ماحولیاتی تباہی کے اس دور میں ایک رومانس بڑھ رہا ہے۔ یہ قدرت کے ساتھ کا رومانس ہے۔ ایسے علاقوں کا جن کو بالکل بھی چھیڑا نہ جائے۔ قدیم جنگل کٹ گئے ہیں۔ بہت ہی کم بچے ہیں۔ جہاں پر بھی جنگل کو محض معاشی فائدے کے لئے مینج کیا جاتا ہے، وہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ کچھ جگہوں پر پرانے جنگل برقرار رکھنے کا رومانس لوٹ رہا ہے۔ کینیڈا میں گریٹ بئیر فارسٹ ایک مثال ہے جس میں اب 8900 مربع میل پر پرانے درخت ہیں جو ایسے نایاب سفید بھالو کا بھی گھر ہے جو پولر بئیر نہیں۔ اکیسویں صدی سے ترقی یافتہ ممالک میں اس جنگ کا توازن بدلنا شروع ہو چکا ہے۔ جرمنی میں سیاستدانوں نے اس پر اتفاق کیا کہ پانچ فیصد جنگل کو مکمل طور پر اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا تا کہ وہ کل کے بوڑھے درخت بن سکیں۔
اس کو پراسس کی کنزرویشن کہا جاتا ہے۔ قدرت کو اس میں دلچسپی نہیں کہ ہم انسان کیا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنے حال پر چھوڑنے کا نتیجہ ویسا نہیں نکلتا جیسا کہ ہمارا خیال ہوتا ہے۔ قدرتی جنگل کو میچور حالت میں پہنچے ہوئے بھی وقت لگتا ہے۔ پہلی بار قدرت کے حوالے کئے گئے جنگل میں کیڑے آتے ہیں۔ بہت سے کیڑے جن کو روکنے والا کوئی نہیں۔ یہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے ہیں اور اپنے پیچھے ہر طرف دور دور تک مردہ درخت چھوڑ جاتے ہیں۔ اس پرمژدہ منظر کو دیکھنا بھلا نہیں لگتا۔ جو لوگ اس کے لئے تیار نہ ہوں، ان کیلئے یہ موت اور تباہی کے مناظر ہیں۔ باواریا کے قومی جنگل کا پچیس فیصد حصہ اسی طرح مردہ ہو گیا ہے۔ لیکن یہ مردہ تنے نئے جنگل کی زندگی ہیں۔ ان میں پانی ذخیرہ رہتا ہے جو گرمی کو کم کر دیتا ہے۔ یہ ہرنوں کے لئے رکاوٹ کا کام کرتے ہیں۔ اس طرح کی گئی حفاظت کی وجہ سے چھوٹی درختوں کو بغیر جانوروں کی خوراک بنے بڑھنے کا موقع مل جاتا ہے اور جب یہ گل سڑ جاتے ہیں تو مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔
ابھی جنگل بسا نہیں۔ نئے درختوں کے والدین نہیں جو اپنے بچوں کے بڑھنے کی رفتار پر قابو کریں، ان کو محفوظ رکھیں اور ایمرجنسی کی صورت میں ان تک شوگر پہنچائیں۔ کسی نئے بنے قدرتی جنگل میں درختوں کی پہلی نسل یتیم بچوں کی طرح بڑھتی ہے۔ اس کی عمر کم ہوتی ہے اور ایک مستحکم سوشل سٹرکچر آتے وقت لگتا ہے۔
پہلی نسل کے والدین اتنی زیادہ عمر نہیں رہتے لیکن دوسری نسل کو وہ تحفظ دے جاتے ہیں جو ان کو سست رفتار دیرپا زندگی گزارنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ ایک لمبا سفر ہے۔
جنگلوں کے بارے میں ایک اور عام غلط فہمی ہے کہ اگر ان کو بس پھیلنے دیا جائے تو ہر طرف جھاڑ جھنکار ہو گا۔ ایسے جنگل جو سو برس سے زیادہ کی عمر کے ہیں، وہاں پر معاملہ برعکس ہے۔ گہرے سائے کے سبب جنگلی پھولوں اور جھاڑیوں کو اگنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ درخت کا فرش سبز نہیں، بھورا ہوتا ہے جس میں گرنے والے پتوں کا نرم فرش ہوتا ہے۔ چھوٹے درخت بہت آہستہ اور بالکل سیدھے بڑھتے ہیں۔ ان کی شاخیں چھوٹی اور تنگ ہوتی ہیں۔ عمررسیدہ درختوں نے ان کو ڈھکا ہوتا ہے اور ان کے تنے آسمان سے باتیں کرتے ہیں جیسا کسی بڑے ہال میں لگے ستون۔ ان کے برعکس مصنوعی جنگلوں میں فرش تک پہنچنے والی روشنی کی سبب جھاڑ جھنکار ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم جانوروں اور انسانوں کے تعلق تاریخ دیکھیں تو بیسویں صدی کا دوسرا نصف اس حوالے سے بہت مثبت رہا ہے۔ جانوروں کے حقوق کی آگاہی اور ان کو بہتر بنانے میں بڑا کام ہوا ہے۔ مثلا، جرمنی میں 1990 میں قانون بنا کہ جانور کوئی شے نہیں۔ ان کے ساتھ ناروا برتاوٗ نہیں رکھا جا سکتا۔
