جنگل مجھے پناہ نہیں دیتا
———————————————————
اور ……..
اور وہ شہر میں آیا اور پہلے دن ہی وہ چھا گیا–
حلقہ ارباب ذوق,کا اجلاس تھا اور شہر کے ایک اہم شاعر نے اپنی غزل اجلاس میں پیش,کی غزل سننے کے بعد جیسے پی صاحب صدر نے اجلاس کے شرکا سے غزل پہ اظہار خیال کا کہا تو پچھلی نشستوں سے ایک آواز آئی
"" صاحب صدر غزل اپنے مضمون اور لہجے کے اعتبار سے انتہائی کمزور ترین غزل پے . حلقہ کی انتظامیہ کو چاپیے کہ حلقہ میں پیش کی جانے والی تخلیقات کو پہلے خود غور سے پڑھ لیا,کریں تاکہ اجلاس میں پیش کی جانے والی تخلیق کا ایک معیار برقرار رہے- سب نے گردنوں کو پیچھے کی طرف کیا تو دیکھا ایک دبلا پتلا سا لڑکا بنا وقفہ ڈالے غزل کے پرخچے اڑا رہا یے – وہ قدیم جدید شاعری کے حوالے دے ریا پے اور غزل کے ظاہری اور باطنی حسن پہ گفتگو کر ریا پے — جیسے پی اجلاس ختم پوا ہماری ٹولی نے اس کو گھیرے میں لے لیا – عالم خان مدت بعد کسی سے متاثر پوتا پوا نظر آیا ۔۔۔۔ انجم سلیمی راشد اقبال خالد جیلانی اس پہ سوالات پہ سوال کر رے ہیں پتا چلا نوجوان سکھر سے ڈاکڑ بننے کے لیے لائل پور میں پنجاب میڈیکل کالج کا طالب علم پے اور منصورہ آباد ,میں اپنے دادا کے گھر ریتا پے – اور اس کانام نسیم عادل ہے اگلے ہی اجلاس میں نسیم عادل نے پچھلی نشستوں سے اگلی نشست کا سفر طے کر لیا
ہمیں ہوٹلوں .کسیلی چائے . سگریٹ کے دهوائیں لفظوں شہر کی سڑکوں کا ایک اور ساتھی مل گیا . ہر کوئی نیا آنے والا پوچھتا نسیم نہیں ابھی آیا تو کوئی انہیں بتاتا نسیم عادل .مسعود قمر انجم سلیمی اور راشد اقبال کمپنی پاس گئے ہیں . جہاں پم چاروں باغ کی بارہ دری یا درختوں پہ چڑھ کے بیٹھے پوتے اور نظمیں لکھ رہے پوتے
وہاں الجاوید . الخیام محفل ہوٹل یا عاشق کے کافی ہاوس میں عالم خان کے ساتھ " آگ کا دریا " اپنے اندر سے نکالتے اور اس کے پہروں کے پیرے دہرائے جاتے " یہ گروپ متاثرین آگ کا دریا " تھا اسی لیے دریائی گروپ کہلاتا تھا جو اپنے اپنے دریا لیے اپنے اپنے صحرا میں بھٹک رہا تھا ایک دور تھا اس کا سربراہ عالم خان تھا پھر اس کے لاہور جانے کے بعد یہ عہدہ نسیم عادل کو مل گیا اور یم دسمبر میں آدھے بازو والی بنیان پہن کر شہر آنے لگے کہ قرآہ ایعین حیدر نے لکھ دیا تها,"" موسم انسان کے اندر پوتا پے ""
پم ہوتے کسیلی چائے کے کپ یوتے شاعری سیاست شہر کی سڑکیں اور آگ کا دریا پوتا – ہماری ٹولی میں اگر کوئی نیا آنے والا کسی سے پوچھتا " آپ کا نام کیا پے ؟ " تو وہ دهوائیں. کے مرغولے بناتا جواب دیتا " نام میں کیا رکھا پے " (کیونکہ شنکر نے گوتم کو یہی کہاتها) ایک قہقہہ بلند ہوتا, جس میں نیا آنے والا,بھی شامل پو جاتا اور کچھ ہفتوں بعد وہ بھی دهوائیں کے مرغولے بناتا کسی نئے آنے والے کو یہی جواب دے ریا پوتا —
اور پھر کچھ سال جیلوں میں مٹی ملی روٹی ڈیزل میں بنی دال کھانے گڑ کی چائے پینے اور ضیا الحقی تشدد اپنے اوپر کرانے کے بعد میں سویڈن چلا آیا
کبھی کبھار پاکستان کسی سے بات پوتی تو پتا چلتا نسیم بہت بیمار پے پھر پتا چلا وہ ڈاکڑ بن گیا پے اور لندن میں پے ایک دن پتا چلا وہ چنیوٹ میں کام کر ریا پے اور پھر پتا چلا وہ سب کو چهوڑ,کر لندن سے پاکستان آگیا پے
