اگر آپ کسی خونخوار جانور کے بارے میں سوچیں تو سب سے پہلے آپ کے ذہن میں شیر کا خیال آئے گا۔ شیر ایک بہت بڑا جانور ہے جو زیادہ تر ہندوستان اور افریقی ممالک میں رہتا ہے۔ شیر بہت چست اور طاقتور ہے۔ اس کا تعلق بلّیوں کے خاندان سے ہے۔ شیر ایک بہت مضبوط جانور ہے۔ دوسرے جانور شیر کے سامنے آنے سے ڈرتے ہیں۔ شیر کوجنگل کا بادشاہ کہا جاتاہے لیکن وہ وادیوں اور مرغزاروں میں رہتا ہے۔ وہ کھلی جگہوں میں رہنا پسند کرتا ہے جہاں وہ آسانی سے دوسرے جانوروں کا شکار کر سکے۔ وہ تمام جانوروں پر حکمرانی کرتا ہے۔
اس خوبصورت جانور کی ہمت سے لوگ حیران رہتے ہیں۔ کئی ممالک نے شیر کو طاقت کی نشانی سمجھا ہے اور اس جانور کو اپنا قومی جانور مانا ہے۔ چند ممالک نے اپنے بنک نوٹ میں شیر کی تصویر استعمال کی ہے۔ پرانے زمانے میں مجرموں کو سزا دینے کے لئے ان کو شیر کے سامنے لایا جاتا تھا تاکہ شیر ان کو کھا جائے۔ شیر کی آنکھیں بہت بڑی ہیں۔ اس کا منہ ایک آدمی کے سر سے بھی بڑا ہے۔ وہ آوازوں کو بخوبی سن سکتا ہے۔ وہ دور سے اپنے شکار کو سن سکتا ہے۔ وہ چیزوں کو سونگھ بھی سکتا ہے۔ جب وہ دہاڑتا ہے تواس کی آواز آٹھ کلومیٹر کی دوری تک سنائی دیتی ہے۔ اس کی آواز گرجتے ہوئے بادل کی طرح ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتا ہے۔ اس ٹولہ میں پندرہ سے چالیس شیر، شیرنیاں اور ان کے بچے رہتے ہیں۔ وہ ساتھ میں مل کر دوسرے جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ان جانوروںکا بھی شکار کرلیتے ہیں جو ان سے زیادہ بڑے ہیں۔ جب کوئی شیر اپنے ٹولہ سے دورجاتا ہے تووہ اکثر مر جاتا ہے۔ ساتھ رہ کر وہ ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں۔
شیربہت تیز دوڑتا ہے لیکن زیادہ دور تک نہیں دوڑ سکتا۔ اس لئے وہ اپنے شکار کے زیادہ قریب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ شیرایک بہت عقلمند جانور ہے۔ وہ طوفان میں بھی شکار کر تا ہے تاکہ کوئی اسے سن نہ پائے۔ شیر کو دوسرے جانوروں کا گوشت کھانا پسند ہے۔ وہ لاتعداد خوبیوں کا مالک ہے۔ شیر پانی میں تیرتا ہے۔ وہ دور تک چھلانگ لگا سکتا ہے۔ وہ اندھیرے میں چاند اور تاروں کی روشنی کی مدد سے سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ وہ دن میں بیس گھنٹے تک سوسکتاہے۔ شیرنی شیرسے زیادہ شکار کرتی ہے اور اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ وہ شیر سے کم سوتی ہے۔ وہ ایک دن میں پندرہ گھنٹے تک سوسکتی ہے۔
پرانے زمانے سے لو گ شیر کا شکار کرتے آئے ہیں۔ آدمی شیر کا گوشت، اس کی دم، اس کے دانت، ہڈیوں اور جسم کے دوسرے حصوں کے لئے اس کا شکار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے شیر کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے۔ شیر اس بات کی مثال ہے کہ طاقتور جانور بھی معدوم ہو سکتے ہیں۔
اپنی پوری طاقت کے باوجودکبھی کبھی شیر خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرسکتا ہے۔ ایک بار ایک شرارتی چڑیا نے ایک بڑے شیر کو پریشان کردیا۔ چھوٹی چڑیا شیر کی پیٹھ پر بیٹھ گئی۔ وہ چڑیا شیر کی پیٹھ کو کھجانے لگی۔شیر کو گدگدی ہونے لگی۔ شیر نے کئی بار اپنی گردن گھمانے کی کوششیں کیں لیکن شیر اپنی پیٹھ پر بیٹھی چڑیا کو دیکھ بھی نہیں پایا۔ جب شیر اپنا منہ اپنی پیٹھ کی طرف کرنے لگاتو چڑیا پھر سے اڑ گئی۔ دیکھا بچوں،ایک چھوٹی چڑیا میں اتنی طاقت ہے کہ وہ شیر کو پریشان کر دے۔
شیر کی طرح جب آدمی معاشرہ میں رہتا ہے تو اس میں طاقت آجاتی ہے۔ پیسہ، سماجی عہدہ، شہرت اور پنے ہنر سے آدمی میں طاقت آجاتی ہے۔ لیکن جس طرح شیر کی طاقت ایک چھوٹی چڑیا کے سامنے محدود ہوسکتی ہے، اسی طرح ہر آدمی کے پاس ایک ایسی چھوٹی چڑیا آسکتی ہے جو اسے مایوس کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اس اثنا میںآدمی نا امید ہوجاتا ہے اور اس کی راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے۔ وہ لاچار اور پریشان ہوجاتا ہے۔ وہ چڑیا جو ہر وقت آدمی کے ساتھ رہتی ہے وہ دراصل اس کا ذہن ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت پیسہ یا عہدہ نہیں ہے۔ سب سے طاقتور آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے ذہن پر قابو رکھ پائے۔ وہ اپنا دھیان اپنے پسند کی چیز وں میں لگائے۔ آدمی کا ذہن اس کامالک نہیں بن سکتا۔
جو آدمی اپنے ذہن پر قابو نہیں رکھ پاتا، اس کے ذہن میں بری بری باتیں آتی ہیں۔ تمام ذہنی پریشانیاں جیسے کہ مایوسی، دبائو، اور اکیلاپن اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ آدمی اپنے ذہن کو قابو میں نہیں رکھ پاتا۔ مراقبہ سے آدمی اپنے ذہن پر قابو پاسکتا ہے۔ مراقبہ کے دوران آدمی خاموشی میں اپنی آنکھیں بند کر کے اپنی سانسوں پر دھیان دیتا ہے۔ اس طرح ذہن کی تربیت ہوتی ہے۔ آدمی کو سکون اور خوشی ملتی ہے۔ آدمی کا ذہن مضبوط بن جاتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...