جسٹس فار زینب۔۔۔حقیقت پسندانہ جذباتی تبصرہ
قصور کے ایک بے نام گھر کی معصوم بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ،اور اس کے بعد درندے نے اس معصوم پھول کو قتل کرکے کچڑے میں پھینک دیا ۔یہ ایک بھیانک ترین سانحہ ہے ،پورا ملک اس واقعے کے بعد تڑپ اٹھا ہے ۔قوم کا اس طرح تڑپنا ،بیقرار ہونا اور پھر احتجاج کرنا اور جذبات کا اظہار کرنا کوئی منفی یا غلط بات نہیں ،یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت اب بھی اس ملک میں موجود ہے ۔ہم بطور قوم آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے قتل عام کے بعد بھی تڑپ اٹھے تھے ،اسی طرح اسی شہر قصور میں تین سو بچوں کی جنسی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد بھی تڑپ اٹھے تھے۔لیکن کیا صرف احتجاج اور وقت جذباتی پن ہی کافی ہے ؟یہ وہ سوال ہے جس پر بطور قوم ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔زینب بے قصور تھی ،نہتی کمزور تھی ،درندے نے اسے خوفناک انداز میں مار ڈالا ۔اچھی بات ہے کہ زینب کا نام ہر شہری کی زبان پر ہے ۔اسی شہر قصور میں کچھ عرصہ پہلے زینب کی طرح بارہ بچیوں کے ساتھ ریپ کیا گیا اور پھر ان بچیوں کو بیہیمانہ انداز میں قتل کردیا گیا ۔ایمان فاطمہ ،فوزیہ ،نور فاطمہ ،ثناٗ عصمہ ،لائبا یہ وہ بچیاں ہیں جن کا ریپ کیا گیا اور اس کے بعد ان کا قتل عام کیا گیا ،ان میں سے کچھ بچیوں کی لاشیں کچڑے کے ڈھیر سے ملی ،اور کچھ معصوم پھولوں کی لاشیں زیر تعمیر عمارتوں سے ملی۔ان تمام بارہ بچیو ں کا قتل عام قصور کے دو کلومیٹر کے علاقے میں ہوا تھا ،زینب تیرھویں بچی ہے ۔پولییس نے کیا کیا؟کیا پولیس صرٖف حکمرانوں اور ان کے بچوں کی حفاظت کے لئے ہے ؟کیا پولیس کا زورصرف بے بسوں اور کمزوروں کے لئے ہے ،برداشت کی ایک حد ہوتی ہے ،جب قصور کے عوام کی برداشت حد ختم ہو گئی تو وہ مظاہرین بنکر سڑکوں پر آگئے ۔لوگوں نے تو پھٹنا تھا ۔وہ پھٹ پڑے ۔خوف حراس کب تک ،کب تک ان کے بچے جنسی درندگی کا شکار ہو کر مرتے رہیں ۔کیا پولیس کا یہی کام تھا کہ وہ سیدھی فائرنگ کردیں اور مظاہرین کو ہی قتل کردیں۔پولیس نے فیض آباد دھڑنے میں تو فائرنگ نہیں کی تھی ،پھر قصور کے عوام پر فائرنگ کیوں کی گئی ؟معصوم بچیوں کا ریپ کرنے والے دہشت گرد ہیں ،پولیس کب ان کے خلاف کاروائی کرے گی ؟پولیس نے دو اس کے بدلے دو مظاہرین کو مارڈالا۔خادم اعلی پنجاب شہباز شریف نے ٹویٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایکشن ضرور ہوگا ؟فرمایا پولیس کے ساتھ ان کی میٹنگ ہوئی ہے ،ان کو وارننگ دی گئی ہے کہ اس بار زبانی جمع خرچ نہیں چلے گا ،محترم خادم اعلی پنجاب صاحب 2015 میں آج سے دو سال پہلے جب بچوں کا جنسی اسکینڈل سامنے آیا تھا ،تب بھی آپ نے یہی فرمایا تھا کہ اس بار ایکشن ضرور ہوگا ۔،ایک سال میں قصور میں بارہ بچیوں کی لاشیں کچڑے کے ڈھیر سے ملی اور وہ بھی دو کلومیٹر کے علاقے میں ،آپ بے حس کیوں رہے ؟اب پولیس یہ کہہ رہی ہے جس درندے نے زینب کا ریپ کرکے اسے قتل کیا ہے ،وہ بچیوں کا سیریل کلر ہے ۔بارہ بچیاں مر گئیں ،تیرھویں زینب بھی چل گئی ،اور پولیس کو اب معلوم ہوا ہے کہ درندہ سیریل کلر ہے ۔وزیر قانون رانا ثنااللہ نے تو بے حسی کی مثال قائم کردی ،زینب کے قتل پر ردعمل دیتے ہوا کہا یہ آخری واردات ہوئی ہے ،ان مجرم گرفت میں ہوں گے نواز شریف صاحب نے بھی دو ہزار پندرہ کے بچوں کے قصور جنسی اسکینڈل پر یہی کہا تھا مجرموں کو سخت سزا دی جائے گی؟ایکشن لیا جارہا ہے ،وہ ایکشن لیا جاتا تو زینب کا اس طرح ریپ نہ ہوتا اور نہ ہی وہ قتل ہوتی ۔