اور پھر ایک دن فیس,بک کے ان بکس کی روشنی سبز پوئی لکھا تھا "" باوا جی کتھے او"" نسیم عادل
تیس سال بعد سکائیپ پہ نسیم کی وہی آواز وہی انداز اور وہی سج دھج تھی یم دریائی سے سکائی یوگے تهے ہر دوسرے تیسرے دن نسیم ندی اور میں سکائیپ پہ گھنٹوں بیٹھے رہتے
اس سال پاکستان گیا تو لاہور جاکر میں نے نسیم کو فون کیا تو اس نے کہا آتا ہوں میں پاک ٹی پاس چلا گیا جہاں حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس پو رہا تھا نسیم آور ندی آئے تو نسیم نے کان میں کہا آج سے تیس سال پہلے لائلپور کے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں تم کو . الوداع کیا تھا اور آج تیس سال بعد تمہیں لاہور کے حلقە کے اجلاس,میں خوش آمدید کہہ رہا ہوں لہذا نکلوں یہاں سے
ہم نے پر کانٹی نیٹیل سے مشروب لیا اور نسیم کے گھر چلے پھر جتنے دن لا پور ریا پورا مہینہ ہر رات نسیم عادل ا و ر ندی کے ساتھ گزری جس میں چھ سات اور دوست بھی شامل پو جاتے ایک کمرے کا فلیٹ تھا مجھے اس,کمرے میں اور لائل کے ہوٹلوں کی نشستوں اور کمپنی باغ کے درختوں میں کوئی فرق,محسوس,نہ یوا, ہاں ایک فرق تھا اس وقت پم چائے پیتے تھے مگر اب پم نے مشروب بدل لیا تھا نہ اس وقت کھانا کھاتے تھے نہ اب کھاتے تهے — کبھی کبھار بهوک زیادہ تنگ کرتی تو سب مل کر کچھ بنا لیتے ندی فرائی پین میں دال بنا لیتی نسیم آٹا,گوندھ لیتا,میں روٹی بیل لیتا وہیں کھا کر وہیں کرسی صوفے اور پلنگ پہ سو جاتے
کل باسط میر کے ساتھ سٹاک پولم کے کلچر ہاوس, بیٹھا تھا حسین عابد کا میسج آیا
نسیم عادل گزر گیا……. ایسا,لگا سب کچھ ٹهہر گیا پے
آج ندی کو کال کی مگر نہ مجھ سے کچھ کہا گیا نہ وہ کچھ کہہ سکی . جیسے اب کچھ لکھا نہیں جا ریا — وہ سارے موسم ساتھ لے گیا .سگرٹوں کا دهواں . لائل شہر کی سڑکوں پہ ہمارےرے قدموں کی چاپ اور خاموش لگتا,قہقہہ سب کچھ لے گیا —-
ندی لوگ مصروف ہیں او تم اور میں تیز,تمباکو کے ساتھ تیز,پتی والی چائے پیتے پیں اور نسیم عادل کی تین نظمیں پڑھتے ہیں
مسعود قمر
محبت راکھ نہیں پوتی
—————————————–
تمہارے نام کی صداؤں کی مسافت نے
میرے ہونٹوں کے تلوں پر
چھالے ڈال دئیے ہیں
اور
زندگی کانٹے مستعار نہیں دیتی
تمہاری قربت اگر
آگ اور ایندھن کا
وصال بن بھی جائے
ساحلوں کی ہوا,
صحرا کی ریت پر نہیں چلتی
میری سوختہ ہڈیوں ,کی راکھ سے
ہوا.زمین اور سمندر کو آلودہ نہ کرنا
اس میں تمہاری محبت کا زیر بھرا پے
——————————————-
کشش ثقل
کیا,محبت قلعہ بنا سکتی پے
یا ایک پرندہ
یا سبز پتہ
محبت کشش,ثقل کی طرح پوتی پے
بے اختیار
جیسے فصیل سے گرتازخمی پرندہ
یا اسے دیکھ کر پاتال میں گرتا,مرا دل
مجھے سمندر کو اپنے اور اس کے درمیاں رکھنا یوگا
وہ اپنے سارے بال خشک پونے پی مر جاتی پے
کیا,محبت سمندر بنا سکتی پے
—————————————–
جنگل مجھے پناہ نہیں دیتا
درخت
نوزائیدہ پرندوں کی ماں پوتے ہیں
سمندر خشک یو جائے
تو
مچھلیاں پرندے بن جاتی ہیں
تمہارے پیار کا ساگر
سوکھ چکا پے
اور
جنگل مجھے پناہ نہیں دیتا
—————————————————–
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