غزوۂ بدر کا سب سے غالب پہلو حق و باطل کی کشمکش ہے جس میں رب ذوالجلال نے مشرکین مکہ پر اہل ایمان کو فتحمندی سے نوازہ ۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ ۰۰۰ اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کے) جڑ کاٹ دے، تاکہ (معرکۂ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ (معرکۂ حق و باطل کی اس نتیجہ خیزی کو) ناپسند ہی کرتے رہیں،‘‘(انفال ۷،۸) ۔ اس غزوہ کا ایک ثانوی پہلو یہ بھی ہے کہ مکہ سےروانہ ہوتے ہوئے مشرکین نے غلافِ کعبہ سے لپٹ کر یہ دعا کی تھی کہ خدایا ان دونوں گروہوں میں جو بہتر ہے اسے فتح کر۔ابوجہل نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’ اے رب کعبہ ، ہم میں سے جو برسرِ حق ہو اسے فتح دے اور جو برسرِ ظلم ہو اسے رسوا کر‘ ۔
اس دعا کو جنگ ِ بدر کےتنا ظر میں دیکھنا چاہیے۔ مشرکین نے دراصل فوجی تیاری اپنے تجارتی قافلہ کی حفاظت کے لیے کی تھی لیکن ابوسفیان کی قیادت میں وہ قافلہ بہ حفاظت مکہ مکرمہ لوٹ آیا ۔ ان کو چاہیے تھا کہ جنگ کاارادہ ترک کردیتے کیونکہ مسئلہ حل ہوگیا تھا ، لیکن وہ فوج کشی سے باز نہیں آئے ۔ میدان جنگ میں آنے کے بعد انہیں اس بات کی چنداں ضرورت نہیں تھی کہ اعلان کرتے یہ یوم الفرقان ہے آج فیصلہ ہوجائے گا کہ حق پر کون ہے ؟ لیکن اپنی طاقت کے غرور میں انہوں نے یہ بھی کردیا اور ان کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد رب کائنات نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘۔
دہلی کے انتخابی نتائج میں اس پہلو کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے ۔ہندوستان کے اندر تقریباً ۲۹ صوبے اور ۷ یونین ٹریٹیریز ہیں ۔ان میں ہرپانچ سال میں ایک یا کبھی کبھار زیادہ مرتبہ ریاستی انتخابات ہوتے ہیں ۔ اس طرح اوسطاً ہر دوماہ میں ایک بار مختلف سیاسی جماعتوں کا تصادم ہوتاہے ۔ دہلی میں بی جے پی اور اے اے پی کے درمیان مقابلہ تھا مگر کفار مکہ کی طرح امیت شاہ نے اسے افکارونظریات کی جنگ بنا کرپیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بار عوام کو دو نظریات میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک طرف شاہین باغ کے حامی راہل بابا اور کیجریوال ہیں اور دوسری جانب ملک کی حفاظت کرنے والے مودی ہیں۔ اس احمقانہ اعلان کےذریعہ امیت شاہ نے بلا وجہ اپنی پارٹی کی دہلی اکائی کے بجائے سنگھ پریوار کے ہندوتوا میدان میں اتار کر خود کونظریاتی شکست سے دوچار کر دیا۔ یہ نہ تو کیجریوال کے لیے ممکن تھا اور نہ مسلمان کر سکتے تھے ۔ ابوجہل اورشاہ کے دعوی ٰمیں کمال مماثلت ہے۔
جوش میں آکر مصطفیٰ آباد کے اندرامیت شاہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’’۸ فروری کو ای وی ایم کا بٹن اس قدر غصے سے دبائیں کہ کرنٹ شاہین باغ میں پہنچے‘‘۔ اس کے جواب میں شاہین باغ والوں نے ای وی ایم کا معکوس بٹن دبا کر جھٹکا ماراتو امیت شاہ ڈھیر ہوگئے ۔ صبر واستقامت کے پیکر مظاہرینِ شاہین باغ کےپاس اس اشتعال انگیزی کا وہی جواب تھا جو جابر و ظالم جالوت کے خلاف طالوت کے ساتھیوں کا تھا۔ ارشادِ ربانی ہے ’’انہوں نے(طالوت کے ساتھیوں نے) کہا، بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ ظالم حکمراں جالوت پر حضرت ِ داود ؑ کی کامیابی کا خلاصہ قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے) ‘‘۔مشیت الٰہی کی نشانیاں کے ظہور کا سلسلہ جاری و ساری رہتاہے لیکن عجلت پسند لوگ بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں ۔