یہ قابلِ تعریف ترقی ہے کیونکہ ہم دریافت کر رہے ہیں کہ جانور بھی جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ نہ صرف ممالیہ بلکہ ہر کوئی، پھلوں کی مکھیاں بھی۔ کیلے فورنیا میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ شاید یہ مکھیاں خواب بھی دیکھتی ہوں۔ مکھیوں سے ہمدردی؟ یہ ہضم نہیں ہوتا۔ درختوں کے ساتھ ایسی ہمدردی رکھنا تو اور کہیں زیادہ مشکل۔ بلکہ زیادہ تر لوگوں کے لئے یہ ماننا بھی مشکل ہے۔ بڑے پودوں کا دماغ نہیں۔ یہ آہستہ حرکت کرتے ہیں۔ ان کی زندگی، ان کی دلچسپیاں ہم سے مختلف ہیں۔ یہ اپنی روزمرہ زندگی ایک بڑی آہستہ رفتار پر بسر کرتے ہیں۔ اس لئے یہ حیران کن نہں کہ اگرچہ سکول کا بچہ بھی یہ سمجھتا ہے کہ درخت جاندار ہیں لیکن ان کو عام طور پر “شے” کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔درختوں اور جانوروں نے زندگی کی تاریخ میں ایک ہی جتنا سفر کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جانداروں کی وہ قسم ہیں جو اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں جبکہ جانور اس صلاحیت سے عاری ہیں اور ان کا انحصار درختوں کی محنت پر ہے۔
سردیوں میں جلتی لکڑی، ہاتھ میں پکڑی کتاب ،کسی درخت سے آئے تھے۔ اس کے لئے کسی قدآور درخت کو گرایا گیا تھا۔ اگر کوئی کہے کہ قتل کیا گیا تھا تو یہ غلط نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مرغی اور بریانی میں جو تعلق ہے، وہی درخت اور کتاب کا۔ بریانی کھانے کو کوئی غلط نہیں سمجھتا کیونکہ ظاہر ہے کہ ہم بھی اسی قدرت کا حصہ ہیں اور دوسری انواع سے حاصل کردہ نامیاتی مادوں کے بغیر خود زندہ نہں رہ سکتے۔ یہی قدرت کے چکر ہیں۔ لیکن بلاوجہ کسی جانور کو تنگ کرنے کو ہر کوئی ظلم ہی کہے گا۔ جس طرح ہمارا جانوروں سے رویہ ہے، ویسا ہی کچھ حق درختوں کا بھی ہے۔
اس کا مطلب یہ کہ درخت سے لکڑی حاصل کرنا اپنی جگہ لیکن ان کو زندہ رہنے کا حق بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان کو اپنی سوشل ضروریات پوری کرنے دی جا سکتی ہیں۔ ان کو اپنی اگلی نسلوں تک اپنا علم شئیر کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے اور ان کو وقار کے ساتھ بوڑھا ہونے اور مرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔
درخت اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزار سکیں، اس کے لئے پانچ سے دس فیصد علاقہ مختص کیا جا سکتا ہے جو مکمل طور پر پروٹیکٹ کیا جائے۔ (کچھ ممالک میں ایسا کیا جا چکا ہے)۔ حال میں درختوں کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ سوئٹرلینڈ میں آئین اب یہ کہتا ہے۔ “جانور، پودوں اور دوسرے جانداروں کی حفاظت کی جائے گی۔ یہ ان کی تخلیق کے وقار کا ہم پر فرض ہے”۔ جنگل صرف لکڑی کی فیکٹریاں نہیں۔
جب جنگلوں کو ٹھیک طرح بڑھنے کا موقع ملے تو یہ محض لکڑیوں سے زیادہ فائدہ بھی پہنچاتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کیا ہم نہیں چاہیں گے کہ ہماری اگلی نسلوں کو یہ موقع ملے کہ وہ ان درختوں کے سائے میں فطرت کا مشاہدہ کر سکیں؟ یہ ایکوسسٹم ہیں۔ دسیوں ہزاروں انواع سے بھری زندگی۔ ایک دوسرے سے منسلک۔ ایک دوسرے پر منحصر۔
یہ عالمی نیٹ ورک کس قدر اہم ہے، اس کیلئے جاپان سے ایک کہانی۔ کاٹسوہیکو ماٹسوناگا ایک میرین کیمسٹ ہیں انہیں نے دریافت کیا کہ درختوں سے جھڑنے والے پتے جو ندیوں اور دریاوٗں میں گرتے ہیں، یہ سمندر سے تیزابیت چوس لیتے ہیں جس کی وجہ سے پھر پلانکٹن کو بڑھنے کا موقع ملتا ہے جو غذائی چین کا پہلا اور سب سے اہم بلڈنگ بلاک ہے۔ جاپان کے ساحلوں پر مچھلیوں کی بہتات اس وجہ سے ہے کہ اس کے جنگل صحت مند ہیں۔ اس کی وجہ سے جاپان سی فوڈ کا بڑا ایکسپورٹر ہے۔
لیکن جنگل کے بارے میں فکر کرنے کی وجہ صرف مادی فوائد نہیں۔ ہمیں اس کی پرواہ بھی ہونی چاہیے کہ یہ ہمیں حیران کن طریقے سے فطرت کے معمے دیکھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان کی چھاوٗں تلے بیٹھ کر روزانہ کے ڈرامے ہوتے رہے ہیں۔ محبتیں پروان چڑھی ہیں۔ دلوں کو گرما دینے والی کہانیاں لکھی جاتی رہی ہیں۔ معاہدے ہوتے رہے ہیں۔ جنگوں کے فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ یہاں پر دریافت کرنے کو نئے راز ہیں۔ کرنے کیلئے نئی ایڈونچر ہیں۔ کیا پتا، ایک دن ہم ان کی زبان بھی سمجھ لیں، جو ہماری نئی حیران کن کہانیوں کا حصہ بنیں۔ اس وقت تک، جب جنگل میں اگلی بار جانا ہو تو اپنے تصورات کو آزاد چھوڑ دیں۔ کئی بار حقیقت ان دلکش تصورات سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
درخت صرف ایک “شے” نہیں۔