صرف ڈی پی او زوالفقار احمد کو ہٹانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔نیشنل کمیشن فار ہیومن رائیٹس کے مطابق ننکانہ صاحب ،شیخوپورہ اور قصور یہ وہ علاقے ہیں جہاں پاکستان میں سب سے زیادہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کرکے ان کا قتل کردیا جاتا ہے ،پنجاب حکومت نے آج تک اس حوالے سے پالیسی کیوں نہیں بنائی ؟گزشتہ سال ایک سو گیارہ بچوں اور بچیوں کے ساتھ ان علاقوں میں ریپ کے کیسز سامنے آئے ،کیا کوئی مجرم پکڑا گیا ؟کیا کسی کو سزا ہوئی ؟رانا صاحب نے فرمایا ہے کہ زینب کا قتل افسوسناک حادثہ ہے لیکن ان کے مخالفین اس قتل کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں ۔سیاسی رنگ اس لئے دیا جارہا ہے کہ 2015 قصور جنسی اسکینڈل کے ساتھ اس واقعے کو لنک کیا جارہا ہے ،تین سو بچوں اور بچیوں کی جنسی ویڈیوز کا کیس بھی سیاسی تھا ۔قصور کے حسین خان والا گاوں میں پچھلے پانچ سالوں سے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے ان کی ویڈیوز بنائی جارہی تھی ،قصور کا مقامی ایم پی ائے ملک احمد سعید ان درندوں کو رہا کروانے میں لگا رہا جنہوں نے تین سو بچوں بچیوں کی جنسی ویڈیوز بنائی تھی ۔،کیونکہ یہ ہوا ہے اور ہورہا ہے ،اسی وجہ سے سیاسی رنگ دیا جارہا ہے ۔ملک احمد سعید کا چچا ملک رشید خان ہے ،یہ مسلم لیگ ن کا ایم این ائے ہے اور وزیر اعلی پنجاب کا مشیر ہے ۔رانا ثنا نے اس وقت دو ہزار پندرہ میں فرمایا تھا کہ قصور جنسی اسکینڈل بڑا واقعہ نہیں ہے ،اگر وہ یہ نہ کہتے تو آج زینب کا ریپ اور قتل نہ ہوتا ،اسی وجہ سے اس کیس کو بھی سیاسی رنگ خود بخود مل رہا ہے ۔یہاں کا سسٹم تباہ ہو گیا ہے ،انصاف اور قانون کا نظام برباد ہے ،اسی وجہ سے زینب جیسی معصوم بچیاں درندگی کا نشانہ بنکر قتل ہورہی ہیں ۔کسی بچی کا اس دردناک انداز میں قتل ہوگا تو زمہ دار حاکم وقت ہی ہے ،اسی کا گریبان پکڑا جائے گا ۔بنیادی بات یہ ہے کہ قصور کیس میں سیاسی مداخلت سو فیصد تھی ۔رانا ثنا یہ بھی فرماتا ہے کہ کیسے والدین ہیں جو بچی کو چھوڑ کر عمرہ کرنے چلے گئے ،کیا اب یہ دلیل کہ والدین کی وجہ سے ان کی بچی کا ریپ اور قتل ہوا ہے ،کوئی دلیل ہے ،یہ رانا صاحب کی زہنی پستی کا منظر ہے ،وہ زہنی مریضوں جسی گفتگو کررہے ہیں ۔اسلام سے پہلے زمانہ جہالت میں لوگ بچیوں کے پیدا ہوتے ہی انہیں زمین میں گاڑھ دیتے تھے ،اب ان کا ریپ کرکے قتل کردیا جاتا ہے جو اس سے بھی بھیانک ترین ہے ،کیا یہ ہے انسانیت ؟ عوام ریاست اور حکمران ہم سب قصور وار ہیں ۔قانون کہاں کھڑا ہے ؟کیوں ان درندوں کو نہیں پکڑتا ؟پورا نظام ہی گند ہے ،اسی لئے پھول جیسے بچے اور بچیاں مسلی جارہی ہیں ۔میڈیا کی بے غیرتی کی انتہا ملاحظہ فرمایئے ،ایک تو زینب مر گئی ،ایک اس کے والد سے میڈیائی رپورٹر یہ سوال کررہا ہے ،زینب میں کیا اچھی عادات تھی؟ایک بہت بڑے نیوز چینل کے بیک گراونڈ میں بچیوں کے چیخنے کی آوازیں چلائی گئیں ؟یہ کیا ہے ؟اس ملک میں ہر روز لاکھوں بچوں اور بچیوں پر جنسی تشدد ہوتا ہے ،کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی میڈیا اس طرح کے ایشوز پر توجہ دیتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ بطور ریاست ،بطور شہری ہم اپنے بچوں کو کس طرح محفوظ کرسکتے ہیں ۔بچے اور بچیاں جب بڑی ہونے لگتی ہیں تو ان میں جسمانی تبدیلیاں آتیں ہیں ،،جب ان کا پڑھنے میں دل نہ لگے ،جب وہ ٹھیک طرح سے کھانا نہ کھائیں ،والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ ان سے بات کریں ،ان سے پوچھیں کیا مسئلہ ہے ؟اس میں شرمانے کی کوئی بات نہیں ۔