جسٹس فار یوسف سلیم
کچھ روز پہلے پاکستان کے معروف انگریزی اخبار دی نیوز میں انسویسٹیگیٹو رپورٹر عمر چیمہ صاحب کی ایک تحقیقی اسٹوری شائع ہوئی ۔۔۔دی نیوز کی یہ تحقیقاتی خبر بہت دلچسپ اور مختلف تھی ۔۔۔یہ خبر ایک نابینا نوجوان کے متعلق تھی ،جس کا نام یوسف سلیم صاحب ہے ۔۔۔یوسف سلیم صاحب کے والد چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں،یوسف چار بہنوں کے اکلوتے نابینا بھائی ہیں ،یوسف اور ان کی دو بہنیں نا بینا ہیں ،یوسف کی ایک بہن جن کا نام صائمہ سلیم ہیں ،وہ بھی نابینا ہیں ،صائمہ سلیم نے دو ہزار سات کے سی ایس ایس کے امتحان میں چھٹی پوزیشن حاصل کی تھی ۔۔پاکستان کی تاریخ میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے والی پہلی نابینا خاتون ہیں ۔۔۔صائمہ نے سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد محمکہ خارجہ کو جوائن کیا ،وہ جنیوا اور نیویارک میں پاکستانی محکمہ خارجہ کے مشن میں خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں ۔۔اس وقت سائمہ سلیم وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر اپنی زمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں ۔۔یوسف سلیم کی ایک اور بہن ہیں جو لاہور کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں ،اس وقت وہ پی ایچ ڈی مکمل کررہی ہیں ۔۔محترم یوسف سلیم صاحب حکومت پنجاب کے محکمے کنزیومر پروٹیکشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل آفیئر کے طور پر ایمانداری سے اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں ۔۔یوسف سلیم کا سب سے بڑا اور عظیم خواب اس وقت یہ ہے کہ وہ پاکستان کےچیف جسٹس بننا چاہتے ہیں ۔۔اس خواب کی جانب وہ گامزن ہیں ،یوسف سلیم نے دو ہزار چودہ میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور گولڈ میڈل ڈگری کے ساتھ حاصل کیا ۔۔۔ایک سال پہلے وہ سول جج کے امتحان کے لئے سامنےآئے ،اس امتحان میں تین سو امیدوار میدان میں تھے۔۔۔ان تین سو امیدواروں میں اکیس لا گریجوییٹ کامیاب ہوئے ،یوسف سلیم نے تحریری امتحان میں نمبر ون پوزیشن حاصل کی ۔۔۔اس کے بعد وہ انٹرویو پینل کے روبرو پیش ہوئے ۔۔انٹرویو پینل جو کچھ ججوں پر مشتمل تھا انہوں نے یوسف سلیم کو خبر دی کہ بیٹا آپ نے تحریری امتحان میں نمبر ون پوزیشن حاصل کی ہے ۔۔انٹرویو کے دوران انٹرویو پینل کا ایک ہی ایشو رہا ،وہ بار بار یوسف سلیم سے ایک ہی سوال کرتے رہے کہ اگر وہ جج بن بھی گئے تو کیسے سائلین کو انصاف فراہم کرسکیں گے ۔۔۔یوسف سے کہا گیا کہ وہ گواہ کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیسے کریں گے ،کیسے کیس اسٹڈی کریں گے کیونکہ وہ تو نابینا ہیں ؟یوسف سلیم انٹرویو پینل کو انٹرویو کے دوران یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ سائلین کو انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،کیس اسٹڈی کرسکتے ہیں کیونکہ بطور لیگل ڈائریکٹر بھی تو وہ یہ کام کررہے ہیں ،اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر کسی قسم کی مشکلات درپیش ہوئی تو وپ اپنے عملے سے رہنمائی اور ہیلپ بھی لے سکتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد انٹرویو ختم ہو گیا اور یوسف سلیم گھر چلے گئے ۔۔