15 جولائی 2016 کی رات استنبول میں ایک معمول کی رات کی طرح تھی ۔ یہ شہر روشنیوں سے بھرپور ہے اور یہاں رات گئے تک بازار اور ہوٹلز کھلے رہتے ہیں۔ گویا یہ شہر رات دیر تک جاگتا ہے۔
اس رات بھی سب کچھ معمول پر چل رہا تھا۔۔۔لیکن۔۔۔اس خاموشی کے پیچھے ایک خونی طوفان، جلد اٹھنے کی تیاری میں تھا۔
ترک فوج، فضائیہ اور بحریہ کا ایک دھڑا جوکہ امریکہ میں مقیم ایک صوفی لیڈر ” فتح اللہ گولین” کا حامی اور طیب اردگان کی حکومت کا مخالف تھا کئی ماہ سے ترک حکومت کا تختہ پلٹ دینے کے لیے خفیہ پلاننگ میں مصروف تھا۔
ساتھ ہی وہ صدر طیب اردگان کے قتل کی سازش بھی تیار کرچکے تھے ۔
فوج کے کئی اعلیٰ افسران ، جنرلز ، ائیر فورس پائلٹس، نیول آفیسرز ، عدلیہ کے اہلکار اور سرکاری افسر بھی اس سازشی پلاٹ کا حصہ تھے۔
اور آج رات وہ اس پلان پر عملدرآمد کرنے جارہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریقین کی طاقت :
1- باغی۔۔۔۔
10،000 کے قریب فوجی اہلکار و افسران۔
74 ٹینک۔
172 جنگی گاڑیاں۔
35 جنگی طیارے۔
37 ہیلی کاپٹرز ۔
3 جنگی بحری جہاز۔
2- حکومت۔۔۔
ہزاروں پولیس اہلکار۔
ہزاروں عوام ۔
ملٹری کے پرو-گورنمنٹ عناصر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حملہ :
رات 9:30 پر سازش کے ایک سرغنہ میجر جلیبی اوغلو Celebioglu نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا اور انقرہ ، استنبول، ملاتیہ سمیت کئی ترک شہروں میں موجود ، سازش میں شریک فوجی افسروں کو ایڈ کیا۔
حملے کا آغاز استنبول سے ہونا تھا۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد پہلے فوجی دستے اور ٹینک حرکت میں آچکے تھے اور میجر جلیبی کو اطلاع کی گئی کہ “آبنائے باسفورس پر پہلے پُل پر قبضہ کرلیا گیا ہے”.
چند روز قبل ہی استنبول اور انقرہ شہروں میں اضافہ ٹینک اور جنگی گاڑیاں پہنچا دی گئی تھیں اور ان سب کو اب ہر دو شیروں کی اہم شاہراہوں ، پلوں ، چوکوں اور دیگر مقامات کے محاصرے کے لیے پوزیشنز پر پہنچایا جارہا تھا۔
۔۔ صدر اردگان اس وقت چھٹی پر ترکی کے ساحلی شہر مارمرس میں تھے اور وہیں ان تک بغاوت کی اندوہ ناک خبر پہنچی۔
باغیوں نے سب سے پہلے ترکی کے سرکاری ٹی-وی چینلز کے دفاتر پر قبضہ کیا اور TRT کے عملے کو مجبور کیا گیا کہ وہ باغیوں کا پیغام نشر کریں جس میں انہوں نے فوج کی طرف سے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیے جانے کا اعلان کیا۔
پورے ترکی پر یہ خبر بجلی بن کے گری۔۔۔۔
میڈیا پر اب باغیوں کا قبضہ تھا تاہم CNN نے موبائل کے زریعے صدر طیب اردگان کا ویڈیو نشر کیا جس میں انہوں نے باغیوں کی مذمت کرتے ہوئے عوام سے ، گھروں سے نکلنے اور باغیوں کا مقابلہ کرنے کی اپیل کی۔
دیکھتے ہی دیکھتے پورا ترکی جاگ گیا۔۔۔۔۔
عوام درجنوں ، بیسیوں اور سینکڑوں کی ٹولیوں میں نہتے، خالی ہاتھ اپنے قریب ترین شاہراہوں اور اہم مقامات کی طرف بڑھے تاکہ انہیں باغیوں کے شکنجے میں جانے سے بچا سکیں۔
اسی وقت استنبول اور انقرہ کی فضاؤں میں F-16 جنگی طیاروں اور اتاک گنشپ ہیلی کاپٹروں کی گرج سنائی دی ۔ جو کہ باغیوں کے تھے ۔