والدین ٹیچرز بچوں اور بچیوں کے احساسات کو محسوس کریں ،کمیونیکیشن گیپ کو ختم کریں ،والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ بچوں سے بات کریں ،ان کے مسائل سمجھیں ،انہیں وقت دیں اور دوریاں ختم کریں ۔یہ معصوم سے پھول جیسے بچے کبھی کبھار اشاروں میں بھی بات کرتے ہیں ،انہیں محسوس کریں ،ان پر بھروسہ کریں ،بچوں کا والدین اور والدین کا ٹیچرز کے ساتھ گیپ ختم ہوگا تو یہ مسائل حل ہوں گے ،لیکن والدین جنسی موضوع سے بات کرنے سے کتراتے ہیں ،ٹیچرز کو یہ ٹریننگ ہی نہیں دی جاتی کہ وہ جنسی ایشو پر کیسے بچوں کے ساتھ بات کرسکتے ہیں ۔یہ سب کچھ بچوں کی نصاب کی کتابوں میں ہونا چاہیئے ۔اس ملک میں کروڑوں خاندان ایسے ہیں جو خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ،ان کے بچے کام پر جاتے ہیں ،گیراج پر ،ہوٹل میں اور دوسری جگہوں پر کام کرتے ہیں ،جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں ،لیکن والدین کو فکر ہی نہیں ہوتی ،فکر ہوتی ہے تو ان کی کمائی کی؟والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے کس دنیا میں ہیں ؟اور کیسے انہیں بچانا ہے ؟ٹیچرز اور والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کی گفتگو کریں ۔ پاکستان میں زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ جنسی بدسلوکی میں اجنبی ملوث ہوتے ہیں ،اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سنسان اور اجنبی جگہوں پر ایسا کرتے ہیں ۔حقیقت میں بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جن پر ماں باپ آنکھ بند کرکے بھروسہ کر لیتے ہیں ۔رشتہ دار پڑوسی ،ملازمین ،ٹیچرز ،ٹیوشن سنرز اور اسکول وغیرہ میں یہ لوگ ہو سکتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنسی بدسلوکی کرنے والوں میں 7فیصد اجنبی ہوتے ہیں ۔49 فیصد رشتہ دار اور 43 فیصد قریبی جاننے والے یا پڑوسی ہوتے ہیں ۔یہ بھی غلط بات بتائی جاتی ہے کہ جنسی زیادتی کرنے والے زہنی مریض ہوتے ہیں ،یہ بچوں کو منصوبہ بندی سے حوس کا نشانہ بناتے ہیں ،یہ درندے ایسے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں ،جو ان کی باتوں میں آجائیں ،یہ بچوں کو لالچ دیتے ہیں ،بے تحاشا پیار کا اظہار کرتے ہیں ،بچوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں ،اس طرح بچے ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ۔اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کو جنسی بنیادی تعلیم دی جائے ،انہیں آگاہ کیا جائے کہ جنسی بدسلوکی کی کئی اشکال ہیں ،جیسے بچوں کے جنسی اعضاٗ کو دیکھنا یا چھونا ،یا انہیں اپنے مخصوص اعضاٗ دیکھانا ،یا انہیں فحش تصویریں یا ویڈیوز دیکھانا ،یا ان معصوم بچوں کی فحش تصاویر کھیچنا یا ویڈیوز بنایا ۔یہ سب کچھ جنسی بدسلوکی میں آتا ہے ،یہ تما م باتیں نصاب میں ہونی چاہیئے تاکہ بچوں کی جنسی تربیت ہوتی رہے اور وہ محفوظ رہیں ۔مدارس کے والدین کو بھی چاہیئے کو وہ اپنے بچوں سے تعلق بنائیں ،صرف مولوی پر آنکھ بند کرکے بھروسہ نہ کریں ۔کیونکہ مدارس سے بھی ایسی شکایات بہت زیادہ آرہی ہیں ۔حکومت کو چاہیئے کو وہ جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنائے ،یہ سب کچھ اسلامی تشخص کے خلاف نہیں ہے ۔ٹیچرز کو بھی تربیت دی جائے کہ وہ ہفتے میں ایک بار بچوں سے اس موضوع پر بات کریں ،انہیں آگاہی کے لئے ویڈئوز دیکھائیں ۔پاکستان میں اب اس موضوع پر بات کرنی ہوگی اور والدین کو اس طرف متوجہ کرنا ہوگا ،ورنہ زینب جیسے معصوم بچے درندوں کا نشانہ بنتے رہیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