انہیں یقین تھا کہ اب وہ جج بن جائیں گے ۔۔۔۔اسی مہینے اٹھارہ اپریل کو کامیاب امیدواروں کی لسٹ شائع ہوئی اور بدقسمتی سے اس لسٹ میں یوسف صاحب کا نام نہیں تھا ۔۔۔تحریری امتحان میں نمبر ون پوزیشن لینے والے کا نام لسٹ میں نہ ہونا ،ایک المیہ تھا ۔۔۔۔انہیں جج کے لئے صرف اس وجہ سے نااہل قرار دیاگیا کہ وہ ایک نابینا ہیں ۔۔۔اس کے بعد یوسف سلیم نے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ،وہ مختلف چینلز پر اور اس بے انصافی کے خلاف بولے ۔۔۔۔چیف جسٹس سے انہوں نے اپیل کی کہ وہ ان کے کیس کا نوٹس لیں ،آخر کار گزشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار نے یوسف سلیم کے کیس کا نوٹس لیا اور لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو احکامات جاری کئے کہ یوسف سلیم کے کیس کو دوبارہ دیکھا جائے اور جلد از جلد انہیں انصاف دیا جائے ۔۔۔اس پر ہم سب پاکستانی چیف جسٹس ثاقب نثار کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ایک ٹیلنٹڈ نابینا نوجوان کی آواز سنی اور اسے انصاف کی فراہم کرنے کے لئے احکامات جاری کئے ۔۔۔میڈیا کو انٹرویو کے دوران یوسف سلیم کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق اقلیتی معذور کمیونٹی سے ہے ۔۔۔۔وہ یہ جنگ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ان تمام ٹیلنٹڈ نابینا نوجوانوں کے لئے لڑ رہےہیں جو جج بننا چاہتے ہیں ۔۔ان کا کہنا ہے کہ آئین پاکستان انہیں یہ حق دیتا ہے کہ ان کے بنیادی حق کو بحال کیا جائے اور عام شہری کی طرح ان کے ساتھ بھی برابری کی سطح پر سلوک کیا جائے ۔۔جو نوجوان بصیرت سے مزین افراد میں بیٹھ کر گولڈ میڈل لے سکتا ہے ،پہلی پوزیشن لے سکتا ہے ،وہ سائلین کو بھی انصاف فراہم کرسکتا ہے ۔۔یورپ اور امریکہ میں ایسے بہت سے افراد ہیں جو بینائی سے محروم ہیں ،لیکن جج کی زمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں ۔۔۔یوسف سلیم کے مطابق ستم ظریفی اور المیہ یہ ہے کہ برطانیہ میں پاکستان کا ایک نابینا شخص جج ہے ،لیکن پاکستان میں پاکستان کا نابینا شہری جو قابل بھی ہو ،جج نہیں بن سکتا ۔۔۔ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی تقریبا تمام ریاستوں میں ایک جج ایسا ہے جو آنکھوں کی بصیرت سے محروم ہے ،لیکن وہ جج ہے اور اپنی زمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے ۔۔اس کے علاوہ برطانیہ ،اسپین وغیرہ میں بھی بہت سے قابل نابینا جج کام کررہے ہیں ۔۔بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے یہاں پر بھی بہت سے ایسے افراد جو نابییا ہیں جج کے طور پر کام کررہے ہیں ۔۔۔بصارت سے محرومی بنیادی طور پر کوئی محرومی نہیں ہے ،بصیرت سے محرومی ہی اصل میں محروم ہے ،کاش ججوں کا وہ پینل جس نے یوسف سلیم کا انٹرویو لیا تھا ،وہ بصیرت سے مالا مال ہوتا ۔۔۔۔امید ہے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اس کیس پر خصوصی دلچسپی لیں گے اور یوسف سلیم کو انصاف فراہم کریں گے ۔۔چیف جسٹس نے نوٹس لیا ،اس پر ان کا شکریہ ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