ہزاروں کی تعداد میں عوام نے اہم مقامات ، دفاتر اور شاہراہوں کا گھیراؤ کرلیا اور پھر پوری دنیا نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔۔۔۔۔ نہتے ترک عوام ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کو آگے بڑھنے اور ملک کے اہم مقامات پر قابض ہونے سے روکنے کے لیے خالی ہاتھ ہی ، ان ٹینکوں اور گاڑیوں کے آگے لیٹ کر ان کا راستہ روکنے لگے۔
ساتھ ہی اردگان کے حامیوں اور کارکنان نے جگہ جگہ مختلف رکاوٹیں کھڑی کرکے فوجیوں کا راستہ کھوٹا کرنے اور انہیں پیش قدمی سے روکنے کے کام کا آغاز کردیا ۔
اس موقعے پر درندہ صفت باغی فوجیوں نے ترک مظاہرین پر کھلم کھلا ، براہ راست فائر کھول دیا اور پورے ملک سے سینکڑوں زخمیوں اور شہادتوں کی اطلاعات آنے لگیں۔
ٹھیک اسی وقت معمولی ہتھیاروں سے لیس پولیس اہلکار بھی جدید ہتھیاروں، ٹینکوں ، طیاروں اور ہیلی کاپٹرز سے لیس درندہ صفت فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آگئے اور کئی شہریوں میں پولیس اور فوجی دستوں کے درمیان جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے کی اطلاعات آنے لگیں۔
پولیس نے محدود نفری اور معمولی ہتھیاروں کے باوجود بھی کئی مقامات پر باغیوں کے خلاف زبردست مزاحمت کا کرتے ہوئے انہیں کئی گھنٹے تک آگے بڑھنے سے روکے رکھا ۔
اسی وقت باسفورس پر قائم دونوں مقبوضہ پُلوں کی بازیابی کے لیے ہزاروں کی تعداد میں عوام ، ہر دو پلوں تک پہنچ چکے تھے اور باغی اندھادھند فائرنگ کے باوجود بھی ان کے جذبہ کو نہیں کچل پارہے تھے۔۔۔۔
اسی وقت سازش کے ایک سرغنہ “میجر ایگار” نے واٹس ایپ گروپ کے زریعے مظاہرین پر فضائی حملے کی اپیل کی ۔
اب باغی انتہائی خونی کھیل پر اتر آئے تھے ۔۔۔ اگلے چند منٹوں میں ٹاکسم سکوائر ، استنبول میں جمع مظاہرین پر جنگی طیاروں کی مدد سے بم گرائے گئے جس میں سینکڑوں مظاہرین شہید یا زخمی ہوگئے اور اسی دوران باسفورس کے قریب جمع مظاہرین پر گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد سے آتش و آہن کی بارش کی گئی۔
استنبول میں TRT ریڈیو سٹیشن کی عمارت ابھی تک باغیوں کے قبضہ میں نہ آسکی تھی چنانچہ ساڑھے 10 بجے باغیوں نے اس عمارت کی طرف پیش قدمی کی کوشش کی۔۔۔۔ سینکڑوں ترک رضاکار عمارت کے گرد گھیراؤ کیے ہوئے ، خالی ہاتھ اس کا دفاع کررہے تھے ۔
باغیوں نے فوراً ہی فوجی پن کا ثبوت دیتے ہوئے ان پر فائر کھول دیا جس میں بیسیوں افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔۔۔۔ لیکن شدید عوامی مزاحمت کے باعث باغی اس سٹیشن پر قبضہ نہ کرسکے اور۔ ٹی آر ٹی ریڈیو سے عوام کے لیے مسلسل خبریں اور ہدایات نشر ہوتی رہیں۔
۔۔۔
ادھر انقرہ میں باغیوں کے طیاروں نے پولیس سپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر کو بموں سے اڑا دیا اور اسی کھلی درندگی میں 70 پولیس کمانڈوز موقعے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
انقرہ میں باغیوں کا اگلا ہدف “ایوانِ صدر ” تھا۔۔۔۔۔
نصف رات کے قریب بغاوت کی خبر نہ صرف پوری دنیا تک پہنچ چکی تھی بلکہ ترکی بھی بغاوت کے پہلے جھٹکے سے سنبھل چکا تھا اور اب پولیس کے ساتھ ساتھ ترک آرمی اور ائیرفورس بھی باغیوں کے خلاف متحرک ہونے لگی۔
