالانکہ اس موضوع پر پہلے بھی کئی بار فلمیں بن چکی تھیں مگر کے۔ آصف کے سوچنے کا انداز ہی الگ تھا۔ انہوں نے اس فلم کو اتنے بڑے پیمانے پر سوچا جس کا تصور بھی کوئی دوسرا فلمساز نہیں کر سکتا تھا۔ لیلیٰ کے کردار کے لئے انہوں نے اداکارہ نمّی کا انتخاب کیا اور مجنوں کے لئے سنجیو کمار کو سائن کیا۔
راجستھان کے دور دراز تک پھیلے ہوئے ریگستان پر بڑے بڑے سیٹ لگائے گئے۔ بڑے قیمتی کاسٹیوم تیار کئے گئے اور بہت ہی دھوم دھام سے اس فلم کی شوٹنگ اور پبلیسٹی کی جانے لگی۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ابھی فلم کی ساٹھ فیصد شوٹنگ ہی ہو پائی تھی کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے کے۔ آصف کا انتقال ہو گیا اور ان کا عظیم الشان خواب ’’محبت اور خدا‘‘ ان کی حیات میں شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ حالانکہ بعد میں ہدایتکار ایم۔ صادق اور دوسرے دوستوں نے کوشش کر کے اس فلم کو مکمل کرایا اور نمائش کے لئے پیش بھی کیا۔ مگر یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی اور اس کے ساتھ ہی دھانسو فلموں کے خالق کا لقب پانے والے کے۔ آصف کی کہانی بھی ختم ہو گئی۔
حالانکہ انہوں نے اپنی تمام زندگی میں صرف تین ہی فلمیں بنائیں۔ مگر اُن کی ایک ہی فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ میل کا پتھر ثابت ہوئی، جس کو ہندوستانی سینما کی تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔
“