جدید دور کے علمی دھماکوں نے اگر چہ سماجی زندگی کے بہت سارے شعبوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے تاہم یہ دھماکے قدیم دور کے سیاسی سانپ کی خصلت کو بدلنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔یہ ایسی سخت جان مخلوق ہیں جو ماحول کے مطابق اپنی مکاری کی کینچلی بدلتی رہتی ہیں اور اپنا لالچی پپیٹ بھرنے کے لئے کسی بھی برتن سے دودھ چرانے کو سیاسی کرتب سمجھتا ہے۔ میں نے کئی بار اپنے دوست جُمّہ لیڈرکو سمجھایا کہ سیاست کے اکھاڑے میں اترنے کے لئے کرتب بازی کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس اکھاڑے میں مت کودو کیونکہ نہ تم مداری کا فن جانتے ہو اور نہ ہی سازش رچانے کا ہنر رکھتے ہو۔ سیاست کا کام سیاسی ہنر مندی سے ہی چلتا ہے اس میں چالاکی کے ساتھ مکاری اور ایمانداری کے ساتھ بے ایمانی کے حربوں سے بھی کام لیناپڑتا ہے۔ بقول شاعر سیاست سازشوں کااک ایسا کھیل ہے جس میں کئی چالوں کو خود سے بھی چھپا کر چلنا پڑتا ہے لیکن وہ کب ماننے والا تھا ۔اُس کے دماغ میں تو اپنی پولٹیکل سائنس کی ڈگری کا فتور جوش مار رہا تھا ۔میرے سمجھانے پر وہ لمبی تقریر کرتے ہوئے بول پڑا کہ سیاسی میدان میں کودنے کا تومزہ ہی کچھ اور ہے ۔ہماری سیاست کی سانسیں جمہوریت کے آ کسیجن پر چلتی ہیں ۔کوئی بڑا ڈان جب رات کے اندھیرے میں عوام کو لوٹنے سے دستبردار ہو جاتا ہے تو وہ جمہوریت کا جھنڈا ہاتھ میں اٹھا کر سیاسیااکھاڑے میں کود پڑتاہے اور اپنے اپاہج قانون کی شہ رگ پر پاﺅں رکھ کر دن کے اُجالے میں عوامی خزانے کو دو دو ہاتھوں لوٹنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جُمّہ لیڈر پوسٹ گریجویٹ تھا۔ سر کاری نوکری پانے کے لئے سرکاری محکموں کی خا ک چھاننے کے بعدوہ جب خاک پر بیٹھ گیا توہی اُس کے ذہن میں الیکشن لڑنے کا خیال آیا تھا۔اےک دن وہ صبح سویرے میرے گھر پر آدھمکا اور اپنے چند ناتوان اور چاپلوس ہمنواوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ابھی تو شرو عات ہے ‘آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا۔ میں اس کے کہنے کے مقصد کو بھانپ گیا اور دل ہی دل میں ہنس کر سوچنے لگا کہ ان چاپلوسوں کو تو کوئی ادنیٰ سا لیڈر بھی اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتا ہے۔یہ موقع پرست مخلوق مطلب کے لئے گدھے کو بھی اپنا باپ بنا لیتے ہیں ۔مطلب ختم ان کی چاپلوسی ختم۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بڑا چاپلوس کمرے میں ہی نعرہ لگانے لگا کہ جیتے گا بھئی جیتے گا ‘جُمّہ لیڈرجیتے گا۔جُمّہ لیڈر خوش ہوکرمجھے اپنی سیاسی بصیرت دکھانے کے لئے تقریر کرنے لگاکہ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ کتنے ہی مڈل پاس اوران پڑھ سیاسی لیڈر بڑے بڑے تعلیم یافتہ افسروں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رہتے ہیں ۔یہ کہتے ہوئے اُس نے اپنا ایک واقع سُنایا کہ اُس نے جب پولٹیکل سائنس میں M.A. کیا تو وہ ایک مڈل پاس منسٹر کے پاس سرکاری نوکری مانگنے کے لئے چلا گیا ۔منسٹر نے جب اُسے تعلیم کے بارے میں پوچھا تو اُس نے بڑے فخر کے ساتھ M.A.کا نام لیا ۔منسٹر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے سامنے بیٹھے لوگوں سے ہنستے ہوئے بول پڑا کہ دیکھو بھائیو! یہ نو جوان صرف M.A کرنے کے بعد ہی نوکری ڈھو نڈ رہا ہے ۔میرے علاقے میں ابھی کتنےB.A بے کار بیٹھے ہیں۔ یہ سُن کر بہت سارے لوگ مجھ پر ہنسنے لگے اور میں اپنا سر پیٹتے ہوئے وہاں سے بھاگ آیا ۔اصل میں وہ ان پڑھ منسٹر M.A سننے کے بعد سوچنے لگا کہ پہلے Bآتا ہے اس کے بعد M آتا ہے اس لئے مجھے اور پڑھنے کی صلح دے گیا ۔