کچھ ہی دیر میں باغیوں کے جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز ایوان صدر کے قریب پہنچ چکے تھے۔۔۔یہاں بھی ہزاروں ترک رضاکار ، ایوان صدر کے دفاع کے لیے موجود تھے اور انہوں نے مظبوطی سے ایوان صدر کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔۔۔ان کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار تھا ، اور وہ تھا جذبہ حب الوطنی ۔
باغیوں نے بقایہ رات اور اگلی صبح تک ایوان صدر کے اطراف پر کئی مرتبہ بمباری اور گولی باری کی تاکہ رضاکاروں کا خاتمہ کرکے ایوان صدر پر قبضے کی راہ ہموار کی جاسکے تاہم کئی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود بھی ترک رضاکار عوام مظبوطی سے اپنی پوزیشنز پے جمے رہے۔
ایوان صدر پر حملے کے بعد باغیوں نے ترک پارلیمنٹ کی عمارت پر بھی بمباری کی۔
اسی دوران ترک فضائیہ کے طیاروں نے باغیوں کے 2 ہیلی کاپٹرز کو استنبول کی فضاؤں میں مار گرایا ۔۔۔۔ فضا میں موجود باغیوں کے طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کا ایمونیشن اور فیول ختم ہونے کے قریب تھا اور اب ان کے پاس فوراً لینڈ کرکے فرار ہوجانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ کیونکہ اب ترک فضائیہ بھی پوری طرح سے متحرک ہوچکی تھی۔ انہیں کسی بھی وقت مارگرایا جاسکتا تھا ۔
ادھر استنبول میں رات کے آخری پہروں میں سینکڑوں باغیوں فوجیوں نے “اتاترک انٹرنیشنل ایرپورٹ” کا گھیراؤ کرلیا تھا ۔
اس وقت ہزاروں کی تعداد میں عوام ائیرپورٹ کے اندر اور باہر موجود تھی جوکہ ائیرپورٹ کے دفاع کے لیے اکھٹے ہوئے تھے ۔
میجر موقع پر میجر جلیبی اوغلو نے باغی فوجیوں کو سخت احکامات جاری کیے کہ وہ اپنے راستے میں آنے والے ہر شخص یا دستے پر فائر کھول دیں اور جلد ازجلد ائیرپورٹ پر قبضہ مکمل کریں۔
ٹھیک اسی وقت صدر رجب طیب اردگان کا طیارہ استنبول کی فضاؤں میں ، اتاترک ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے کی تیاریوں میں تھا۔
ہزاروں عوام اور رضاکار ان کے استقبال کے لیے رن ون کے قریب پہنچ چکے تھے ۔
اسی وقت ایک بری خبر سبھی باغیوں تک پہننے لگی کہ بغاوت کے سربراہ “میجر جنرل سمیع طرزی ” کو ایک دلیر ترک فوجی “سارجنٹ عمر ہالیس دمیر” نے سر میں گولی مار کر قتل کردیا ہے۔۔۔۔۔ بھلے ہی اس قتل کو چند گھنٹے بیت چکے تھے لیکن یہ خبر دیگر باغی قیادت کی طرف سے اب تک چھپائی جارہی تھی ۔
رات کے آخر پہر پہلے پہل باغی فوجیوں نے سرنڈر کرنا شروع کردیا ۔
اب باغی قیادت کو بھی یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ بغاوت ناکام ہوچکی ہے۔
اس وقت تک سینکڑوں باغی فوجی بھی پولیس اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ، زخمی یا گرفتار کیے جا چکے تھے۔۔۔۔ باغیوں نے یکے بعد دیگرے اپنی گاڑیوں اور ٹینکوں کو چھوڑ کر فرار ہونا شروع کردیا ۔ ساتھ ہی کئی مقامات پر باغیوں نے اپنی پوزیشنز چھوڑنے کا آغاز کردیا ۔
رات 2:30 تک پولیس نے TRT نیوز چینل کی عمارت کو بھی عملے سمیت باغیوں سے آزاد کروالیا تھا ۔
صبح 3:20 پر صدر طیب اردگان کا طیارہ اتاترک ائیرپورٹ پر لینڈ کیا جہاں ہزاروں کے مجمع نے ان کا استقبال کیا۔
صبح 4 بجے کے نزدیک میجر جلیبی اوغلو نے واٹس ایپ گروپ میں پیغام کیا کہ ” اپنے میسج ڈیلیٹ کردو، سرنڈر کر دو یا پھر فرار ہوجاو ۔ ہم سب اپنی پوزیشنز چھوڑ رہے ہیں “.
