کبھی جنگل، کبھی صحرا، کبھی دریا لکھا
اب کہاں یاد کہ ہم نے تجھے کیا کیا لکھا
جب عشق کا پھیلاؤ اور بہاؤ اپنا رنگ جماتا ہے تو یہی کچھ ہوجاتا ہے جو اس شعر شاعر’شین کاف نظام‘ کے ساتھ ہوا ہے۔ سردست اس شعر کے انتخاب کی واحد وجہ اس میں وارد لفظ ’جنگل‘ ہے، جو بیک وقت سنسکرت اور فارسی زبان سے متعلق ہے۔
ایک فارسی فرہنگ کے مطابق جنگل کے معنی خود رو درختوں سے آباد ایسا خطہ ہے جس میں جوئے آب بھی رواں ہو۔ دوسری طرف لفظ ’جنگل‘ کے دیگر معنی و مترادفات میں دشت، بیابان، میدان اور ریگستان شامل ہے۔
فارسی اور اس کی رعایت سے اردو میں ادیب و شاعر کبھی جنگل و بیابان میں فرق روا رکھتے ہیں اور کبھی یہ الفاظ باہم مترادف برتے ہیں۔
جنگل میں بہار ہو یا ویرانے میں میلہ، ایسی کسی بھی صورتحال کو ’جنگل میں منگل‘ کہتے ہیں۔ اس کہاوت میں موجود لفظ ’منگل‘ سنسکرت سے متعلق ہے اور اس کے معنی میں شادمانی، مسرت، رونق، چہل پہل اور خوشی کا گیت شامل ہے۔
سنسکرت ہی میں سیارہ مریخ کو بھی ’منگل‘ کہتے ہیں، ہفتے کے دنوں میں شامل ’منگل وار‘ کو اسی سیارے سے نسبت ہے۔ باقی دنوں کا تعلق کن سیاروں سے ہےاس کا ذکر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
اردو زبان کے ایک بڑے محقق کے مطابق ’منگل‘ کے ایک معنی ’چُولھا‘ بھی ہیں، یوں کہاوت ’جنگل میں منگل‘ ویرانے میں چُولھا دہکانے اور ہانڈی چڑھانے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
کہنے کو تو یہ کہاوت اردو زبان سے متعلق ہے مگر فارسی زبان و بیان میں اس کا ایک اور مفہوم متعین کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ وہ یوں کہ فارسی میں پانی کا چھوٹا چشمہ ’منگل‘ کہلاتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں اور ’جنگل‘ کے مترادف لفظ ’بیابان‘ غور کریں جس کے معنی ’بے آب زمین‘ کے ہیں۔ ایسے میں جب بیابان میں آب رواں نکل آئے تو ’منگل در جنگل‘ یا ’جنگل میں منگل‘ ہو جاتا ہے۔
یوں تو یہ قیاسی مفہوم ہے مگر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ پانی زندگی کی علامت ہے، پانی کو فارسی میں ’آب‘ کہتے ہیں جو لفظ ’آباد‘ کی اصل ہے، پھر ’آب‘ کے ایک معنی ’رونق‘ بھی ہیں، اس معنی کو آپ ترکیب ’آب و تاب‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔
’جنگل میں منگل‘ کے بعد ’شنگل و منگل‘ کی بات کرتے ہیں۔ فارسی زبان میں ’شنگل و منگل‘ کے معنی ’چور اور ڈاکو‘ ہیں۔ دوسری طرف لاہور کے نواح میں واقع مصنوعی جنگل ’چھانگا ما نگا‘ کہلاتا ہے۔ لوک کہانیوں کے مطابق ’چھانگا مانگا‘ دو بھائی تھے جو لوٹ مار کے پیشے سے وابستہ تھے۔ اب ’شنگل و منگل‘ کے معنی اور ’چھانگا مانگا‘ کے کردار پر غور کریں، با آسانی سمجھ جائیں گے یہ حقیقتاً ایک ہی ترکیب ہے جو جزوی تبدیلی کے نتیجے میں ’شنگل و منگل‘ سے ’چھانگا مانگا‘ ہوگئی ہے اور ان دونوں کا مشترکہ مفہوم ’لوٹ مار‘ ہے۔
یوں تو فارسی میں ’بیشہ‘ کا لفظ ’جنگل‘ کا مترادف ہے، تاہم بعض فرہنگ نویس ’بیشہ‘ کے معنی چھوٹا جنگل قرار دیتے ہیں۔ اس ’بیشہ‘ کو علامہ اقبال کے شعر میں ملاحظہ کریں:
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملّا کے غلام اے ساقی
مکرر عرض ہے کہ جنگل کے مترادفات میں سے ایک ’ریگستان‘ بھی ہے۔ لفظ ’ریگستان‘ کے جُز اول ’ریگ‘ کے معنی ’ریت‘ کے ہیں، جب کہ جُز دوم ’ستان‘ علاقہ اور خطہ کے معنی میں برتا جاتا ہے، یوں ریگستان کے معنی ریتیلا علاقہ قرار پاتے ہیں۔
لفظ ’ریگ‘ کو ’ریگ مال‘ میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جو انگریزی sandpaper کا با محاورہ ترجمہ ہے۔ ریگ مال کا ہم قبیلہ ایک لفظ ’رُومال‘ ہے، یوں توں ’رُومال‘ بھی فارسی لفظ ہے مگر فارسی میں ’رومال‘ کو ’دست مال‘ کہتے ہیں۔ ’رو‘ کے معنی ’چہرہ‘ اور ’دست‘ کے معنی ہاتھ ہیں، جب کہ ’مال‘ فارسی مصدر ’مالیدن‘ سے ہے، جس کے معنی مَلنا اور رگڑنا ہیں۔ ان معنی کے ساتھ اب ’رومال‘ اور ’دست مال‘ کے استعمال پر غور کریں، ان دونوں لفظوں کو ’جیسا نام ویسا کام‘ کے مطابق پائیں گے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’مال‘ ہی سے ترکیب ’گوشمال‘ اور ’گوشمالی‘ بھی ہے جس کے معنی کان اینٹھنا اور مروڑنا ہیں۔ دیکھیں شاعر ’خالد اقبال یاسر‘ کیا کہہ رہے ہیں:
گوشمالی سے کب انہوں نے اثر لیا تھا
سرکشوں کو جو کام کرنا تھا کر لیا تھا
’تھر‘ پاکستان کا مشہور ریگستان ہے۔ ’تھر‘ کے ایک معنی ’پھیلی ہوئی چیز‘ ہے جب کہ دوسرے معنی ’خشک زمین‘ ہیں، ان دونوں معنی کے ساتھ صحرائے ’تھر‘ کے وسعت اور ویرانی پر غور کریں بات آسانی سمجھ آجائے گی کہ اسے یہ نام کیوں دیا گیا ہے۔
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ حرف ’ر‘ اکثر موقعوں پر حرف ’ل‘ سے بدل جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ’تھر‘ کی دوسری صورت ’تھل‘ ہے۔ جب ’بحر و بر‘ کہنا ہو تو ’جل تھل‘ کہتے ہیں۔ اس ترکیب کو میرٹھ (ہندوستان) کے نوجوان شاعر ’اظہر اقبال‘ کے ہاں دیکھیں
مین دل اک عرصے بعد جل تھل ہو رہی ہے
کوئی بارش میرے اندر مسلسل ہو رہی ہے
اب مشہور ظرف ’طشت‘ پر غور کریں کہ جو ’پھیلا ہوا‘ ہونے کی رعایت سے اردو میں ’تھال‘ کہلاتا ہے، اس ’تھال‘ کی اصل بھی ’تھل‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ اردو ہی میں ’تھال‘ کو ’تھر‘ بھی کہتے ہیں۔
سنسکرت میں ’جنگل‘ کو ’ون‘ کہتے ہیں جو ’واؤ‘ کے ’ب‘ سے بدلنے پر ’بَن‘ ہوگیا ہے۔ اسے آپ مشہور ’سُندر بن‘ اور تاریخی ’وندرا بن‘ کے ناموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اسی ’بن‘ سے لفظ ’بن مانس‘ ہے، جس کے لفظی معنی ’جنگل کا انسان‘ اور اصطلاحی معنی ’گوریلا‘ ہیں۔
جسے ہم عربی کی رعایت سے اردو میں روغن نباتات (Vegetable oil) کہتے ہیں وہ ہندی میں ’بناسپتی تیل‘ ہے اور لفظی معنی ہیں ’جنگل کی پتیاں‘ جب کہ اصطلاحی معنی میں جنگلی پھول، بوٹیاں، گھاس، ساگ پات اور نباتات شامل ہیں۔ اب ’بناسپتی‘ کو اس مصرع میں ملاحظہ کریں:
’پروا ہوا چلے ساون کی، ساری بناسپتی لہرائے‘
اب آخری بات اور وہ یہ کہ چند دہائی قبل تک گھی کے ڈبوں پر ’وناسپتی‘ لکھا ہوتا تھا جو بدلتے وقت کے ساتھ ’بنا سپتی‘ ہوگیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...