یہ واقع سُنا کر جُمّہ لیڈر بڑے جوش میں کہنے لگا کہ” جب وہ اَن پڑھ لیڈرمنسٹری تک پہنچا ہے ‘میں کیوں نہیں منسٹر بن سکتا ہوں ‘میں نے تو سیاست میں ڈگری بھی کی ہے “یہ سنتے ہی اُس کے حواری نعرہ دینے لگے ”جُمّہ لیڈرقدم بڑھاﺅ ہم تمہارے ساتھ ہیں“یہ منظر دیکھ کر میں خود سے کہنے لگا کہ ہاں جُمّہ ! تم نادانی کا قدم اٹھاواوریہ تمہیں تمہاری ڈگری کے ساتھ کسی اندھے کنویں میں پھینک دینگے ۔ جُمّہ لیڈر انھیں چُپ کراتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا کہ اب بتاوکہ میرا یہ قدم صحیح ہے کہ غلط ؟ اُس کی اس خوش فہمی کو دورکرتے ہوئے میں اُسے سمجھانے لگا کہ دیکھو جُمّہ! تم جن ان پڑھ سیاست دانوں کی بات کر رہے ہو ان کے پیچھے پارٹی سپورٹ بھی ہوتا ہے اور دھن دولت کا سرمایہ بھی۔ تم ان چاپلوس لوگوں کی نعرہ بازی پر زیادہ اچھلنے کی کوشش مت کرو ۔ میرا اتنا ہی کہنا تھا کہ ان لوگوں میں سے ایک چاپلوس جذبا تی انداز میں بول پڑا کہ میں اس کو جتوا نے کے لئے اپنی جان تک دے سکتا ہوں ۔میں نے کہا کہ اے مریلے ! تم تو اپنی بیوی کی غنڈہ گردی کے سامنے بیگی بلّی بن جاتا ہے ۔ وہ تجھے روز جاڑو سے مارتی رہتی ہے‘ تو بڑے بڑے سیاسی مگر مچھوں کی غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنے کی بات کرتا ہے ۔جُمّہ لیڈر اپنے ووٹر کو چُپ کراتے ہوئے بول پڑا ۔"جب انگریز ملکوں میں تعلیم یافتہ لوگ لیڈربنتے ہیں تو کیا ہم تعلیم یافتہ نہیں ہیں"میں نے سر سے پیر تک اس پر ایک نظر ڈالی اور اس کو بڑی سنجیدگی سے سمجھانے لگا کہ پولٹیکل سائنس میں تم نے ضرور انگریزوں کے خیالات پڑ ھے ہیں لیکن تم دماغوں کے معیار بھی سمجھنے کی کوشش کرو۔وہاں پر ووٹ دینے کے لئے عقل استعمال کی جاتی ہے اور یہاں پر ووٹ لینے کے لئے ڈنڈے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہاں پر دانشوروں کو اپنا نمائندہ بنایا جاتا ہے اور یہاں کن کن لوگوں کی جے جے کار کی جاتی ہے ‘یہ تو تم جانتے ہی ہو۔وہاں کے لیڈر ملکی سرمائے کو عوام کی امانت سمجھتے ہیں اور یہاں کے لیڈر ملکی سرمائے کو ذاتی جائیداد سمجھتے ہیں ۔ میری ان باتوں سے نہ تو اُس نے اتفاق کا اظہار کیا اور نہ اختلاف کا لفظ منھ سے نکالا بلکہ مجھے ووٹ مانگتے ہوئے وہاں سے چل پڑا ۔ الیکشن کا بگل بجتے ہی اُس نے کاغذات نامزدگی بھر دئیے۔دوسرے لیڈروں کی طرح اُس نے بھی ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ پرکھوں کی زمین نیلام کرکے جلسے جلوس نکلوائے ۔ ایک جلسے کے دوران اُس نے جب الیکشن میں اترنے کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے مجھے ووٹ ڈال کر کامیاب بنا دیا تو میں آپ لوگوں کے پڑھے لکھے بچوں کو نوکریوں سے نوازونگا۔جلسے میں ایک دل جلے بے روزگار نوجوان نے زور زور سے ہنستے ہوئے کہا "گھر میں دیکھو چھلنی نہ چھاج، باہر میاں تیر انداز"۔ بہر حال الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصّہ لینا تو بچوں کا کھیل نہیں ہوتا ہے‘ اس لئے جُمّہ لیڈرکے پاس جتنا بھی گھر کا اثاثہ تھا وہ سب الیکشن مہم چلانے کے دوران داو پر لگادیا۔ الیکشن کے دن جب وہ پولنگ بوتھوں کا دورہ کر کے مقامی پولنگ بوتھ پر پہنچا تو الیکشن عملہ نے اُسے بتایا کہ اس کا کوئی ایجنٹ اُس بوتھ پر موجود نہیں ہے۔ وہ یہ سُن کر آگ بگولہ ہو کر اُس مریلے چاپلوس پر برس پڑا کہ تو تو میرا چیف ایجینٹ ہے وہ مریلہ آنکھ ٹکرا کر بولا کہ میں تیرا نہیں بلکہ رولنگ پارٹی کا ایجینٹ ہوں ۔اتنا سننا تھا کہ جُمّہ لیڈر آپے سے باہر ہوگیا اور اس پر جھپٹ پڑا۔اس گُتھم گتھائی کے دوران رولنگ پارٹی کا امیدواربھی اپنے غنڈوں سمت وہاں پرپہنچ گیا ۔غنڈوں نے جم کر جُمّہ لیڈرکی پیٹائی کر ڈالی اور رولنگ پارٹی والے امیدوار کے اشارے پر پولیس اُسے پولنگ بوتھ پر زور زبردستی کے الزام میں ڈنڈے مار مار کر پولیس اسٹیشن کی طرف لے گئے۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1590829791148005/