جنگل دن بدن سُکڑ رہا تھا، پھر بھی سارے درخت کلہاڑی کو ہی ووٹ دے رہے تھے ۔۔
در اصل غلطی وہ یہ کھا گئے کہ چونکہ کلہاڑے کے دستے کا تعلق انکی برادری سے تھا وہ سوچ بیٹھے کہ بچ جائیں گے ۔ یہی کچھ ہمارے ملک پاکستان میں ہو رہا ہے ۔ ہم سب اس غلطی پر ہیں کہ ہر شخص ہمارے جیسا ہی دل رکھتا ہے کیونکر ہم پر ہی وار کرے گا ؟
معاملات دراصل نیتوں پر منحصر ہوتے ہیں ، وہی آگ جو جسم راکھ کر دیتی ہمارے کھانا پکانے کے کام بھی آتی ہے ۔ وہی پانی جس کہ بغیر زندگی ناممکن ہے قدرت چاہے تو ہزاروں لاکھوں زندگیاں نگل جاتا ہے ۔
کل ایک ٹورونٹو ، کینیڈا سے میری تحریروں کے شائق نے رات فون کیا فرمانے لگے کہ پاکستان سے اتنا brain drain ہو رہا ہے آخر کیوں ۔ میں نے کہا آپ کو کس نے کہا ؟ کونسا brain drain؟ نیو یارک میں امریکہ کا باسی ، مشہور زمانہ کریمینل شاہین بٹ حال ہی میں پاکستان میں سینیٹر منتخب ہوا ہے ۔ ماشاء اللہ چار چاند لگائے گا اپر ہاؤس میں ۔ زبیر گل پہلوان لندن سے سینیٹ میں پہنچنے سے بال بال بچ گیا ۔
کل ہی رؤف کلاسرا صاحب اپنے پروگرام میں ہر فن مولا وقار مسعود کا تزکرہ کر رہے تھے جو پچھلے کئ سالوں سے مشرف ، زرداری اور نواز دور سے پاکستانی معیشت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا رہا ہے ۔ کیا genius آدمی ہے ۔ نوبل پرائز ملنا چاہئے ۔ ڈالر کو کل ہی ۱۱۵ کی سطح پر لے گیا ۔
اس پر وہ شخص مطمئن ہوئے اور کہنے لگے جی میں بھی مر چنٹ نیوی میں تھا اپنی زندگی کی جمع پُونجی KDA کی کسی اسکیم کے دو پلاٹوں پر لگا دی ۔ ۱۵ سال قسطیں بھرنے کے بعد پتہ لگا وہ زمین ہی جعلی تھی ۔ پیسے بھی گئے پلاٹ بھی ۔ ٹورونٹو میں تو میں اپنے گھر کو بھی تعالی نہیں لگاتا ۔ یہاں ایک شرافت ہے ، ٹرسٹ ہے ، ایمانداری ہے انسانیت کی بات ہے ۔
چیف جسٹس کے پاس صرف دس مہینے باقی ہیں لانڈری کے ، باقی ماندہ شاید بعد میں کھوسہ صاحب جو کچھ مہینوں کے لیے چیف رہیں گے صاف کر دیں۔ بابؤوں نے تو قسم کھائ ہوئ ہے کہ بے شک ہماری تنخواہیں کروڑ روپیہ مہینہ کر دو نہ ہم نے کام کرنا ہے اور نہ چوری کرنی چھوڑنی ماسوائے چند کے جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ۔
کل ایک میرا دوست یہاں امریکہ سے دبئ میں اپنے ایک عدد بھتیجے کے لیے نوکری کی بات چلا رہا تھا ۔ ہیسے کوئ پاکستانی ۳۰،۰۰۰ روپیہ بھی نہیں اور پندرہ پندرہ لڑکے ایک کمرے میں سویا کریں گے ۔ کیونکہ بقول سعید قاضی صاحب پاکستانی حکومت نے تو صاف کہ دیا ہمارا کام نوکریاں دینا نہیں ۔
ستر سال ہو گئے پاکستان کو بنے ، سوائے چند لوگوں کے جس کا جتنا جدھر داؤ لگا اس نے بے دردی سے لُوٹا ۔ ٹرین کا پنکھا ہاتھ لگا تو وہ اتار لیا ، مسجد سے مرضی کی جوتی چرا لی ۔ سرکاری دفتر کا فرنیچر گھر لے آئے ۔
یہ دادا گیری کا کلچر ایک دم ختم نہیں ہو گا ۔ ایک بہت خونی چھترول کی ضرورت ہے ۔
چین کے زی جِن پِنگ یا فلپائین کے ڈٹارٹے کی سروسز ادھار مانگ لیں ۔ یہ دونوں وہ لیڈر ہیں جن کو بدمعاش اور راشی بابؤں سے کام لینا آتا ہے ۔ ملک اس طرح ٹھیک ہوتے ہیں ۔ ایسے نہیں کہ جتنا بڑا بدمعاش اتنا زیادہ اثر رسوخ تھانے کچہری میں ۔ اور دندناتا پھرے ۔ زمیں تنگ کرنے کے دعوے کرے ۔
قدرت کا نظام ہے اگر ہر عروج کو زوال ہے تو گند کا خاتمہ بھی طے ہے ۔ کوشش کرنی پڑتی ہے ۔ نیت ٹھیک کرنی ہو گی ۔ ہمت کرنی ہو گی ۔
دیلھیں اب چیف جسٹس نے دن رات ایک کر دیے ہیں تو اس کا فرق تو پڑ رہا ہے ۔ نیچے والی جئوڈیشری بھی جو مادر پدر آزاد ہو گئ تھی قبلہ سیدھا کیے ہوئے ہے ۔ بلا وجہ اسٹے اور غلط فیصلوں کا بھی اعلی عدالتیں اب نوٹس لے رہی ہیں ۔
ہر کوئ تو خدا بنا ہوا ہے ، جیسے میں نے کل لکھا مرنے سے ڈرا رہا ہے ۔ لیکن ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے ۔ احمد فراز کے دو شعر ہمیشہ میرا بہت زیادہ حوصلہ بڑھاتے رہے ہیں ۔ ان سے بہت دفعہ ملنے کا اتفاق بھی ہوا۔
پہلا ۔
“شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئ شمع جلاتے جاتے”
اور دوسرا۔
“سبھی کو جان تھی پیاری، سبھی تھے لب بستہ
بس اک فراز تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا” ۔
میرا تو ان تحریروں سے صرف اور صرف یہی مقصد ہے ۔ نہ تعریف کی خواہش اور نہ کسی قسم کے صلہ کی تمنا ۔ اور نہ ہی یہ کہ ان سے کوئ پاکستان ٹھیک ہو جائے گا یا انقلاب آ جائے گا ۔ آپ کی سمجھ میں آ جائیں تو ٹھیک ، نہ بھی آئیں تو موج کریں خوش فہمیوں کی جنت میں آباد رہیں ۔
ہو گا تو وہی جو منظور خدا ہو گا ، ہاں البتہ نیت اور کوشش ضرور کام آئے گی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