صبح تک سینکڑوں باغی فوجی پولیس کے آگے سرنڈر کر چکے تھے۔ 6 بجے باسفورس پر تعینات باغی فوجیوں نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔
جن باغیوں نے اب بھی ہتھیار ڈالنے میں دیر کی انہیں ترک کمانڈوز نے کارروائی کرتے ہوئے ٹھکانے لگایا ۔
ترک عوام فتح یاب ہوچکے تھے۔۔۔۔۔
پورے ترکی میں جشن و خوشی کا سماں تھا ۔
اگلی شام تک سبھی باغی فوجی اور ان کے افسر ترک حکومت کی حراست میں تھے ۔
تاہم اگلے کئی ماہ تک گولین نیٹورک کے کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا ۔
۔۔۔۔۔
نقصانات :
باغی۔۔۔
104 ہلاک۔
15840 گرفتار ۔
2 ہیلی کاپٹر تباہ۔
عوام اور پولیس۔۔۔۔
350 کے قریب عوام جاں بحق۔
100 کے قریب پولیس اہلکار جاں بحق۔
5 فوجی اہلکار جاں بحق۔
2185 زخمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرفِ آخر :
ایشیاء ، افریقہ اور جنوبی امریکہ دنیا کے وہ بدقسمت خطے ہیں کہ جہاں کے کئی ممالک کی افواج نے کبھی نہ کبھی اپنے ہی ملک میں بغاوت کرکے اپنے عوام اور ملک کے مستقبل پر جہنم مسلط کردی۔
مصر، برازیل ، برما، ایتھوپیا ، نائیجریا ، پاکستان ، پیرو ، روانڈا اور ترکی ان بیسیوں بدقسمت ممالک میں شامل ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں نہ تو آج تک کوئی فوجی حکومت کامیاب ہوسکی اور نہ ہی کوئی ایسی حکومت کہ جسے مسلح افواج نے سازش کے تحت برسر اقتدار لایا ہوگا ۔
فوج کا کام صرف ملک اور عوام کا دفاع ہوتا ہے اور جب یہ افواج اپنی حدود پار کریں تو عوام کے پاس دو ہی آپشنز ہوتے ہیں ۔ یا تو ترکی کی طرح مزاحمت کرتے ہوئے اپنی منتخب کی ہوئی جائز حکومت کا دفاع کرتے ہوئے ملک کو بچا لیں۔
یا پھر باغیوں کو سپورٹ کرکے ملک کو اگلی کئی دہائیوں کے لیے وردی پوش درندوں کے ہاتھوں یرغمال بننے دیں اور ملک کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیلتا دیکھ کر خاموشی سے آنکھیں بند کرلیں۔
۔۔۔
ترک عوام نے کئی جانوں کی قربانیاں پیش کرتے ہوئے اپنے ملک ، قوم اور مستقبل کے لیے جنگ کی اور فتح یاب ٹھہرے ۔
****
ستونت کور
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...